دوحا: امن معاہدہ ، جو رپورٹ نہیں ہوا

قطرکے دارالخلافہ دوحہ میں افغان طالبان اورامریکہ کے مابین امن معاہدے کے باوجود خدشات ظاہرکئے جارہے ہیں، پاکستان اور افغانستان کے مابین اعتمادکایہ فقدان ریاستی سطح سے اب عوام کی سطح تک منتقل ہو چکاہے اوراس کانقصان دونوں ممالک کوہوگا۔ 40سالہ جنگ کے باوجود بیشترافغان باشندوں کے ذہنوں میں یہ بات سرائیت کرچکی ہے کہ افغانستان کے تمام مسائل کی وجہ پاکستان ہے جس کے خاتمے کےلئے پاکستان اور ریاستی اداروں کو اہم کرداراداکرناہوگا۔ 29 فروری کے امن معاہدہ سے ایک روز قبل دوحہ کے شیرٹن ہوٹل میں دنیا کےتمام نشریاتی اداروں کے ایک یا ایک سے زائدنمائندے موجود تھے بیشتر رپورٹرزاورایڈیٹرزایک دوسرے سے اپنے تجربات کا تبادلہ خیال کررہے تھے لیکن افغانستان اورپاکستان کے صحافی ایک دوسرے سے گھل ملنے کی بجائے عجیب نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ۔

[pullquote]دوحہ میں کیاہوا؟؟[/pullquote]

28فروری کو جب پاکستان کے ایک بین الاقوامی ادارے سے منسلک صحافی نے افغانستان کے ایک صحافی کے ساتھ فیس بک لائیوکرناچاہاتو جب پاکستانی صحافی نے انکاتعارف یوں کیاکہ افغانستان کے یہ صحافی کافی عرصہ پاکستان میں گزارچکے ہیں اوروہ خطے کی صورتحال سے پوری طرح آگاہ ہے ہم اس کو پاکستانی صحافی بھی کہہ سکتے ہیں تو افغان صحافی نے نہایت سخت لہجہ اپناتے ہوئے اس بات کو ردکردیاکہ” میں پاکستانی نہیں افغانی ہوں اورمجھے پاکستانی کہہ کر آپ نے ایک طرح سے گالی دی ہے “۔پاکستان کے سینئرصحافی نے اس موقع پر دیگرصحافیوں کوبتایاکہ لگتاہے کہ افغانستان کے تمام ادارے پاکستان کو اپنی تباہی کاذمہ دارگردانتے ہیں ۔

[pullquote]شاہ محمودقریشی کی بریفنگ کے دوران کیاہوا؟؟[/pullquote]

پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی جب شیرٹن ہوٹل تشریف لائے تووہاں پر بین الاقوامی میڈیانے انہیں گھیرلیاانہوں نے بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان ایک پرامن افغانستان دیکھناچاہتاہے اوراس حوالے سے پاکستان نے تمام تروسائل بروئے کارلائے توایک افغانی صحافی نے نہایت جارحانہ لہجے میں شاہ محمودقریشی کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان سمجھتاہے کہ اس نے اس دوحہ امن معاہدے میں کلیدی کرداراداکیالیکن پاکستان تو خود دہشتگردوں کی جنت کی حیثیت رکھتاہے ، شاہ محمودقریشی نے ہنستے ہوئے جواب دیامحترم آپ ماضی میں رہ رہے ہوکبھی موجودہ پاکستان کوبھی دیکھ لیاکرو،آپ کا تجزیہ غلط ہے ۔اس موقع پر ایک اور افغان صحافی نے دوسراسوال داغ دیا پاکستان میں آج بھی افغان طالبان کی کوئٹہ اور پشاورشوریٰ موجود ہے پاکستان سے مسلسل افغانستان میں دخل اندازی ہورہی ہے ؟شاہ محمودقریشی نے ایک مرتبہ پھر مسکراتے ہوئے کہاکہ یہ ماضی کا حصہ تھا حال میں ہم کھڑے ہیں اورمستقبل کی جانب جاناہوگا۔

افغان صحافیوں کے رویے سے لگ رہاتھاکہ وہ امن معاہدے کی بجائے پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیناچارہے تھے شاہ محمودقریشی نے جب ایک برطانوی صحافی کے سوال کاجواب دیاتوایک اور افغان صحافیوں نے ایک اورسوال کیاکہ پاکستان آخرکیوں افغانستان کو اپنی کالونی دیکھناچاہتاہے؟ وزیرخارجہ نے جواب دیاکہ آپ غلط سمجھ رہے ہوپاکستان افغانستان کو برابری کی سطح پر دیکھناچاہتاہے خصوصاًآج کے دن توایساسوال نہ کریں پاکستان نے اس امن معاہدے میں اہم کرداراداکیاہے اس کو سراہاجائے ۔دوحہ امن معاہدے کے دوران امریکی وزیرخزانہ مائیک پومپیونے جب کہاکہ آج کایہ معاہدہ افغانستان میں امن کی فتح ہے توکرسی پرقریب بیٹھے ہوئے افغان صحافی نے کہاکہ امن کی نہیں پاکستان کے طالبان کی فتح ہے ۔

[pullquote]افغان صحافیوں کا رویہ کیوں سخت تھا؟؟[/pullquote]

گزشتہ چھ سات سالوں کے دوران افغان حکومت کارویہ پاکستان کے متعلق انتہائی معاندانہ تھا کابل کی کسی بھی بم دھماکے کی ذمہ داری تحقیق سے پہلے پاکستان کے سر ڈال کر جان خلاصی کی جاتی تھی افغانستان کے موجودہ نائب صدر امراللہ صالح کھل کر دوحہ امن کےخلاف متعددبار اپنی رائے کااظہارکرچکے ہیں کچھ عرصہ قبل طورخم بارڈرپرپاکستان اورافغانستان کے فوجیوں کے مابین کشیدگی کے نتیجے میں جب افغانستان کی جانب سے مسلسل گولہ باری کی کوشش کی گئی تو دونوںممالک کے مابین عوامی سطح پر تلخی میں اضافہ ہوا افغان ادارے سے وابستہ ایک اہم پاکستانی صحافی نے دوحہ میں بتایاکہ افغانستان کی بیوروکریسی میں پاکستان کوگالی دیناایک فیشن بن گیاہے کسی بھی افسر یا سیاسی جماعت میں ترقی کےلئے یہ لازمی ہے کہ پاکستان کو تمام محرومیوں کامجرم قرار دیاجائے اورپاکستان کےخلا ف کھل کربولاجائے دوحہ میں امن معاہدے کے بعد دوتین افغان صحافیوں سے جب اعتماد سازی کے متعلق بات چیت کی کوشش کی گئی توسب نے جواب دیاکہ پاکستان کے ساتھ کسی طریقے سے بھی بات نہیں ہوسکتی ہمارے تمام مسائل کی جڑ پاکستان میںہے جب صحافی سے پوچھاگیاکہ اس وقت 27لاکھ افغان باشندے پاکستان میں موجود ہیں کبھی ان کی واپسی کےلئے بھی آوازاٹھائیں توافغان صحافی نے سوال کاجواب دینے کی بجائے ہنس کراسے ٹال دیا ۔

[pullquote]افغان امن معاہدہ کو کس سے خطرہ ہے؟؟[/pullquote]

دوحہ میں دو دنوں تک افغان اوربین الاقوامی صحافیوں کےساتھ وقت گزارنے کے بعد جب امریکی نشریاتی ادارے کے رپورٹر نے افغانستان میں متعین سابق افغان سفیررستم شاہ مہمندسے امن معاہدے کے متعلق سوال کیاتوانہوں نے واضح کیاکہ دوحہ امن معاہدے کو پوری دنیا نے خطے میں خوش آئندقراردیاہے پوری دنیا اس کی تائیدکررہی ہے اگراس امن معاہدے کوکوئی خطرہ ہے تو وہ افغانستان سے ہے کیونکہ افغانستان کی موجودہ حکومت کے بیانات کودیکھتے ہوئے بہت سارے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے