کورونا نے انسان کو کیا سبق سکھایا

ہینلے اینڈ پارٹنرز نامی ایک فرم دنیا بھر کے ممالک کے پاسپورٹ کی درجہ بندی کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ کس ملک کا پاسپورٹ زیادہ طاقتور ہے۔ اِس درجہ بندی کے مطابق جاپان، سنگاپور، جنوبی کوریا، جرمنی، اٹلی، اسپین، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ڈنمارک، سوئٹزر لینڈ، ناروے، فرانس اور امریکہ وغیرہ میں سے کسی بھی ملک کا پاسپورٹ اگر آپ کے پاس ہو تو دنیا کے 180سے زائد ممالک کا سفر کرنے کے لیے کسی ویزے کی ضرورت نہیں۔ یہ درجہ بندی دراصل پاسپورٹ کی نہیں بلکہ اُن امیر اور طاقتور ممالک کی ہے جنہوں نے اپنے ہاں ایک ایسا نظام بنا لیا ہے جس کے ثمرات عوام تک پہنچ رہے ہیں، اِن ممالک نے آپس میں ایکا کر رکھاہے کہ ایک دوسرے کے ملک میں آنے جانے پر پابندی لگانے کی ضرورت نہیں، البتہ غریب اور بھوکے ننگے ملک جہاں اب تک کوئی ڈھنگ کا نظام نہیں بن سکا وہاں سے لوگوں کو اپنے ملک میں مت آنے دینا ورنہ وہ ہمارا نظام بھی تلپٹ کر دیں گے۔ خیر، ہم غریبوں نے اِن امیروں کا نظام کیا تلپٹ کرنا تھا، ایک ننھے سے وائرس نے یہ نظام تلپٹ کر دیا۔ الیکٹرون مائیکروا سکوپ سے بمشکل نظر آنے والے اِس وائرس نے ایک روز اپنی ہیئت بدلی اور جانور سے جست لگا کر انسان کے جسم میں داخل ہو گیا، اس کے بعد ایک سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتا چلا گیا اور پھر اُن ممالک میں بھی داخل ہو گیا جہاں ویزے کے بغیر داخلہ ممکن نہ تھا!

کورونا وائرس نے انسان کو یہ سبق سکھایا ہے کہ دنیا یوں نہیں چلائی جا سکتی جیسے چلائی جا رہی تھی، ایک طرف امیر اور طاقتور ملک اور دوسری طرف غریب اور ناکام ممالک، یہ ماڈل نہیں چلے گا، انسانی ترقی پر چند ممالک کی اجارہ دار ی نہیں ہو سکتی، وہ ملک جو آج ترقی یافتہ ہیں اپنے دروازے محض اِس لیے نہیں بند کر سکتے کہ ان کا بنایا ہوا نظام غریب ملک کے جاہل لوگ برباد کر دیں گے۔ اِس کورونا وائرس نے ثابت کیا ہے کہ دنیا کو اگر کوئی اجتماعی خطرہ ہے جس سے تمام ممالک نے مل کر نمٹنا ہے تو پھر اسی قاعدے کی رُو سے نسل انسانی کی ترقی بھی اجتماعی ہے لہٰذا چند ممالک اِس اجتماعی ترقی کو اپنے کھاتے میں ڈال کر خود کو برہمن اور باقیوں کے ساتھ شودروں والا برتاؤ نہیں کر سکتے۔ یہ دنیاکسی ہاؤسنگ سوسائٹی کی Gated Communityنہیں ہو سکتی جہاں امیر اور مراعات یافتہ طبقے کے لیے تو 24/7سیکورٹی کا انتظام ہو اور جس میں کوئی بغیر اجازت؍ پاسپورٹ داخل نہ ہو سکتا ہو جبکہ سوسائٹی کے اُس پار بھوک، ننگ اور افلاس جنم لے رہی ہو۔ جلد یا بدیر دنیا کو یہ طے کرنا ہوگا کہ انسانوں نے اسی تفریق کے ساتھ دنیا میں رہنا ہے یا پھر نسل انسانی کی ترقی پر ہر کسی کا حق تسلیم کرکے یہ Gated Communityکا تصور ختم کرنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سیانے لوگ یہ گتھی سلجھا لیں گے لیکن اگر انہیں سمجھ نہ آئی تو بندہ حاضر ہے، اگلے سال ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم میں سمجھا دے گا!

دنیا کو اُس کے حال پر چھوڑتے ہیں اور پاکستان آتے ہیں جہاں لوگ سینہ چوڑا کر کے یوں پھر رہے ہیں جیسے کورونا نے ہمارے ایمان کی حرارت دیکھ کر حملہ آور ہونا ہے، گویا حرارت زیادہ ہوئی تو وہ اپنے آپ مر جائے گا۔ یقین کریں ایسا نہیں ہوگا کیونکہ جو وائرس جانوروں میں ہوتے ہیں اُن سے نمٹنے کے لیے انسان کا مدافعتی نظام تیار نہیں ہوتا، کورونا چونکہ جانور سے انسان میں آیا ہے اِس لیے انسانی جسم اس کے لیے تیار نہیں۔ اِس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ اِس قسم کے وائرس حرام جانوروں کو کھانے سے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں، یہ ثابت ہو چکا ہے کہ حلال جانوروں سے بھی وائرس انسانوں میں آ جاتے ہیں جو جان لیوا ہوتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کورونا وائرس ایک خاص مدت تک کسی جگہ رہ سکتا ہے اور اُس مدت کے بعد اپنے آپ ناکارہ ہو جاتا ہے، اسے اپنا اثر دکھانے کے لیے انسانی جسم کی ضرورت ہے، جب یہ کسی جسم میں داخل ہو جاتا ہے تو اسے بیمار کر دیتا ہے مگر جب یہ بیماری ختم ہوتی ہے تو ساتھ ہی وائرس بھی ناکارہ ہو جاتا ہے، البتہ بیماری کے دوران اگر متاثرہ شخص کسی دوسرے شخص سے ملے تو وائرس اس میں منتقل ہو جاتا ہے اور یوں یہ سلسلہ آگے چلتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کا آپس میں ملنا جلنا کم سے کم ہو، جب وائرس کو انسانی جسم نہیں ملے گا تو یہ اپنے آپ ناکارہ ہو جائے گا۔ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن اور سماجی دوری اسی لیے کی جا رہی ہے کہ وائرس کا پھیلاؤ روکا جائے، جب وائرس کا پھیلاؤ رکے گا تو اِس کے مریضوں کی تعداد اپنے آپ رک جائے گی، جب تعداد رُک جائے گی تو پھر مریضوں میں موجود وائرس از خود ناکارہ ہو جائے گا، یہی کام چین نے کیا، یہی کام باقی دنیا کر رہی ہے، یہ صرف کچھ وقت کی بات ہے جو ہم نے گزارنا ہے اور اِس دوران کوشش یہ کرنا ہے کہ ہم اُن اسّی فیصد لوگوں میں رہیں جن تک وائرس نہیں پہنچا اور اِس کے لیے ضروری ہے کہ چند دن کے لیے اپنے شہر بند کر دیں، جو مریض ہیں انہیں قرنطینہ میں رکھ کر اعلیٰ طبی امداد دیں، وائرس سے متاثرہ لوگوں کے ملنے جلنے والے تمام لوگوں کا ٹیسٹ کریں اور ڈاکٹروں کو کورونا سے نمٹنے کے لیے مخصوص لباس اور لوازمات دیں۔ یہ کھانے، پارٹیاں، شادیاں، دعوتیں، شاپنگ اور جعلی خبروں کو پھیلانا بند کریں اور سب سے اہم بات یہ کہ اِس لاک ڈاؤن میں غریبوں کے لیے ایک ٹھوس پلان بنائیں، وہ لوگ جنہوں نے اس سال حج یا عمرے پر جانا تھا، یور پ میں چھٹیاں گزارنا تھیں، شادیوں میں پانچ پانچ لاکھ کے جوڑے بنانا تھے، انہیں چاہیے کہ یہ پیسے اُن لوگوں پر خرچ کریں جو اِس لاک ڈاؤن یا کورونا مندی کی وجہ سے نڈھال ہوئے بیٹھے ہیں، سفید پوش ہیں، کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے، دیہاڑی دار ہیں اور اپنے بچوں کے لیے روزانہ مزدوری کرکے کھانے کا بندوبست کرتے ہیں، خیال رہے کہ یہ مدد کرتے وقت ضرورت مند کا مذہب یا فرقہ نہ دیکھیں کیونکہ غربت اور بیماری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ یہ وائرس کچھ وقت میں ختم ہو جائے گا اور اِس میں لاکھوں لوگ بھی نہیں مریں گے بشرطیکہ ہم بھی دنیا کی طرح عقل سے کام لیں اور اپنا مزاج بدلیں، احمقانہ دلیری کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھیں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے