کشمیرپر بی جے پی کی آہنی گرفت اور مقامی سہولت کار

ہندوستان کی آزادی، دو ملکوں کے قیام اور کشمیر کی بے ہنگم تقسیم کے بعد سے ہی بی جے پی نے کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط سے مضبوط تر کرنا شروع کردی ، اس کی شروعات اپنے منشور میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور پورے کشمیر پر قبضہ جمانے کا عزم سے ہوئی – اس تسلسل میں پہلے وشوا ہندو پریشد ، پھر جن سنگ جماعت کے نام سے ریاستی انتخابات میں حصہ لیا –

1957 کے الیکشن میں و شوا ہندو پریشد نے تین ، 1962 کے الیکشن میں بھی تین ، 1967 اور 1972 کے الیکشنز میں جن سنگ کے نام سے بھی تین تین 1977 میں جنتا پارٹی کے نام سے 13 ، 1987 میں بی جے پی کے نام سے دو نشستیں جیتیں – 1996 کے الیکشن میں بی جے پی نے 8 ;2002 میں صرف ایک، 2008 میں 11دوسرے مرحلے میں سال 2014 کے الیکشن میں بی جے پی نے 25 نشستیں حاصل کیں اور یہ اس کا ٹر ننگ پوائنٹ ثابت ہوا ۔اس نے مصمم ارادے سے اپنی مہم جاری رکھی اور کا میابی حاصل کی ۔

بی جے پی ، پی ڈی پی اتحاد نے مفتی سعید مرحوم کو وزیراعلیٰ بنایا – بی جے پی کو مفتی محمد سعید مرحوم کے حکومت میں شامل کرنے کے غلط فیصلے نے بد قسمتی سے کشمیریوں کے مستقبل کو سیاہ اور بی جے پی کا مقدر سنوار دیا ۔ بی جے پی نے پہلی بار ریاست کی حکمرانی میں حصہ دار بن کر اس ریاست کی تحلیل، شناخت، مسلمانوں کے تشخص کو مٹانے کی ابتدا اور ہندووتوا کے احیا کی بنیاد ڈالی – مفتی صاحب کی حکومت کے دوران ہی بی جے پی کے ایک ورکر کو ریاست کا گورنر بنا کر مستقبل کے ارادوں کی تکمیل کی ابتداءً کردی گئی- مفتی صاحب سے حمایت واپس لے کر اسمبلی کو بر خواست کرایا ، پہلے گورنر راج پھر صدر راج کے تحت ریاست کو بی جے پی کے شکنجے میں کس دیا۔

پانچ اگست 2019 کا سورج کے طلوع ہوتے ہی ریاست کے تشخص ، سالمیت، تاریخ بلکہ جغرافیہ کو بدل کر اس کو تحلیل کر کے دفعہ 370 کے تحت ریاست کی علامتی خود مختاری اور متنازع حیثیت کو ختم کر کے دو حصے کر دیے اور دونوں کو یونین ٹیریٹری کا درجہ دے کربراہ راست مرکز کی حکمرانی میں لایا۔ ہندوستان کا پورا آئین ریاست پر نا فذ کر دیا اور ریاستی آئین ختم کر دیا ۔

31 اکتوبر 2019 کو اس آئینی عمل کو قانون کے تحت عملی صورت دے دی جس کے تحت بے شمار ہندوستانی قوانین کو ریاست میں لاگو کیا اور کئی ریاستی قوانین کو منسوخ کر دیا ۔گزشتہ ہفتے 37 نئے قوانین کے تحت مرکز کا دائرہ کار مزید بڑھا دیا ۔ یہ وہ قوانین ہیں جن کے تحت ریاست کو ہندوستان کی تعریف میں آنے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔

تیسرے مرحلے میں اس گرفت کو زمین پر عملی صورت دینے کے لئے عملی اقدامات اٹھایا ہے جو اس ساری کارروائی کا محور اور مقصد ہے. اب یہ رمل شروع ہو گیا ہے ، جس کے لئے وادئ کشمیر میں 5000 ہزار ایکڑ اور جموں ایریا کے مسلم اکثریتی علاقے میں ایک ہزار ایکڑ سرکاری زمین ہندوستانی اور بیرونی سرمایہ کاروں کو معمولی سالانہ کرایہ پر مکمل سیکیورٹی گا رنٹی کے ساتھ مہیا کی جارہی ہے۔ یہ اس زمین کے علاوہ ہےجو فوج اور مرکزی دیگر سکیورٹی اداروں کے قبضہ میں ہے، جہاں فوجی چھاؤنیاں اور ان کی رہائش گاہیں ہیں ، جو ہر گاؤں گو ٹھ میں پھیلی ہیں ، مندر گردوارے بنے ہیں اور وہاں کا ماحول بنارس ،امتھرا اور وار نسی جیسا لگتا ہے-

ہندوستانی سرمایہ کاروں نے ہوٹلوں اور کاروباری اداروں کے لئے جو زمین لیز پر لی ہے وہ بھی اس کے علاوہ ہے – نئی آئینی اور قانونی صورتحال کی وجہ سے جو زمینیں بینکوں کے پاس گروی ہوکر نا دہندگی کا شکار ہو گئی ہیں، اب ان کی بولی ہندوستان بھر کے لئے کھلی ہو گی -ہندوستان نے کشمیر کے موسم، آب و ہوا اور پیداواری صلا حیتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، سیروسیاحت، ادویاتی جڑی بو ٹیوں ،پشو پالن ، اون، پشمینہ، شال بافی، وُڈ وَرک، پاور جنریشن ، ریشم / سلک ، فروٹ ،پارٹیکل ر و سری کلچر ، فلم انڈسٹری، صحت کے شعبے، تعلیم ، قالین بافی، پیپر معاشی ، روایتی کشمیری گھریلو دستکاریاں ، آئی ٹی وغیرہ میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے یہ زمین مہیا کی جائے گی –

مئی کے مہینے میں کشمیر اور جموں میں سرمایہ کاری کے لیے بڑے پیمانے پر گلوبل سمٹ کا انعقاد کیا جارہا ہے جس کا مقصد بیرونی دنیا کو کشمیر پر اقتصادی منافع کے لئے انگیج کیا جائے- اس عمل سے ہندوستان بیک وقت سیاسی ، اقتصادی اور سفارتی فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے۔

مہاراشٹرا اور چنائی ریاست کے سرمایہ کاروں کے علاوہ ، اس سال باقی ہندوستانی سے 250 سر مایہ کار زمین لے کر مختلف صنعتیں قائم کررہے ہیں – کار خانے لگنے کے ساتھ کار خانے دار خود، ان کی منیجمنٹ ، مزدور یہاں آباد ہوں گے- غریب کشمیریوں کی لاکھ روپے کنال کی زمین مہاراشٹر، گجرات، چنائی، اور یوپی کے لالے کروڑ روپے میں خرید کر اپنی بستیاں بسائیں گے، ووٹر بنیں گے، حکو مت بنائیں گے ، آبادی بڑھا کر کشمیری فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہوکر محصور اور آبادی کا تناسب پر فریب طریقے سے بدل جائے گا ، اس کے بعد مقامی مسلمان کشمیریوں کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے گا جو اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔

ہندوستان اس وقت کشمیر میں جدید طرز کے ’’نازی ازم ‘‘ کی بنیاد ڈال رہا ہے، جس کے تحت بے شمار نئے اور کئی بھولے بسرے قوانین کے تحت کشمیریوں کو کس رہا ہے ۔صف اوّل کی بولنے والی ساری قیادت کو مختلف قوانین کے تحت سزا دلواکر اور باقی لیڈروں کو PSA کے تحت نظر بند کر رکھا ہے جن میں ہندوستان نواز کشمیری لیڈر بھی شامل ہیں-

ہندوستان نواز کشمیری لیڈروں میں شیخ عبداللہ کے خاندان کو کسی طور نظرانداز کر کے کشمیر میں امن کی بحالی ممکن نظر نہیں آتی ، بی جے پی کو کسی مرحلے پر اس کو ساتھ ملانا پڑے گا اور یہ اپنے اٹا نومی کے فارمولا کو نظرانداز نہیں کر سکتے نہ ہی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کریں گے۔

اسی طرح مفتی سعید کی بھی ایک لیگیسی ،محبوبہ اور اب اس کی منہ پھٹ بیٹی التجا کا رول بھی اہم ہے ۔ ان لوگوں کی بقا بھی سیلف رول کے ساتھ ہے ۔ ان دونوں کا ووٹ بینک ہے اور کشمیر میں ان کا اثر رسوخ نئی پیداوار کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ عام لوگوں کو فوج ، پو لیس، سکیورٹی ایجنسیوں کے نرغے میں رکھا ہے ۔ اوسطاً آٹھ لوگوں پر ایک فوجی تعینات ہے ۔ دفعہ 144 مسلسل نافذ ہے اور اس کا بے رحم نفاذ کیا جارہا ہے ۔

سوشل میڈیا برائے نام اپنی رفتار کی پست ترین سطح پر چل رہا ہے اور اس پر بھی کڑا پہرہ ہے ۔ الغرض ہندوستان کشمیریوں پر ہر وہ حربہ استعمال کر رہا ہے جس سے ان کی ہمت ، سکت اور حوصلہ کو توڑ دیا جائے ، آزادی تو دور کی بات ہے ، عام شہری کے مطالبات بھی بغاوت کے مترادف اور قابل تعزیر ہیں ۔لوگوں کو سانس بھی نہیں لینے دیا جاتا ۔ زبان، ہاتھ، پاؤں حتی کہ اشاروں کنایوں پر بھی سکوت طاری کر دیا ہے ۔ آئین کے تحت ریاست کے مکمل انضمام کے بعد ہندوستان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی – اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت انسانی حقوق اور حق خود ارادیت تو دور کی بات ہے ، ریاست میں ہندوستان کا ہر عمل اپنے ہی آئین اور قانون کے بھی خلاف ہے۔

کشمیر پر آئین و قانون ،اخلاق اور سیاسی اصولوں کے خلاف کیس ہونے کے باوجود، بی جے پی ہی نے تواتر کے ساتھ مستعدی سے ڈٹا رہنے کی وجہ سے دنیا کو اپنا ہمنوا بنا دیا جبکہ پاکستان نے کشمیریوں کے ساتھ تمام تر ہمدردیاں ، مضبوط ترین قانونی، اخلاقی اور سیاسی کیس ہونے کے باوجود کامیابی سے ہمکنار ہونے والے کئی مواقع نیم دلی اور ناقص سفارت کاری کی وجہ سے ضائع کر دیے، جیسے 1947 , 1965, 1999 کے نادر موقعے جب پاکستانی لوگ وادی کے اندر دور تک پہنچ گئے تھے-

کشمیر پر جنگ حوصلہ اور استقامت مانگتی ہے، اس کے لئے ملک کے اندر سیاسی اور اقتصادی استحکام کی ضرورت ہے۔ چھ ماہ کے زور و جبر کے بعد کشمیرکی سیاسی تاریخی روایت کو بر قرار رکھتے ہوئے کشمیریوں کا ایک دستہ سید الطاف بخاری سابق وزیر کی قیادت میں بی جے پی کے کشمیر میں قدم جمانے کے لئے کمر بستہ ہو گیا ہے جس کی قیادت میں ’’ اپنی جماعت‘‘ کے نام سے جماعت کی بنیاد ڈال دی ہے جس کے ذریعہ وادی میں بی جے پی اپنے غاصبانہ اقدامات کی جوازیت پیش کرے گی۔

بد قسمتی سے کشمیر کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ کشمیری بیرونی آقا اور حکمرانوں کو دعوت دے کر یا معاون بن کر ان کی حکومت قائم کرنے اور بحال رکھنے میں مدد کرتے آئے ہیں ، جب ان کو ظلم کی چکی میں کسا جاتا ہے تو پھر اس کے خلاف دوسرے غاصب کو دعوت دیتے ہیں ، جو ان پر مزید ظلم کرتا ہے ۔ مغلوں، سکھوں، افغانوں ، ہندوستانیوں کو اسی طرح بلایا ، پھر نکالنے کی تحریک چلائی۔ ان کو اپنے قومی کیریکٹر کا محاسبہ کرنا پڑے گا ۔

سوائے پاکستان،ملائیشیا، ترکی، ایران اور چین کے علاوہ دنیا کی باقی حکومتیں اس سارے ظلم وستم پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں ۔پاکستان کی تو بات ہی نہیں، ہندوستان اپنے ملک اور دنیا بھر کی طعن و ملامت کو خاطر میں ہی نہیں لاتا ۔بغیر آئینی اور قانونی انضمام اور دنیا کے ایک بڑے حصے کی مخالفت کے باوجود ہندوستان کشمیر کر کو ستر سال سے یر غمال بنانے میں کا میاب رہا ، اب آئینی گرفت مضبوط اور دنیا بھر کو شٹ اپ کال دے کر ہندوستان اور کتنا عرصہ اس میں کامیاب ہوگا ،اللہ بہتر جانتا ہے ،لیکن یہ بھی ایک فطری عمل ہے کہ ظلم تو ظلم ہے ، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔

ہندوستان اور پاکستان کے سیاسی اور سفارتی تعلقات نکتہ انجماد اور حالت جنگ کے قریب ہیں ۔وزیر اعظم مودی کے طرز عمل سے جنگ ہندوستان پاکستان کی نہیں بلکہ تہذیبوں کی ہے ، جس کے نشانے پر اسلام بالخصوص اور باقی ساری الہامی اور غیر ہندو تہذیبیں ہیں ۔مودی کی پارلیمنٹ میں تقریر اس کی گواہ ہے ۔ اس حقیقت کا ادراک صرف عجمی مسلمانوں کو ہے ،عربی اپنی آمرانہ سلطنتوں میں محو خواب ہیں ۔ یورپ کو اس کا ادراک ہے لیکن وہ اس کا اظہار صرف تشویش کے طور کرتے ہیں ، عملی طور پر نہیں۔ اس کا مقابلہ براہ راست پاکستان، ترکی، ملائیشیا اور ایران کر رہے ہیں۔اس کی نوعیت صلیبی اور نازی طرز پر ہے۔

اگر کشمیر پر ہندوستان کے ظلم کا یہ آخری وار بھی خالی گیا تو ہندوستان ہٹلر کی طرز پر کشمیری مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے کے علاوہ اپنی سرحدوں سے باہر دھکیلے گا ، جن کی محفوظ ترین پناہ گاہ پاکستان ہی ہو سکتا ہے ۔ آزاد کشمیر ، دنیا بھر میں آباد ریاستی باشندوں اور پاکستان کو ہندوستانی ظلم اجاگر کرنے، دنیا بھر کی رائے عامہ کو حقائق، دلیل اور منطق کے متوجہ رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس کا ادراک نا گزیرہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے