میرا جسم میری مرضی

میرے سامنے جن بھیڑیوں کا چہرہ ہے ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے، بظاہر وہ مذہبی لبادہ اوڑھتے ہوں گے لیکن جن افعال اور ثقافت کی بنیاد ڈالی گئی ہے اس کا مذہب سے دور دور تک تعلق نہیں ہے۔ اگر غیر مذہبی معاملے پر قلم اٹھایا جائے تو یقینا اس کا تعلق بھی مذہب سے نہیں ہوتااور نہ ہی سوال مذہب پر اٹھتا ہے البتہ مذہب اتنا حوصلہ ضرور دیتا ہے کہ کمزور کو مضبوط کریں، ظالم کو کٹہرے میں لائیں، بھلے وہ جس پوشاک کے بھی حامل ہوں۔ مذہب نے انسان کو عالمگیر حقیقتوں کی تلاش کا راستہ دکھا یا ہے تاکہ بھیڑیوں کا چہرہ عیاں کریں اور بتدریج ’راہ راست‘ پر لے آئیں۔ جب معاشرے کی تقسیم طاقت کی بنیاد پر ہوں تو مذہب سمیت ہر اس شے پر بھی طاقت آزمائی ہوتی ہے جس نے رہنمائی کرنی ہوتی ہے۔ معاشرتی ڈھانچہ کی تشکیل اور بہتری کڑوے گھونٹ سے گزرنے کے بعد ہوتی ہے جہاں پر معاشرے کو اپنے ’تاریک دور‘ کا بھی علم ہوتا ہے اور روشنی کے سفر کا بھی اندازہ ہوتاہے۔

خواتین کے عالمی دن اور عورت مارچ کے مناسبت سے ملک بھر میں چیخ و پکار پر خاموشی کے فضائل گنتے رہے مگر صاحب الرائے ہونے اور معاشرتی مظالم کے احوال کا علم رکھتے ہوئے خاموشی پر عافیت جاننا ضمیر پر بوجھ بن گیا۔ عورت مارچ سے قبل ہی یہ نعرہ مستانہ بلند ہوا کہ عورت مارچ کے نعرے بالخصوص میرا جسم میری مرضی غیر شرعی ہے، متعدد حلقے اس پر بات پر متفق ہیں کہ وہ عورتوں کے حقوق کی حمایت کرتے ہیں مگر دائرہ کار اور حدود کے اندررہتے ہوئے۔ بعض ’داعیوں‘کا استدلال رہا بلکہ وسیع پیمانے پر اس بات کو پھیلایا گیا کہ حضرت فاطمہ بنت محمد (تکریمی الفاظ اخبار کی وجہ سے استعمال نہیں کئے)نے اپنی میت کو رات کے وقت نکالنے کی وصیت کی تاکہ کسی غیر کی نظر نہ پڑے۔یہی نہیں اس عورت مارچ کے ردعمل میں جماعت اسلامی اور بعض مکاتب فکر کی جانب سے ’حیا مارچ‘ منعقد کیا گیا۔

8 مارچ کو خواتین کے حقوق کا عالمی دن اور اس مناسبت سے عورت مارچ گزشتہ کئی سالوں سے رسمی طور پر نکالے جارہے ہیں لیکن گزشتہ سال جن نعروں کو لیکر مارچ کردیا اس نے معاشرتی ڈھانچے پر جیسے بمباری کردی۔ گزشتہ سال کا عورت مارچ غیر روایتی تھا اور ان کے نعرے بھی غیر روایتی تھے جو غلط اور صحیح کی بحث سے ہٹ کر اس چیز کا ردعمل تھا کہ اب تک کسی طبقے نے حقوق کے لئے ان کی حمایت نہیں کی تھی۔ خواتین کے حقوق کا زکر چھڑ جائے اور اسلام کی بات نہ ہو یہ غیر ممکن ہے جس کے متعدد وجوہات ہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ اسلام سے قبل عورت بطور فرد، بطور جنس معاشرے میں قبول ہی نہیں تھی اور طاقت آزمائی کے زیر نگیں تھی، لیکن جب اسلام کا ظہور ہوا تو ان رسومات کو توڑ دیا۔علمی بحث کی یہاں پر گنجائش نہیں ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ عورت کے حقوق کا آغاز اور ان کے حقوق کا تعین اسلامی دور سے شروع ہوا۔

معاشرتی تشکیل میں مذہب صرف ایک پہلو ہے، دیگر دو پہلوؤں میں ثقافت اور ریاست کی پالیسیاں بھی شامل ہیں، جن کے زیر اثر معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔ معاشرے میں رائج برائیوں اور گمراہیوں کو مذہب سے چھپایا نہیں جاسکتا ہے اور نہ ہی اٹھنے والے سوال کا رخ مذہب کی جانب ہوتا ہے۔اسلام کی جانب سے متعین کردہ وسیع تر حقوق کے باوجود جب معاشرے میں خواتین عمومی طور پر اپنے حقوق سے کوسوں دور ہیں تو یہ سوال کس سے کیا جانا چاہئے۔

صحافتی شعبے سے تعلق کی وجہ سے میں زاتی طور پر درجنوں ایسے کیسز کو جانتا ہوں جن کا تذکرہ کرتے ہوئے روح کانپ جاتی ہے، اور متعدد مواقعوں پر یہ اخبار کی زینت بھی بنے لیکن کسی ’علمبردار‘ کو ان موضوعات کی جانب توجہ نہیں ہوئی۔ گلگت شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت موجود ہے، جوٹیال بس اڈے سے لیکر گھڑی باغ بازار تک سوزوکی چلتی ہے، ان سوزوکیوں میں خواتین کو ہراساں کرنے اور ان پر حملہ آور ہونے کے زبان زدعام کہانیوں پر نہیں جائیں گے صرف متعلقہ تھانے سے اس کا پوچھا جائے تو معلوم ہوگا کہ چند باہمت خواتین نے ان کے خلاف باقاعدہ طور پر درخواستیں بھی دی ہوئی ہے۔

کم عمری کی شادی تو ایک پرانا اور قدیم موضوع بنا ہوا ہے، شادی کے نام پر باقاعدہ خرید و فروخت کی کہانیاں بھی اب ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔بظاہر ان رسومات میں مذہبی طورطریقے پورے کئے جاتے ہیں لیکن لاچار مولوی صاحب کے کانوں تک خبر نہیں پہنچتی ہے کہ اس کی قیمت کیا طے کی گئی ہے۔یہ بھی کہنے کو نکاح ہی ہے جہاں پر خواتین سے زبردستی ’ہاں‘ کرایا جاتا ہے اور ناں کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ پڑھی لکھی بیٹیوں اور بہنوں کو ٹرک ڈرائیوروں کے حوالے کرنے والے معاشرے کو صرف لبادے کا علم ہوتا ہے مگر جن بنیادی اصولوں کی بنیاد پر طریقہ کار وضع کیا جاتا ہے اس کی صریحاً خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ جب بات گھر سے شروع ہوتی ہے تو محلوں سے ہوتے ہوئے ایک وسیع علاقے اور رقبے تک پہنچتی ہے اور یہ ریاست کی وہ مجبور پالیسی بن جاتی ہے جہاں پر کہنے کو کچھ باقی نہیں رہتا ہے۔

آخر کیوں ایسا ہے کہ گھروں میں ماں بہن بیٹی جیسے مقدس رشتوں کی موجودگی کے باوجود باہر چلنے والی عورت پر رال ٹپکتے ہیں؟ میں اس موضوع میں عورت کو عورت سے ہی مخاطب کرنا چاہتا تھا مگر مخاطب کالم کی وجہ سے ماں بہن اور بیٹی کا مقدس لفظ یہاں استعمال کرنا پڑا۔ تعلیمی اداروں کا حال بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے جہاں پر سمسٹر سسٹم کی بنیاد پر متعلقہ بااختیار فورمز کو ’حراساں‘ کرنے تک کے اختیار مل جاتے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان گومل یونیورسٹی کے مذہبی پوشاک کے حامل پروفیسر سمیت کئی کچھ صلاح الدین کے افعال پر کسی نے لب کشاہی نہیں کی۔کوئی تو مذہبی فورم ہو، منبر و محراب سے آواز گونجے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔ مانسہرہ کے مدرسے میں طالبعلم کے ساتھ بدترین جنسی تشدد کیا گیا لیکن سناٹا۔ حق مہر، وراثت جیسی چیزیں تو زاتی ہیں جو اکثر مقامات پر ادا بھی ہوتا ہے اور بعض مقامات پر مجبوریوں کا شکار ہوجاتا ہے اس کے باوجود کئی مقامات ملک میں ایسے ہیں جہاں پر ان چیزوں کی نفی کی جاتی ہے۔انٹرنیٹ کا استعمال سے لیکر جنسی زیادتیوں اور جنسی تشدد کے واقعات کے لئے درجنوں رپورٹ آن لائن دستیاب ہیں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔جو اس طریق جدل کا پردہ چاک کرنے کے لئے کافی ہوگا۔

عورت مارچ میں شریک نعروں میں بھی غیر سرکاری تنظیموں کے لوگ ضرور ہوں گے اور بعض بے وقوفانہ اور جاہلانہ طرز کے نعروں کی بنیاد پر یہ دعویٰ کوئی نہیں کرسکتا ہے کہ ریاست اور معاشرے میں خواتین کو پورے حقوق ملے ہیں۔ ’میرا جسم میری مرضی‘کا رد عمل بھی فطری تھا جس کا اکثر نے یہی مطلب نکالا کہ مادرپدر آزادی ہے، جسم پر آپ کی مرضی تھی تو خاتون کیوں پیدا ہوگئیں؟ کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی کہ سوزوکی میں بیٹھنے والی خاتون صرف کمزور ہونے کی وجہ سے کھلونا نہیں ہے۔ دفتروں میں کام کرنے والی خواتین محض ’صنف نازک‘ ہونے کی وجہ سے کسی کے ہاتھوں نہیں کھیل سکتی ہے۔ گھر کے ماحول میں جن اخلاقیات کو ہم نے وضع کیا ہے اس میں بھی جب کمزور کمزور ہی ہے اور بااثر و طاقتور کا فیصلہ بھاری ثابت ہوتا ہے تو لاوہ پھٹنے میں دیر نہیں لگے گی، جسمانی مضبوطی اور طاقت سے لیکر سماجی طاقت کی بنیاد پر جتنے بھی لوگ اور گروہ خواتین پر کمزور ہونے کا نکتہ نظر دیتے ہیں وہ بھیڑئے ہیں جن میں کچھ ظاہر ہوئے ہیں اور خواتین کو ہمت ملتے ہی دیگر بھی بے پردہ ہوجائیں گے۔ نکتہ نظر کی تبدیلی سے ان تمام مسائل اور حقوق کا شعور اسلام نے ہی دیا ہے اگر کوئی طاقت کے بل بوتے پر قائم اس نظام سے اپنی نظریں ہٹائیں۔مذہب اور پیروان مذہب کا جو فرق بتایا گیا ہے وہ اس معاشرے میں بڑی آسانی سے نظر آجاتا ہے۔ مجھے اس نعرے کے ردعمل میں جماعت اسلامی کا کردار بہت مثبت نظر آیا جہاں انہوں نے باپردہ جلسہ کرکے اپنے سٹیج سے خواتین کے مسائل اٹھائے اور ان کے حل اور حصول کا مطالبہ بھی کیا جس کو سراہا جانا چاہئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے