اس وقت بلوچستان میں نئے کرونا کیسیز کی تعداد22 ہوگئی ہے،خیبرپختونخوا میں 4 اورسندھ میں 5نئے کیسیز رسامنے آئے ہیں۔اور جب تک یہ کالم آپ پڑھ سکِیں گے خدانا خواستہ یہ تعداد بڑھ چکی ہو گی۔
[pullquote]پاکستان میں کل تعداد۳۵۵ہے۔[/pullquote]
۱۷۳ممالک میں پھیلنے والے وائرس کے تیز پھلاﺅ نے سائنسدانوں کو ایک طرف ویکسین ایجاد کرنے کے لئے متوجہ کیا تو دوسری طرف ایک ایسا طبقہ ہے جسکی وجہ سے وائرس پھیل رہا ہے۔وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ نہ انکو یہ وائرس متاثر کر سکتا ہے اور نہ انکی وجہ سے کسی کو بیمار کر سکتا ہے مثال کے طور پہ پاکستان میں محکمہ صحت کے گھروں سے نہ نکلنے،اور چھٹیوں کے اعلان کے بعد بہادر عوام مری پہنچ گئی، کراچی دو دریا کی رونکیں بڑھ گئیں۔ یہ غیر سنجیدگی کی انتہا ہے۔
اٹلی میں صرف ایک ہی ماہ میں 50 فیصد کیسیز میں اضافہ اور اسکی وجہ وائرس کا ڈیٹکٹ نہ ہونا تھا۔چین میں کرونا وائرس کے خاتمے کے خلاف اقدامات قابل ِستائش ہیں لیکن معتبر طبقے چینی حکومت کی کارگردگی پر سوال اٹھا رہے ہیں انکے خیال میں صورتِ حال پہ اس سے بھی پہلے قابو پایا جا سکتا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب چین، اٹلی جیسی بڑی معیشتیں جن کے پاس ورلڈکلاس طبی وسائل ہیں،بروقت کرونا وائرس پہ قابو نہیں پا سکیں اور ہزاروں افراد متاثر ہوئے تو پاکستان کے پاس کونسی جادو کی چھڑی ہے۔لیکن پہلے سے تیار رہنے سے بہت حد تک بچا جا سکتا تھا۔۱۹ مارچ تک دنیا بھر میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد2 لاکھ30 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔جبکہ ہلاکتوں کی تعداد بٹرھ کر9ہزار چارسوتک جا پہنچ چکی تھی۔
سکول ،کالج،یونیورسٹی بند کرنے،اجتماعات پر پابندی لگانے ، دفعہ144 کے نفاذ اور وزیراعظم کی وارنگ کے بعد بھی عوام کا بڑا حصہ احتیاط کرتانظر نہیں آرہا۔ ذخیرہ اندوزں کوخبردار تو کیا گیا ہے لیکن فیس ماسک اور گلوز سستے نہیں ہوئے ۔ اپنے شہر کی بات کروں تو اسلام آباد کے کافی ہاو¿ہائوسیسزمیں اب بھی رش ہے۔ یہ غیر سنجیدگی نہیں تو کیا ہے۔
جنوبی کوریا کے کرونا وائرس سے بچاﺅ کے اقدامات حیران کن طور پہ قابلِ تعریف ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف جنوبی کوریا میں کیسز کے سامنے آنے سے پہلے کئے گئے بلکہ جب مارچ میں وائرس تیزی سے پھلا تو 2 ہفتے کے اندر اندر مریضوں کی تعداد کم سے کم ہوتی گئی۔
اور یوں محض کچھ ہی ہفتوں میں جنوبی کوریا نے اپنے ملک میں وبا کے تیزی سے پھیلنے پر قابو پایا۔ 17 مارچ کے دن جنوبی کوریا سے مجموعی طور پر 50 سے بھی کم نئے کیسز سامنے آئے تھے۔
طبی تحقیقاتی جریدے سائنس میگ نے جنوبی کوریا میں کورونا کیسز کی کمی پر ایک تحقیقاتی مضمون شائع کیا، جس میں ان چند اقدامات کا ذکر کیا گیا جنہیں اختیار کرکے جنوبی کوریا نے وبا پر قابو پایا۔
مضمون میں بتایا گیا کہ جنوبی کوریا نے دیگر کئی ممالک کی طرح بڑے پیمانے پر لاک ڈاونبھی نہیں کیا لیکن اس کے باوجود حکومت کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے میں کامیاب ہوئی۔ جنوبی کوریا نے وبا سے نمٹنے کے لیے اس وقت ہی تیاریاں شروع کردی تھیں جب وائرس صرف چین تک محدود تھا۔جنوبی کورین حکام کے مطابق چین میں تیزی سے وبا کے پھیلنے کے بعد وہاں کی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے حکومت کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرنے والی کٹ کی تیاری کرنا شروع کردی تھی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنوبی کورین ماہرین نے چینی ماہرین کی جانب سے کورونا وائرس کے حوالے سے شائع کی جانے والی معلومات اور تحقیقات کا تجزیہ کرکے نہ صرف کم وقت میں معیاری کٹس کی تیاری کرلی بلکہ انہوں نے دیگر انتظامات کے حوالے سے بھی منصوبہ بندی کرنا شروع کردی۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق بظاہر جنوبی کورین حکومت نے کورونا وائرس کی کٹ تیار کرنے، قرنطینہ کا بہترین نطام بنانے اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے عالمی وبا کو پھیلنے سے روکا۔
لاک ڈاون¿ کرنا یا لوگوں کو گھروں تک محدود کرنا مسئلے کا حل نہیں تھا اس لیے حکومت نے کم وسائل اور کٹ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ افراد کے ٹیسٹ کرنے کو یقینی بنانے سمیت قرنطینہ کے نظام کو بہتر بنایا اور قرنطینہ میں ہر اس شخص کو بند کردیا گیا جس کی صحت کے حوالے سے تھوڑا سا بھی شبہ تھا۔
تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنوبی کوریا نے انتہائی کم وقت میں محض 5 ہزار 200 کٹس کے ساتھ تقریباً 27 لاکھ افراد کے ٹیسٹ کیے اور وہ پہلا ملک بن گیا جس نے ہر ایک لاکھ پر زیادہ سے زیادہ افراد کے ٹیسٹ کیے۔انہوں نے قرنطینہ کے نظام کو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ منسلک کردیا تھا اور قرنطینہ کے ایپس اور جی پی ایس سسٹم کے ذریعے نگرانی کی گئی تاکہ وہاں سے کوئی نکل نہ سکے۔
اسی حوالے سے عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ نے بتایا کہ جنوبی کورین حکام کے مطابق اس بات کو بھی جدید ٹیکنالوجی اور ایپس کی مدد سے یقینی بنایا گیا کہ شہریوں کو موبائل فون پر پیغامات بھیجے جائیں کہ فلاں فلاں علاقوں میں جانے سے گریز کیا جائے۔
19 مارچ کی سہ پہر تک جنوبی کوریا میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 8 ہزار 565 تک جا پہنچی تھی اور وہ اٹلی، ایران، اسپین، فرانس، جرمنی اور امریکا کے بعد زیادہ مریضوں والا ملک تھا۔اس سے قبل مارچ کے آغاز تک جنوبی کورویا چین کے بعد سے زیادہ مریضوں والا ملک تھا، تاہم گزشتہ 2 ہفتوں سے وہاں سے سامنے آنے والے کیسز کی تعداد انتہائی کم ہے۔
پیشگی اقدامات اوراجتما عی ذمہ داری کی بدولت جنوبی کوریا اب پوری دنیا کے لئے مثال ہے۔ پاکستان میں صوبوں کے درمیان عدم تعاون اور ہم آہنگی کا فقدان اس غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہے جو کہ لوگوں کی جان خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ بارڈرز بند نہ کر کے ایسی صورتِ حال پیدا کی جا چکی ہے کی اب دوا تو ہے نہیں بس دعا کی زیادہ ضرورت ہے۔
مجھے ایک شہری کی حیثیت سے یقین ہے کہ اگر عمران حکومت کا دھیان میڈیا سے لڑائی، انٹرنٹ پر حکومت کے جذباتی دفاع اورٹویٹر پر کرونا وائرس سے بچاؤ کے ٹوٹکوں پر نہ ہوتا تو آج ہم بہتر تیاری کر چکے ہوتے ،مراد علی شاہ پورا ملک نہیں بچا سکتا بھائی۔۔۔۔۔۔
اب رب راکھا۔۔۔۔ غیر سنجیدہ عوام کی غیر سنجیدہ حکومت