عورت مارچ ۔ ہم کیا کریں ؟

08 مارچ عورت مارچ ہونے جا رہا ہے ۔ مذہب کے ماننے والے بڑی تعداد میں اس پر لکھ رہے ہیں "مکالمہ قمروسرمد” بھی موضوع بحث بنا ہوا ہے، بات ہوتی ہے تو رکنے کا نام ہی نہیں لیتی ، کوئی آب رواں ہے کسی پہاڑ سے نکلے اور سمندر کہ تہہ میں جا پہنچے۔

یہ شاید واحداحتجاج ہے جو ہوئے بنا ہی کامیاب ہو چکا ہے، اس کی کامیابی کی اس سے بڑی کیا دلیل ہے کہ اس کی پبلسٹی میں مذہب سے وابستہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے، بلکل ایسے ہی جیسے سنسر بورڈ کسی فلم کے ریلیز ہونے سے پہلے اسے بین کر دیتا ہے ، جو اصل میں یہ بتانے کے لئے ہوتا ہے کہ بھائی لوگو کوئی بڑی دھانسو فلم ہے یوں اس کی پبلسٹی بھی خوب ہوتی ہے اور لوگوں کا اسے دیکھنے کا تجسس بھی بڑھ جاتا ہے اور جب بھی ان کو موقع ملتا ہے وہ بین ہونے والی فلم لازمی دیکھتے ہیں ۔

عورت مارچ کی حامی خواتین کے مطابق یہ مارچ دراصل وہ اُس غلامی سے آزاد ہونے کے لئے کرتی ہیں جو مردوں نے پچھلی کئی دہائیوں سے ان پر مسلط کر رکھی ہے ۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کے حقوق کا استحصال ہو رہا ہے، جس پر وہ سراپا احتجاج ہیں اور وہ اپنے حقوق کو منوا کر ہی دم لیں گی ۔

دوسری طرف گزشتہ مارچ میں شریک خواتین کے ہاتھوں میں اٹھے بینرز جس جنسی استحصال کی نشاندہی کرتے ہیں ، ان کو دیکھتے ہوئے مذہب سے وابستہ افراد شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس مارچ کا مقصد دراصل اس تہذیب کو منہدم کرنے کے لئے ہے، جس پر اسلام کی چار دیواری قائم ہے ۔ ان کے خیال میں عورت کواگر اس کی چاہت کے مطابق (جیسے نعرے پلے کارڈز پر درج تھے ) آزادی دی گئی تو وہ چوکوں چوراہوں میں جس سے چاہے گی تعلق قائم کرنے لگے گی۔ ماں بہن کا تصور ختم ہو کر رہ جائے گا اور خاندانی نظام درہم برہم ہو جائے گا ۔

عورت مارچ کی مخالفت اور اس کو بین کروانے کی حمایت کرنے والے اپنی تحریروں اور تقریروں میں حد سے بڑھنے کے باعث اس کی پبلسٹی کے مرتکب ہو رہے ہیں ، جو شاید انجانے میں ان سے ہو رہی ہے، میں یہ بات سمجھنے سے تاحال قاصر ہوں کہ اگر ایک عورت کہہ رہی ہے کہ "اپنا کھانا خود گرم کرو ، اپنا موزہ خود تلاش کر لو، جہیز مت مانگو ، میں آوارگی نہیں آزادی چاہتی ہوں ” تو ان مطالبات کو ماننے سے تہذیب کو کون سے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں ۔ کیا یہ اتنے بڑے نعرے ہیں کہ اس کے مقابل یوم حیا بنانے کے لئے کمر کسی جائے یا میرا جسم میری مرضی کے مقابل ، جسم بھی اللہ کا مرضی بھی اللہ کی کا نعرہ لگنے لگے ؟

ہم شاید بات سنتے ہی نہیں بلکہ سننا ہی نہیں چاہتے ، ہم اگر بات سنیں تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے، عورتوں کے تمام مطالبات جو بظاہر قابل عمل ہیں ( سوائے ان کے جنہیں حکومت قرآن و سنت سے متصادم سمجھے اورجو معاشرے میں انتشار کا باعث بنیں ) ان کو مان لیا جائے تو تہذیبی تصادم کے ایک بڑے سانحہ سے بچا جا سکتا ہے۔

لیکن یہ تب ہی ممکن ہو گا جب ہم بات کریں گے اور خلوصِ دل سے اس معاملے کے حل کی طرف جائیں گے، مان لیجئے کہ ہمیں آج بات کرنے کی اشد ضرورت ہے، مکالمہ کیجئے ، بات سنئے سن کر اس کا کوئی حل نکالیئے، اگر مارچ کی حامی خواتین کا مطالبہ یہ ہے کہ انہیں ریپ نہ کیا جائے، راہ چلتے ان پر جملے نہ کسے جائیں ، انہیں بازاروں اور گلیوں میں تحفظ ہوان کی عزت کی جائے تو ان کے مطالبات کو ماننا پڑے گا، وگرنہ مخالفت پر محمول باتیں، اتنی چھوٹی سی بات کو مقابلہ پر کھڑی کر دیتی ہیں ، جس کی کوئی خاص وقعت بھی نہیں ، ہاں البتہ ٹکراؤ کی صورت میں اہل مذہب کےنقصان کا اندیشہ زیادہ ہےاور یہ نقصان اقدار کا ہو گا ۔

خطرے کی گھنٹی بج چکی ۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے گھر کی دہلیز اس نقصان سے محفوظ رہے تو آج مکالمہ کرنا ہو گا ، بات چیت کرنی ہوگی، آپ کچھ کہہ رہے ہیں تو ان کی بھی سننی ہو گی ، طاقت کے زعم میں مسئلے حل نہیں ہوتے بگڑتے ہیں ، اس زعم سے نکلئیے اس سے پہلے کہ کل یہ مارچ آپ کے گھروں سے نکلے ۔

اپنا خیال رکھئے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے