‏غلطی کی گنجائش نہیں ہے

‏گذشتہ تمام ماہ کافی وقت رابی پیرزادہ کی جانب سے سوشل میڈیا پر  پوسٹ کی گئ تصویریں اور ان پر کیے گئے تبصروں کے معائنہ میں بِتانا پڑا، "پڑا” اسلیے گو کہ اور بھی بہت کچھ دیکھنے کو ملتا رہا مگر شاید میری فالوئنگ لسٹ میں رابی کے چاہنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اس لیے رابی میری توجہ کا مرکز بنی رہیں

‏دلچسپی کے اسباب میں رابی کی خوبصورتی اپنی جگہ مگر ایک بڑی وجہ وہ کمنٹس بھی تھے جو ایسے ہر پوسٹ پر قریب قریب یکسانیت کا تاثر لیے ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر دیکھنے کو ملے جنکا کا لب لباب تو "نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی”کی طرح کا ہی تھا مگر ہماری نابغہ عوام نے اپنی اپنی استعداد تخلیقی کے مطابق کافی اچھا حصہ ڈالتے ہوۓ کیچڑ کی کثافت میں اضافہ کیا

‏مجھے رابی پیر زادہ پسند ہے اور اس پسندیدگی کی وجہ نا تو رابی کی برہنہ تصاویر ہیں نا ہی خطاطی نا تلاوت اور نا عمرہ و حج، اس کی وجہ اسکی زات کا وہ آئینہ ہے جس میں ہم سب مادر زاد ننگے نظر آتے ہیں جس میں معاشرے کی وہ برہنگی ایک فقط ایک تصویر سے آشکار ہوجاتی ہے جسے بے نقاب کرنے کے لیے ہزاروں لوگوں کی لاکھوں تحاریر غیر موثر ثابت ہوتی ہیں

‏رابی پیرذادہ کیلی گرافی، کوریو گرافی، پورنو گرافی یا پھر عمرہ تلاوت کچھ بھی کرتی ہوئ پائ جائیں چاہنے والوں کو ہمیشہ انکے لتے لیتے ہوۓ ہی پایا، انکا ہر پوسٹ ہمارے معاشرتی رویہ کے لباس سے ایک دھاگہ کم کرتا نظر آیا اور لباس تو ویسے بھی جھوٹ، بے ایمانی، بدعنوانی اور پیڈو فائلنگ کی وجہ سے تار تار ہی نظر آتا ہے، ہمارے نزدیک کسی کا بپلک فگر ہونا اسے ہمارے لیے تفریح کے ساتھ ساتھ آسان ترین ہدف بھی بنا دیتا ایسا ہدف جس پر ہم اپنی دنیا جہان سے سمیٹی ہوئ تلخی کے تیر باآسانی داغ سکتے ہیں

‏بچپن کی خوشگوار یادوں میں سے ایک یاد پاکستان ٹیلی وژن کا ایک شو نیلام گھر یاد آتا ہے ایسے مواقع پر، جس کا سب سے بڑا اور قیمتی انعام ایک گاڑی ہوا کرتی تھی ہر دلعزیز میزبان طارق عزیز مقابلے کے شرکا سے کچھ بہت مشکل سے سوالات کیا کرتے تھے، ساتھ وہ بتا دیا کرتے تھے کے آپ کے پاس دو غلطیاں کرنے کی گنجائش ہے اور جب کوئ اپنے حصے کی دو غلطیاں کر چکتا تو طارق عزیز بڑے گھمبیر سے لہجہ میں کہا کرتے ” اب غلطی کی کوئ گنجائش نہیں ہے” اس جملے اور طارق بھائ کے لہجے کی سنسنی اور رسان اپنی جگہ مگر فلحال یہ جملہ یاد کسی اور ضمن میں آیا،

‏ہم سب نے اپنی زات کے علاوہ تمام لوگوں کو نیلام گھر کے اسی مقام پر کھڑاکیا ہوا ہے جہاں غلطی کی کوئ گنجائش نہیں اور اگر کسی سے غلطی ہوگئ ہے اور بات زبان زد عام ہو گئ ہے تو اب واپسی کے تمام راستے بند ہیں شو ختم زندگی ختم، اب آپ یا تو کہیں گوشہ نشینی اختیار کر لیجیے گمنام ولاپتہ ہو جائیے یا بہتر رہیگا کہ مر جائیے، اور جان لیجیے کہ اب ہم پر آپ کی کردارکشی مباح و کارِ ثواب ہے

‏اس میں کوئ شک نہیں کے اپنی کسی غلطی کو مذہب کے لبادہ میں چھپانا قطعی درست فعل نہیں، مگر ہماری ذہنیت ہی کچھ ایسی ہے کہ ایسے کسی اسکینڈل کہ بعد مرنے اورگوشہ نشین ہوجانے کے علاوہ اگر کوئ چارہ ہے تو یہی کہ اپنا آپ مذہب کی واشنگ مشین میں ڈال دیجیے اور توبہ تائب کے ڈھنڈورا واشنگ ڈٹرجنٹ سے خود کو دھو لیجیے، تب آپ معاشرہ کے لیے قابل قبول ہیں اورکوئ صورت نہیں، تو اگر رابی نے ایک نئی شروعات کے لیے تلاوت نعت گوئ خطاطی کا راستہ اختیار کیا تو غلط ہی کیا ہے پھر اسے خود کو آپکی اور میری نظروں میں ہی تو راست باز اور رجوع یافتہ ظاہر کرنا تھا

‏تو اسکا واحد طریقہ یہی تھا کہ سوشل میڈیا پر ایسا کچھ ثبوت کی صورت میں ڈالا جاۓ، ورنہ خدا تو نیتوں سے اور تمام احوال سے بخوبی واقف ہے، یہ زحمت تو اسے میری اور آپ کی خاطر اٹھانی پڑی کہ بھائ لوگ اب جینے دوگے، اب کیا مرنے اور گوشہ نشینی کے علاوہ کوئ آپشن دوگے، مگر نہیں بھئ ایسے کیسے اب ہم تمہاری نیت کو جج کرینگے ہمارا یہ ڈھکوسلہ کہ نیتوں کا حال خدا ہی جانتا ہے بھی فقط اپنی نیت کا احوال درست ثابت کرنے کی حد تک درست ہے، معاملہ کسی دوسرے کا ہو تو ہمارے لیے یہ بھی اسکا ایک جھوٹ ہے اس وقت ہم ہی خدا ہیں، ہم سب جانتے ہیں اور ہمارا فیصلہ یہی ہے کہ کہ ہمارے علاوہ سب بد نیت ہیں یہ الہامی عقیدہ فقط مجھے سہی ثابت کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے

‏معافی، توبہ اور رجوع الاللہ پر بیان کرنے والے ایک عالم دین ہمارے یہاں بے حد مقبول ہیں، کیونکہ وہ ہمارے احساس ندامت اور مایوسی کے اندھیرے میں امید کی ایک شمع روشن کردیتے ہیں کہ ایک دوسراموقع موجود ہے توبہ کا دروازہ کھلا ہے ابھی، اور ہم انکی سوچ کی اور انداز بیاں کی تعریف کرتے نہیں تھکتے انکی وجہ سے سنگین گناہوں سے توبہ کر کے رجوع کرنے والوں کی کہانیاں سناتے نہیں تھکتے، مگر یہی موقع جب ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ نظر انداز کر کے نیت پر قبل از وقت قیاسآرائ کیے بنا کسی کو  ایک دوسرا موقع دیا جاۓ تو نجانے ہم اتنے بے حس اہل قیاس کیوں ثابت ہوتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے