کورونا وائرس: سائنس، سمجھداری اور سماجی ذمہ داری

ناول کورونا وائرس اب ایک عالمی وبا بن چکا ہے، یہ حقیقت ہے؛ اور آنے والے ہر دن کے ساتھ اس کے پھیلاؤ اور شدت میں اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے۔ انسانی تاریخ میں عالمی وبا کا یہ کوئی پہلا موقع ہر گز نہیں، اس سے پہلے بھی وبائیں آتی اور جاتی رہی ہیں… اور انسانوں نے ان وباؤں کا سامنا بھی کیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ہم اس نئے (ناول) کورونا وائرس سے پھیلنے والی وبا کا مقابلہ کیسے کریں؟ اسے کیونکر شکست دیں؟

کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کیلئے پہلے اس کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنا ضروری ہے۔ میرا خیال ہے کہ کورونا وائرس کے ذیل میں تین پہلو زیادہ اہم ہیں: سائنس، سمجھداری اور سماجی ذمہ داری۔

سائنس کے ذریعے ہم جان چکے ہیں کہ یہ وائرس حالیہ عشروں کے دوران ’’سارس‘‘ اور ’’مرس‘‘ کہلانے والی دو وباؤں کے ذمہ دار وائرسوں سے ملتا جلتا ہے۔ اس کی علامات اور انسانی جسم میں اس کے سرگرم رہنے کا دورانیہ (انکیوبیشن پیریڈ)، ہلاکت خیزی، ویکسین کی ممکنہ دستیابی کی مدت (سال بھر سے اٹھارہ ماہ) اور اس سے بچاؤ کی تدابیر وغیرہ، یہ سب کچھ سائنس کے توسط سے ہمارے علم میں ہے۔ ان تمام معلومات کو درست ذرائع سے حاصل کرکے، اور صحیح طور پر سمجھ کر، ہم اس وائرس کے خوف کو بڑی حد تک کم کرسکتے ہیں۔

دوسرا پہلو سمجھداری کا ہے۔ عالمی وبائی حالات میں سمجھداری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار نہ ہوں، بلکہ ناول کورونا وائرس کے بارے میں بہت سوچ سمجھ کر بات کریں۔ اطلاعات و معلومات کو ایک سے دوسری جگہ پہنچانے والے ذرائع بہت تیز رفتار ہوچکے ہیں جو بڑی حد تک آزاد بھی ہیں۔ ذمہ داری کا تقاضا یہ ہے کہ اس بارے میں موصول ہونے والی کسی بھی اطلاع کو فوراً ہی دوسروں تک نہ پہنچائیں بلکہ پہلے خود بھی اچھی طرح چھان پھٹک کرلیں۔ اگر ہم صرف اتنا بھی کرلیں کہ خوف پھیلانے والی معلومات آگے بڑھانے سے باز رہیں، تو ایسا کرکے ماحول پر طاری خوف کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں گے۔

یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ حکومتوں کی جانب سے غیرمعمولی اقدامات کیوں کئے جارہے ہیں؟ تعلیمی اداروں، تفریح گاہوں، عوامی اجتماعات و تقریبات، ہوائی اڈوں اور کھیل کے میدانوں وغیرہ کی بندش کسی سیاسی جبر کا نتیجہ ہر گز نہیں، بلکہ یہ ہنگامی حالات کے تحت، مجبوری میں کئے گئے اقدامات ہیں۔

سمجھدار شہری کی حیثیت سے ہمیں میڈیا کو بھی یہ باور کرانا چاہئے کہ چین ہو یا اٹلی، سعودی عرب ہو یا ایران، اگر وہاں پر لوگوں کو گھروں میں محدود رہنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں تو یہ ’’لاک ڈاؤن‘‘ نہیں بلکہ ’’قرنطینہ‘‘ ہے۔ ہمیں میڈیا کے ذمہ داران سے تقاضا کرنا چاہئے کہ اگر وہ ناول کورونا وائرس سے متاثر ہونے اور مرنے والوں کی تعداد بتا رہے ہیں، تو یہ بھی بتائیں کہ اب تک اس وائرس سے متاثر ہونے والے کتنے لوگ صحت یاب ہوچکے ہیں۔ (مثلاً موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ دنیا بھر میں ایک لاکھ 60 ہزار سے کچھ زیادہ افراد ناول کورونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ ان میں سے تقریباً 76 ہزار لوگ صحت یاب بھی ہوچکے ہیں۔)

غرض کہ سمجھداری سے کام لے کر ہم اس وائرس کی وبا اور خوف، دونوں کو کم کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

البتہ، ان سب سے زیادہ اہم پہلو ’’سماجی ذمہ داری‘‘ کا ہے۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ کورونا وائرس کے خوف سے لوگوں نے روزمرہ اشیائے صرف کا ذخیرہ کرنا شروع کردیا ہے جس کے نتیجے میں عام استعمال کی چیزیں بھی بہت مہنگی ہوگئی ہیں۔ منافع خوروں کا معاملہ بھی ’’پانچوں انگلیاں گھی میں، اور سر کڑاھی میں‘‘ والا ہے۔ ماسک سے لے کر صافیٔ دست (ہینڈ سینیٹائزر) تک، ہر چیز کی قیمت گویا آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ اشیائے خور و نوش بھی ان ہی میں شامل ہیں۔

سماجی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے معمول کے مطابق ہی ضروری چیزیں خریدیئے، تاکہ ضرورت کے وقت دوسروں کیلئے بھی وہ اشیاء دستیاب ہو اور مارکیٹ میں ان چیزوں کی قلت میں کم از کم آپ کا کوئی کردار نہ ہو۔

کم و بیش ہر ملک میں ایسے ادارے موجود ہیں جہاں ناجائز منافع خوری کے خلاف شکایات جمع کروائی جاسکتی ہیں۔ سماجی ذمہ داری کا تقاضا ہے کہ ایسے افراد اور اداروں کے خلاف شکایت کی جائے؛ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر سوشل میڈیا کے ذریعے، باقاعدہ نام لے کر، ان افراد/ اداروں کے کرتوت پہنچائے جائیں تاکہ کم از کم بدنامی ہی کے خوف سے وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں۔

دوسری طرف بڑے ہوٹلوں، ریستورانوں، تفریح گاہوں اور شادی ہالز وغیرہ سے وابستہ ایسے ان گنت لوگ ہیں جو نہ صرف غریب ہیں بلکہ یومیہ اُجرت (ڈیلی ویجز) کی بنیاد پر اپنا روزگار کماتے ہیں۔ سرِدست ان کی بڑی تعداد بالکل بے روزگار ہے اور گھروں پر بیٹھی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ یہ لوگ قرض ادھار لینے پر بھی مجبور ہوگئے ہوں تاکہ اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکیں۔ ان لوگوں کو ہماری توجہ کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو صاحبِ حیثیت بنایا ہے اور ایسے کسی ضرورت مند کے گھر پر ہفتے بھر کا راشن بھی ڈلوا سکتے ہیں، تو اس کارِ خیر میں دیر نہ کیجئے۔

یاد رکھئے کہ یہ لوگ پیشہ ور بھکاری نہیں، البتہ موجودہ بحران کی وجہ سے بیروزگار ضرور ہیں؛ اور ان کی یہ بیروزگاری بھی عارضی ہے جو ان شاء اللہ چند ہفتوں یا مہینوں میں ختم ہوجائے گی۔

درد مندی کے ساتھ یہ ضرور سوچئے کہ یہ لوگ شاید ناول کورونا وائرس سے تو نہ مریں لیکن بیروزگاری، تنگ دستی اور فاقہ کشی کی وجہ سے ضرور مر جائیں گے۔ حکومت کا انتظار نہ کیجئے، یہ کام کوئی حکومت بھی تنِ تنہا نہیں کرسکتی۔ اگر آپ حیثیت رکھتے ہیں تو بلاتاخیر دستِ تعاون بڑھائیے اور ان لوگوں کے کام آئیے۔

میری سوچ کی طرح میری تحریر بھی مکمل نہیں۔ آپ بھی اس بارے میں سوچئے اور سماجی ذمہ داری کے حوالے سے جو کچھ بھی، اور جیسے بھی، چھوٹے بڑے عملی اقدامات آپ کے ذہن میں ہوں، دوسروں تک پہنچائیے۔ اپنی انفرادی کوششیں استعمال کیجئے تاکہ اجتماعی سماجی شعور میں اضافہ ہو۔

ان تمام باتوں کا خلاصہ وہی ہے جو اس پوسٹ کا موضوع بھی ہے: ہم کورونا وائرس کو شکست دے سکتے ہیں… تھوڑی سی سائنس، تھوڑی سی سمجھداری اور بھرپور سماجی ذمہ داری کے ساتھ!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے