چند فیورٹ محاورے

اصولاً تو آج کل دو موضوعات میں سے ایک پر بات ہونی چاہئے ۔اول یہ کہ کورونا نے کیسا کہرام مچا رکھا ہے؟ عوام کا ردعمل کیسا ہونا چاہئے؟ حکومت کا ذکر اس لئے نہیں کہ اس کے وسائل محدود ہیں اور وہ خود سر تا پا اک ’’سائل‘‘ ہے۔ دوسرا موضوع یہ ہو سکتا ہے کہ میڈیا کے ساتھ کیا کچھ ہو چکا؟ کیا کچھ ہو رہا ہے اور کیا کچھ ہو سکتا ہے؟ ایک بات تاریخی طور پر طے ہے کہ وبا اور وائرس کے مقابلہ میں آخری فتح ان شاء اللہ عوام کی ہو گی جبکہ میڈیا اور اینٹی میڈیا میچ بھی بہرحال میڈیا نے ہی جیتنا ہے، اس لئے میں نے ان دونوں موضوعات کو بائی پاس کرتے ہوئے اپنے کچھ فیورٹ محاورے آپ کے ساتھ شیئر کرنےکا فیصلہ کیا ہے۔محاورے دراصل صدیوں پر محیط اجتماعی عوامی تجربات کا نچوڑ ہوتے ہیں جنہیں آپ دھرتی کی دانش سے کشید کیا گیا عطر بھی کہہ سکتے ہیں اور عطر بھی ایسا جس کی خوشبو ہمیشہ قائم رہتی ہے۔

پہلا محاورہ بہت ہی عام ہے۔ ’’کتے بھونکتے رہتے ہیں اور قافلے گزر جاتے ہیں‘‘ قافلوں کے زمانے تو کب کے گزر گئے لیکن محاورہ آج بھی ایکسپائر نہیں ہوا کیونکہ کچھ لوگ اکیلے ہی ’’قافلہ‘‘ ہوتے ہیں جن پر بھونکنے سے کتے اپنے اپنے DNAکو خراجِ تحسین پیش کرتے رہتے ہیں۔ قافلہ تو گزر جاتا ہے، کتوں کے ذوق کی تسکین بھی ہو جاتی ہے یعنی سب کا بھلا، سب کی خیر۔دوسرا محاورہ پہلے جیسا معروف اور مقبول تو ہرگز نہیں لیکن مجھے بہت پسند ہے کہ ’’حسد کی مرغوب ترین غذا حاسد ہوتا ہے‘‘ یہ محاورہ مجھے اتنا پسند تھا کہ برسوں پہلے میں نے اسے اک شعر میں سمو دیا۔نوچتے رہتے ہیں اپنے ہی بدن کی بوٹیاںحاسدوں کو خود ہی اپنا میزباں بننا پڑامحاورہ یہ بھی لاجواب ہے ’’ڈوم بجاوے چپنی، ذات بتاوے اپنی‘‘ یعنی آدمی کی اصل اوقات اس کے افعال اور حرکتوں سے معلوم ہو جاتی ہے۔ ’’گریس‘‘ اور ’’کلاس‘‘ کا فقدان کسی فرد ہی نہیں اس کے پورے خاندان کا تعارف ہوتا ہے۔

’’چوہا بل میں سماتا نہیں، دم سے بندھ گیا چھاج‘‘ یعنی کوئی بیچارہ پہلے ہی حالات کا مارا ہو اور اوپر سے کوئی نئی آفت، افتاد سر پہ آپڑے جیسے لوگ پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں تنگ تھے کہ براستہ تفتان کورونا نے بھی یہاں ’’کیمپ آفس‘‘ کا اعلان کر دیا۔’’حاکمی گرم کی، دکانداری نرم کی، قبیلداری دھرم کی، ناری شرم کی، دولت کرم کی، ریاکاری بےشرم کی‘‘اور یہ محاورہ تو شاید ہم سب پر فٹ بیٹھتا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ ہر جلد باز عجلت پسند کا تعارف ہے ’’آج کے تھپے آج ہی نہیں جلتے‘‘ نوجوان نسل کو سمجھنے میں مشکل ہو گی اس لئے اس کی وضاحت ضروری ہے۔ گیس بجلی وغیرہ سے پہلے گوبر سے اُپلے ’’تھپے‘‘ جاتے تھے جنہیں پنجابی میں ’’پاتھیاں‘‘ کہا جاتا ہے۔ جنہیں تھپنے یعنی بنانے کے بعد موسم کے مطابق انہیں دو چار دن کا وقت دینا ضروری ہوتا کہ اچھی طرح سوکھ جائیں تو بطور ایندھن انہیں استعمال کیا جا سکے۔

اسی کلچر نے اس مشہور محاورے کو بھی جنم دیا کہ ’’اگ لین آئی تے گھر والی بن بیٹھی‘‘ یہ تب کی بات ہے جب گائوں کے ایک آدھ گھر میں ہی ’’ارائونڈ دی کلاک‘‘ آگ موجود ہوتی تھی جہاں سے گائوں والے حسبِ ضرورت اپنی ایک دو پاتھیاں سلگانے کے بعد اپنے چولہے گرم کر لیتے۔ یاد رہے کہ پاتھی جلتی نہیں ’’سلگتی‘‘ ہے اور سلو موشن میں چیزوں کو گرم کرتی ہے۔ آج بھی اپلوں کی آگ پر کچی ہانڈی میں ہلکی آنچ پر بنے کھانے کا ذائقہ ہی اور ہے۔یہ محاورہ تو سو فیصد تبدیلی سرکار کیلئے ہے کہ ’’ٹھنڈا لوہا گرم لوہے کو کاٹتا ہے‘‘ سچ پوچھیں تو حکومت کیا ہماری تو اپوزیشن بھی ہر وقت گرم توے پر پھدکتی رہتی ہے اور دونوں اس حقیقت سے بےخبر دکھائی دیتی ہیں کہ- ’’گرم حالات‘‘ پر قابو پانے کیلئے ’’ٹھنڈے مزاج‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔اور یہ آخری محاورہ ہمارے سارے سیاسی کلچر کا احاطہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔باڑ لگائی کھیت کو، باڑ کھیت کو کھائےراجہ ہو چوری کرے، نیائو کون چکائےباڑ کھیت اور حکمران ملک کی حفاظت کیلئے ہوتا ہے لیکن اگر باڑ ہی کھیت کو اور حکمران ہی ملک کو کھانے لگیں تو ایسے کھیتوں اور ملکوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے