کرونا وائرس سے ایک ملاقات

گزشتہ رات میں اپنے بستر میں لیٹا مزے سے لیپ ٹاپ پر کام کرنے میں مصروف تھا کہ میرا ہاتھ بیڈ کے ساتھ پڑی میز کی جانب بڑھا جو اگلے ہی لمحے مایوسی سے واپس ہولیا کیونکہ میرے سگریٹ کا پیکٹ بالکل خالی تھا۔ رات کے 12 بج رہے تھے اور اس وقت محلے میں کسی بھی دکان کا کھلا ہونا ناممکن بات تھی۔ خیر مرتا کیا نہ کرتا میں سڑک پار کر کے دوسری جانب جانے کا ارادہ کیا کہ شاید وہاں سے کچھ انتظام ہوسکے۔ گھر سے نکلا تو ہر طرف اندھیرا پایا ، میونسپل کمیٹی کے لگائے بلب بھی ناکارہ ہونے کے باعث تاریکی بڑھانے میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔ ابھی کچھ ہی دور گیا کہ پیچھے سے کسی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔ میں گھبرا گیا اور بغیر کچھ سوچے سمجھے اپنا موبائل اور پرس نکال کر پیچھے کھڑے شخص کو دینے کیلئے مڑا۔ کالے کپڑوں میں ملبوس شخص جس نے اپنا چہرا بھی چھپا رکھا تھا اس نے میرا موبائل اور پرس لینے سے انکار کیا اور بولا "مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے”۔

میں نے ڈرتے ہوئے پوچھا آپ کون ہو اور کیا بات کرنی ہے۔ کہنے لگا میں "کرونا وائرس” ہوں اور انسانی شکل میں آپ سے ملنے آیا ہوں۔ میری گھبراہٹ اور بڑھ گئی لیکن اس کا کہنا تھا کہ گھبرانے کی بات نہیں آپ نے سیناٹائزر لگا رکھا ہے آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں نے پوچھا کیا بات کرنی ہے۔ بولا پہلے کہیں بیٹھ جاتے ہیں بات تھوڑی لمبی ہے ایسے کھڑے کھڑے نہیں کر سکتے۔ ہم سڑک کنارے بیٹھ گئے اور وہ اپنا احوال سنانے لگا۔

کہنے لگا میں نے چائنہ سے اپنا وار شروع کیا اور خوب تباہی مچائی۔ ہزاروں لوگوں کو اپنا شکار بنایا اور جن لوگوں کی قوت مدافعت کم تھی ان کو موت کی وادی میں دھکیل دیا۔ میرے وار اتنے شدید ہوئے کہ دیکھتے ہی دیکھتے میں پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اور آج لاکھوں افراد کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوں۔ دنیا کی بڑی بڑی معیشت آج میری وجہ سے گھٹنوں کے بل آ چکے ہیں اور بڑی بڑی طاقتوں کے امیر مجھ سے معافیاں مانگنے پر مجبور ہیں۔

میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ لیکن میرے سامنے آپ کے پسینے کیوں چھوٹ رہے ہیں۔ آواز میں گھبراہٹ کیوں ہے۔ یہاں خوفزدہ کیوں ہو۔ اس نے کہا میں اسی طرف آ رہا ہوں۔ بات دوبارہ شروع کی کہ چائنہ نے بہت جلد مجھ سے چھٹکارہ حاصل کر لیا اور میرے ہر وار کو ناکام بنا دیا۔ مجھے شکست ہوئی تو میں نے دوسرے ممالک کا رخ کیا۔ چلتے چلتے میں ایران پہنچا جہاں سے میں اپنے مشن میں بہت حد تک کامیاب ہوا۔ وہاں موجود ہزاروں زائرین کو نشانہ بنایا۔ وہیں سے کچھ پاکستانیوں پر حملہ کیا۔ جب ان زائرین کے ذریعے میں تفتان بارڈر سے پاکستان داخل ہونے لگا تو میری خوشی کی انتہاء نہ رہی کہ وہاں حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر تھے۔ قرنطینہ کے نام پر بنائے گئے ہال میں مجھے مزید شکار ملے جن پر میں نے پے در پے وار کیے اور میں پورے پاکستان میں پھیل گیا۔

اس دوران میں نے اپڈیٹ لینے کیلئے ذرائع ابلاغ کا سہارا لیا تو مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ملکی قیادت اس وقت پوائنٹ سکورنگ میں مصروف ہے۔ اپوزیشن کو حکومت پر تنقید اور حکومت کو پچھلی حکومتوں کو گالی دینے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔ میں جان چکا تھا کہ یہاں کے بڑوں کے کرنا کرانا کچھ نہیں اور میرا راستہ بالکل صاف ہے۔ عوامی رائے جاننے کیلئے میں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا تو دیکھا کہ 22 کروڑ آبادی کے ملک میں ہر بندہ ڈاکٹر ہے۔ کوئی مجھے پیاز سے بھگانے کی ترکیب سوچ رہا ہے تو کوئی سرکے سے۔ کوئی میرے نام استعمال کر کے مزاحیہ ویڈیو بنا رہا ہے تو کوئی خود وائرس بن کر ایکٹنگ کرنے میں مصروف ہے۔ اور تو اور یہاں کے بڑے بھی مجھے گرم پانی اور پیناڈول سے مارنے کی پلاننگ کر رہے ہیں۔

شروع میں تو میں صرف ہنستا رہا لیکن اس وقت مجھے کچھ کوفت ہوئی جب مجھ پر لطیفے بننے شروع ہوگئے۔ میں حیران تھا کہ میں نے بھی کس قوم پر وار کیا ہے کہ اگر میں نے ایک شخص کو متاثر کرتا ہوں تو اسے دیکھنے کیلئے 100 بندے ہسپتال پہنچ جاتے ہیں اور راہ چلتے مشورے سے نواز رہے ہیں۔ یہ صورتحال میرے لیے نئی تھی۔ میں نے سوشل میڈیا مزید کھنگالا تو پتا لگا کہ یہاں کفن تک مہنگے ہوگئے ہیں اور لوگ مجھ سے خوفزدہ ہونے کی بجائے میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔ کوئی اپنے پیر کی پھونکوں پر اندھا اعتماد کر رہا ہے تو کسی کو گھریلو ٹوٹکے بہت عزیز ہیں۔ میں اس قوم سے خوفزدہ ہوگیا کہ یہ میرا برا حشر کر دیں گے۔ لیکن ایک بات نے میرے اعتماد میں اضافہ کیا کہ یہاں کے بڑے کسی قسم کی احتیاطی تدابیر کرنے کی پلاننگ نہیں کر رہے۔ میں کھلے منہ کے ساتھ کرونا کی باتیں سننے پر مجبور تھا کیونکہ میں بھی سوشل میڈیا پر بننے والے مذاق اور لطیفوں سے واقف تھا۔

کرونا نے کہا کہ اب میں چلتا ہوں لیکن آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یاد رکھنا کچھ ملکوں نے میری باتوں کو ایسے ہی ہوا میں اڑا دیا تھا آج ان کا حشر آپ کے سامنے ہے۔ اگر پاکستان میں یہی صورتحال رہی تو مجھے اپنا کام کرنے اور اس میں کامیاب ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ یہ کہہ کر وہ اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر غائب ہوگیا لیکن میں وہاں بیٹھا سوچتا رہا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔

ہم ایئرپورٹ پر رشوت دے کر بغیر سکریننگ وہاں سے نکل آتے ہیں اور اپنے ہی خاندان کے مزید افراد کو اس بیماری کا شکار کر دیتے ہیں۔ ہم بغیر احتیاطی تدابیر پارٹیاں ، شاپنگ اور آوارہ گردی میں مصروف ہیں لیکن کہیں اپنے بچاو کیلئے کچھ کرنے کو تیار نہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ کب صورتحال ہمارے ہاتھ سے نکل جائے۔

کرونا سے ملاقات کے بعد میں تو بہت گھبرا گیا ہوں کیونکہ جب میں ترقی یافتہ ممالک اور ان کے سربراہان کو بے بس دیکھتا ہوں تو اپنے ملک کے وزیر اعظم سے درخواست کرنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ ہنگامی بنیادوں پر کچھ کر لیں اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے