پاکستان ہاؤس میں قرنطینہ کے مسافروں کی روانگی کے بعد زیراستعمال سامان نذر آتش

تفتان: پاکستان ہاؤس میں 15 روز قرنطینہ میں گزارنے والے زائرین کی روانگی کے بعد ان کے زیر استعمال سامان کو آگ لگاکر تلف کردیا گیا۔

پاکستان ہاؤس میں گزشتہ 15 دنوں سے قرنطینہ میں رکھے گئے ان زائرین میں سے ایک بچے میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہوئی تھیں جب کہ باقی کو کلیئر قرار دیا گیا تھا۔

کلیئر قرار دیے گئے تمام زائرین کو گزشتہ روز 55 بسوں کے ذریعے کوئٹہ منتقل کردیا گیا جہاں سے انہیں ان کے آبائی علاقوں کو روانہ کیا جائے گا۔

تحصیل دار تفتان ظہور احمد بلوچ کے مطابق زائرین کی روانگی کے بعد پاکستان ہاؤس میں اسپرے کیا گیا اور زائرین کے زیر استعمال استعمال بستروں سمیت دیگر سامان کو آگ لگا کر تلف کیا گیا۔

تحصیل دار نے بتایا کہ پاکستان ہاؤس میں اسپرے کے بعد نئے بستر اور چارپاہیاں لگائی گئی ہیں۔

تحصیل دار کے مطابق تفتان مین اب بھی 3 ہزار سے زائد زائرین اور مسافر موجود ہیں جن کی اسکریننگ ہر 48 گھنٹے کے بعد کی جارہی ہیں۔

واضح رہےکہ پاکستانی حکام نے ایران میں کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے بعد 23 فروری کو تفتان میں پاک ایران بارڈر کو بند کیا تھا جسے 13 مارچ کو قومی سلامتی کے اجلاس میں 14 روز تک مکمل بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔

تفتان کے پاکستان ہاؤس میں قرنطینہ میں رکھے گئے زائرین کی تعداد گنجائش سے زائد ہوچکی تھی جس کے باعث دیگر زائرین کو پاکستان ہاؤس سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا۔

چین سے دنیا میں پھیلنے والا ’کورونا وائرس‘ اصل میں ہے کیا؟
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق کورونا وائرسز ایک سے زائد وائرس کا خاندان ہے جس کی وجہ سے عام سردی سے لے کر زیادہ سنگین نوعیت کی بیماریوں، جیسے مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم (مرس) اور سیویئر ایکیوٹ ریسپائریٹری سنڈروم (سارس) جیسے امراض کی وجہ بن سکتا ہے۔

یہ وائرس عام طور پر جانوروں کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر سارس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ بلیوں کی ایک خاص نسل Civet Cats جسے اردو میں مشک بلاؤ اور گربہ زباد وغیرہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس سے انسانوں میں منتقل ہوا جبکہ مرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک خاص نسل کے اونٹ سے انسانوں میں منتقل ہوا۔

اس کی علامات کیا ہیں؟
ڈبلیو ایچ او کے مطابق کورونا وائرس کی علامات میں سانس لینے میں دشواری، بخار، کھانسی اور نظام تنفس سے جڑی دیگر بیماریاں شامل ہیں۔

اس وائرس کی شدید نوعیت کے باعث گردے فیل ہوسکتے ہیں، نمونیا اور یہاں تک کے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

یہ کتنا خطرناک ہوسکتا ہے؟
ماہرین کے مطابق کورونا وائرس اتنا خطرناک نہیں جتنا کہ اس وائرس کی ایک اور قسم سارس ہے جس سے 3-2002 کے دوران دنیا بھر میں تقریباً 800 افراد جاں بحق ہوئے تھے اور یہ وائرس بھی چین سے پھیلا تھا۔

ماہرین صحت کی ہدایات
ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری انفلوئنزا یا فلو جیسی ہی ہے اور اس سے ابھی تک اموات کافی حد تک کم ہیں۔

ماہرین کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق لوگوں کو بار بار صابن سے ہاتھ دھونے چاہئیں اور ماسک کا استعمال کرنا چاہیئے اور بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کے مشورے سے ادویات استعمال کرنی چاہیئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے