بہت بڑے انسان کی رحلت

بنیادی طور پر وہ کوہاٹ کے رہنے والے تھے لیکن فوج کی ملازمت کی وجہ سے بیشتر زندگی صوبے سے باہر گزاری۔ پہلی مرتبہ ان کا نام تب سنا جب جنرل پرویز مشرف نے انہیں پہلے چند ماہ کے لئے وزیر مواصلات اور پھر گورنر خیبر پختونخوا نامزد کیا۔ گورنر بننے کے بعد پہلی پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے اور چونکہ زندگی میں پہلی مرتبہ صحافیوں کا سامنا کررہے تھے، اس لئے حکمرانوں کی روایتی چالاکی سے کام لینے کے بجائے سیدھی بات کر رہے تھے۔ اس وقت میں ایک تو اُنہیں جنرل پرویز مشرف کا قریبی آدمی سمجھ رہا تھا۔ دوسرا اس وقت میجر (ر) عامر اور سردار مہتاب احمد خان جیسے لوگ گھروں میں نظر بند تھے۔ تیسرا یہ کہ نئی نئی صحافت شروع کی تھی، اس لئے کبھی کبھی بہادر بھی بن جاتے تھے۔ میرے تلخ سوالوں نے گورنر لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید افتخارحسین شاہ کو بھڑکا دیا اور خوب تلخی ہوئی۔

پریس کانفرنس کے اختتام پر انہوں نے اپنے پی آر او بہرہ مند خان سے میرے بارے میں دریافت کیا کہ یہ بدتمیز نوجوان کون تھا؟ بقول بہرہ مند خان، انہوں نے جنرل صاحب کو میرے بارے میں تفصیل سے بتایا اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ دوستی اور دشمنی دونوں کے لئے موزوں ہے کیونکہ دونوں کام ڈٹ کے کرتا ہے۔ اگلے دن حیرت انگیز طور پر جنرل افتخار حسین شاہ نے مجھے دوبارہ ملاقات کے لئے طلب کیا۔ بہرہ مند صاحب گواہ ہیں کہ انہوں نے حد سے زیادہ عزت دی۔ پریس کانفرنس میں ہونے والی تلخی پر معذرت کی اور یہاں سے تعلق استوار ہوا جو ان کی رحلت تک قائم رہا۔ آج جب وہ اس دنیا میں نہیں رہے تو میں بقائمی ہوش و حواس یہ گواہی دینے کو تیار ہوں کہ وہ سیاستدان تھے اور نہ سیاست کو سمجھتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شاہ بہترین منتظم، بہترین حکمران اور عظیم انسان تھے۔

سید افتخار حسین شاہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں اُس وقت خیبر پختونخوا کے چیف ایگزیکٹو بنے جب مخالف سیاستدانوں کو انتقام کا نشانہ بنانے کا رجحان زوروں پر تھا لیکن شاہ صاحب ایسے ہمدرد نکلے کہ انہوں نے سردار مہتاب سے لے کر میجر (ر) عامر تک، بہت سوں کو پرویز مشرف کا دوست تو بنالیا لیکن ان کے یا اپنے دشمنوں میں ایک بھی فرد کا اضافہ نہیں کیا۔ ان کے انتقال کی خبر سننے کے فوراً بعد جب میں انکے گھر پہنچا تو مجھ سے پہلے مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر جاوید عباسی وہاں پر تھے اور ان کے قریبی عزیزوں سے زیادہ دکھی تھے۔ جو سیاسی مخالفین کے ساتھ ان کے حسن سلوک کا اظہار تھا۔ نائن الیون کے بعد ملک اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں سیاسی اور مذہبی منافرت زوروں پر تھی لیکن جنرل افتخار حسین شاہ نے اپنے شائستہ رویے سے مولانا فضل الرحمٰن کو بھی دوست بنایا اور قاضی حسین احمد مرحوم کو بھی۔ ایک روز ان سے گپ شپ ہورہی تھی تو خان عبدالولی خان کا ذکر چھڑ گیا۔ میں نے ان سے استفسار کیا کہ کیا وہ کبھی ولی خان سے ملے ہیں تو انہوں نے نفی میں سر ہلایا۔ عرض کیا کہ ولی خان صاحب بڑے سیاستدان اور بڑے انسان ہیں۔

صوبے کے بڑے کی حیثیت سے وہ اگر ان کی مزاج پرسی کے لئے جائیں تو یہ ان کی بڑائی تصور ہوگی۔ شاہ صاحب اگلے روز ان کی مزاج پرسی کے لئے ولی باغ پہنچ گئے۔ اسی طرح 2004میں جنوبی وزیرستان کے وانا تحصیل میں آپریشن کی وجہ سے محاصرہ ہوا تھا کہ مجھے وہاں سے احمد نور وزیر نامی ایک طالب علم کی ای میل موصول ہوئی۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ہم دس بارہ طالب علم اپنے گھروں میں محصور ہو گئے ہیں۔ ڈی آئی خان کالج سے ہمارے ایف ایس سی کے امتحان ہو چکے ہیں اور پریکٹیکل باقی ہیں۔ اگر ہم اسی طرح محصور رہے تو سال ضائع ہو جائے گا۔ میں نے گورنر صاحب کو فون ملایا اور انہیں بچوں کی صورتحال سمجھائی۔ انہوں نے جی او سی اور مقامی انتظامیہ سے بات کی اور اگلے روز طالب علم ڈی آئی خان پہنچا دیے۔ باقی طلبا کہاں ہیں، یہ تو معلوم نہیں لیکن خود احمد نور وزیر ایف ایس سی کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور چلے گئے اور وہاں سے نمایاں پوزیشن کے بعد سی ایس ایس کا امتحان پاس کر لیا۔ الحمدللہ اب وہ ایک افسر کی حیثیت سے وفاقی سیکرٹریٹ میں ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں اور گزشتہ روز اپنے محسن جنرل افتخار صاحب کی انتقال کی خبر سن کر وہ مجھ سے بھی زیادہ غمزدہ تھے۔

جنرل (ر) افتخار حسین شاہ کی خوبیاں لکھنے بیٹھ جائوں تو درجنوں صفحات میں بھی احاطہ نہیں کر سکتا۔ اس کے سوا میں نے ان کے ہاں کوئی خامی نہیں دیکھی کہ وہ سیاست کو نہیں سمجھتے تھے۔ سیاست سے اس قدر نابلد تھے کہ ہم جیسے دوستوں کے منع کرنے کے بعد چند سال قبل پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے اور بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی قیادت نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ہر شریف اور کھرے انسان کے ساتھ کرتی ہے۔ دورانِ ملازمت وہ آئی ایس آئی میں بھی اہم پوزیشنز پر کام کرتے رہے۔ گورنر بننے کے بعد وہ صوبے اور قبائلی علاقہ جات کے چیف ایگزیکٹو بھی تھے۔ نائن الیون کے بعد جو صورتحال بنی، اس کی وجہ سے وہاں اربوں ڈالر بھی استعمال ہونے لگے۔ جنرل افتخار چاہتے تو اربوں روپے کما سکتے تھے لیکن حالت یہ تھی کہ فراغت کے بعد اسلام آباد میں گھر کی تعمیر کے لئے بھی بینک سے قرضہ لینا پڑا۔ ایک طرف اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر انہوں نے کوہاٹ کے غریب بچوں کے لئے ٹرسٹ بنا رکھا تھا تو دوسری طرف گھر کے اخراجات کے لئے وہ آخری وقت تک محنت مزدوری کرتے رہے۔ میرے اس دعوے کو کسی سیاسی جماعت کا کوئی عہدیدار نہیں جھٹلا سکتا کہ ان کے دور میں خیبر پختونخوا میں تعلیم اور صحت کے مد میں جو کام ہوا، اس کی مثال نہیں ملتی۔

تبھی تو میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ ادارے برے ہوتے ہیں، حکومتیں اور نہ سیاسی جماعتیں۔ بری سے بری جماعتوں میں بھی اچھے لوگ ہو سکتے ہیں اور اچھے اداروں یا اچھی جماعتوں میں بھی کچھ لوگ بہت برے ہو سکتے ہیں۔ جنرل افتخار حسین شاہ ایک ایسی حکومت کے گورنر تھے، جس نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا لیکن شاہ صاحب نے اس کا حصہ رہ کر بھی عزت کمائی اور دعائیں سمیٹیں ۔ دوسری طرف آپ نیب کے چیئرمین جاوید اقبال جیسے لوگوں کو اگر آپ فرشتوں کی حکومت کا بھی حصہ بنا دیں تو وہ کچھ ایسا کریں گے جس سے حکومت اور حکمران بدنام ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل افتخار حسین شاہ مرحوم بہت بڑے انسان تھے۔ اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ان کے پسماندگان بالخصوص اہلیہ اور یتیم ہو جانے والی دو بیٹیوں کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے