کرونا وائرس سے جہاں ہر طرف لاک ڈاؤن ہے اور پورے اٹلی کا نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے، ہر طرف سناٹا ہے، کھیل کے میدانوں سے لے کر مساجد و گرجا گھروں تک سب بند ہیں اور ہو کا عالم چھایا ہوا ہے۔ کوئی کسی سے ملتا ہے نہ ہی کسی کے قریب آنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس دوران اردگرد دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے ہم کسی ناول یا کہانی کو پڑھ رہے ہیں، جس میں اکثر بتایا جاتا ہے کہ پچاس ہزار میل کی دوری پر ایک ایسا نیک شہزادہ رہتا ہے کہ جس کی آمد پر یہ صدیوں سے ویران پڑا سویا ہوا محل پھر سے جاگ اٹھے گا اور ہر طرف زندگی مسکرانا شروع کر دے گی۔ معلوم نہیں کب کروناوائرس کے بادل چھٹیں گے اور کب زندگی معمول کے مطابق چلنا شروع ہو گی۔ یہ وائرس مہمان بن کر آتا ہے اور پھر شاطر و چالاک دشمن کی طرح ہمارے سارے نظام کو تباہ کر کہ ہمیں موت کے گھاٹ اتارتا ہے۔
اٹلی کی موجودہ صورت حال اس بات کی قطعی طور اجازت نہیں دیتی کہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر باہر نکلا جائے, یا یوں کہہ لیں کہ گھر میں رہیں گے تو آپ اور آپ کی فیملی محفوظ ہے۔ سڑکیں ویران ہیں کھیل کے میدان خالی ، کالج و یونیورسٹیاں بند۔ بازار کھلے ہیں نہ ہی کوئی اب جھیل کنارے ٹہلتا ہے (روزانہ واک آپ کو تندرست رکھتی ہے)۔ کاروبار زندگی معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ مقامی حکومت اور مرکزی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ یوٹیلٹی بلز بھی کم نرخوں پر وصول کئے جائیں گے, اور ایسے تمام اقدامات کئے گئے ہیں کہ جس سے عوام کی بھلائی ہو۔ کیونکہ اس ملکی بندش سے معیشت دیوالیہ پن کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اور یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اگر حالات نہ سنھبلے تو آنے والے کل کی کیا تصویر سامنے آئے گی یہ پرنٹ کا نیگیٹیو دیکھ کر ہی کوئی اندازہ لگا سکتا ہے؟
بہار کی آمد آمد ہے مگر گلشن ویران ہوا پڑا ہے، چڑیوں کی آواز صبح صادق سے ذرا پہلے آنا شروع ہو جاتی ہے اور رات گئے تک رنگ برنگی چڑیوں کی چہچہاہٹ سے یہ سویا ہوا محل کسی بستی کا سا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ معلوم نہیں کس کی نظر لگی اس ملک کو کہ ایکدم سب کچھ ویران ہو گیا ہے۔ یہ مناظر مشرق وسطی میں ہونے والی تباہی سے کسی طور کم دیکھائی نہیں دیتے۔
میں ان دنوں اٹلی کے شہر لیکو (Lecco(LC میں رہائش پذیر ہوں اور یہ صوبہ لمبارڈیہ (Lombardia) کا ہی ایک حصہ ہے۔ میلان سے پچاس کلو میٹر اور کومو جھیل سے تیس کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ لیکو جھیل اور کومو جھیل اصل میں ایک ہی جھیل سے نکل کر دو مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق یہاں لیکو کی کل آبادی تین لاکھ سینتیس ہزار دو سو گیارہ لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک سیاحتی مقام ہے اور سارا سال یہاں دنیا بھر سے لوگ سیروسیاحت کے لئے آتے ہیں۔
آج کل لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہاں سیاحت مکمل طور پر بند ہو چکی ہے، گاڑیوں کی آواز آتی ہے نہ ہی سیاحوں کا رش۔ اس دوران اگر مجھے کچھ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے تو وہ صرف دو نام ہیں جن میں ڈیڑھ سالہ کیارا اور اڑھائی سالہ فرانچسکو کے نام شامل ہیں۔
کیارا کی عمر بمشکل ڈیڑھ سال ہو گی جبکہ اس کا بھائی فرانچسکو اڑھائی سال کا معلوم ہوتا ہے۔ یہ دونوں بچے اپنے دادا اور دادی کی آنکھوں کے تارے ہیں۔ دادا (جوزف) ایک ساٹھ سال کے پنشنر ہیں اور دادی (رومانہ) ایک ریٹائرڈ خاتون ہیں، سارا دن گلی میں یہ اپنے پوتے اور پوتی کو کھیلاتے رہتے ہیں، کیارا اپنی کھیل کی اشیا سے اکتا کر چلاتی ہے تو کبھی فرانچسکو کی شرٹ کسی جگہ پھنس جاتی ہے تو وہ چلانا شروع کر دیتا ہے۔
معلوم نہیں یہ بچے رات کو کیسے سوتے ہیں۔ گھر کے صحن میں ان کے لئے کھیلنے کا بہت سا سامان پڑا ہوا ہے، جس میں ایک بڑی ساری تصویر کے متعدد حصے ہیں جو ان بچوں نے ٹیبل پر جوڑنے ہوتے ہیں اور تصویر مکمل کرنی ہوتی ہے، تو صحن کے کسی حصے مین عمارت کو تعمیر کرنے والے سارے اوزار دستیاب ہیں جہاں فرانچسکو اور کیارا اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ دونوں اس عمر سے اتنے ذہین ہیں کہ ان کی ذہانت ان کی تصویر کو مکمل کرنے والی مہارت ہی بتا سکتی ہے۔
یہاں شرح پیدائش 7.10 ہے تو اس وجہ سے یہاں بچے کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔جبکہ یہاں بوڑھے افراد کی تعداد پوری آبادی کا تیئس(23) فیصد ہے۔ چنانچہ دادی دادا، نانی نانا بچوں کی دیکھ بھال میں ہی مصروف نظر آتے ہیں۔ اس پوری گلی میں تین چار گھروں میں بچے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
کیارا ، فرانچسکو سے زیادہ پھرتی رکھتی ہے لہذا دادی کیارا کی دیکھ بھال زیادہ کرتی ہے اور فرانچسکو چونکہ عمر میں کچھ بڑا ہے تو وہ ہر چیز کو اچھے سے استعمال کرتا ہے گو کہ وہ بھی ابھی بمشکل اڑھائی سال کا ہے۔
دادی کیارا کو قابو کرنے کے لئے ہمیشہ ایک ہی جھوٹ بولتی ہے” c’è un lupo in questa via” (آگے نہ جانا، آگے بھیڑیا (Lupo )? ہے گلی میں۔) اور یوں وہ چھوٹی سی بچی اٹھتی گرتی واپس دادی کے پاس آ جاتی ہے۔
جس دن بارش ہو، اس دن گلی میں کسی قسم کا شور نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس دن دادا، دادی باہر نہیں نکلتے۔ اور یوں یہ علاقہ پھر سے سویا ہوا محل کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔
میں اکثر فجر کی نماز اور قرآن کی تلاوت کی بعد سو جاتا ہوں، اور آجکل تو ویسے بھی گورنمنٹ نے کروناوائرس کی وجہ سے باہر نکلنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے تو اس وجہ سے مجھ سے بستر دن دس گیارہ بجے ہی چھوٹتا ہے۔ اور وہ بھی اس وقت اٹھنے کو من کرتا ہے جب دس بارہ بار فرانچسکو اور کیارا کا نام باہر اونچی آواز میں نہ سن لوں۔
آج میں نے کوشش کی کہ اس خاندان سے ملاقات کی جائے جو ہر وقت اس گلی میں بچوں کے ساتھ کھیل کود میں مشغول رہتا ہے۔ مجھے بچوں کے نام تو زبانی یاد ہو گے ہیں مگر میں نے کوشش کی کہ ان کے دادا دادی سے بھی ملاقات ہو۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں کروناوائرس کی وجہ سے شاید یہ لوگ مجھ سے کوئی بات چیت نہ کریں، مگر جب میں نے مسٹر جوزف(دادا) سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں ہے ہم ایک مناسب فاصلے سے بات چیت کر سکتے ہیں, اسی دوران بچوں کی دادی مسز جوزف اور بچوں کی ماں کلودیا بھی آ گئی۔ مس کلودیہ ایک آفس میں مینیجر ہیں اور ان کی انگریزی بول چال بہت اچھی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہم آجکل گھر پر ہی ہوتے ہیں اور یہاں سے کام کاج آن لائن کرتے ہیں۔ ہمارے بچے سارا دن دادا دادی کے پاس ہی ہوتے ہیں اور یہی ان کی عمر ہے جب ان کو دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ سکول جانا شروع ہوتے ہی ان کی عمروں کو پہیے لگ جاتے ہیں اور پھر یہ کبھی ہاتھ نہیں آتے۔
مسٹر جوزف نے مجھے بتایا کہ ہم دو میاں بیوی اس گھر میں رہتے ہیں جبکہ میرا بیٹا اسی گلی کے دوسرے کنارے پر رہتا ہے۔ ہماری زمیں بھی اپنی ہے اور گھر بھی اپنے ہی ہیں۔ ہماری اولاد میں صرف ایک بیٹا ہے اور اس کے یہ دو چاند سے بیٹی اور بیٹا ہیں۔ ہمارا دن ان کو ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل کرنے سے شروع ہوتا ہے اور رات جب ان کے والدین واپس گھروں کو لوٹتے ہیں تو یہ واپس اپنے والدین کے پاس جاتے ہیں۔انھوں نے مزید بتایا کہ چونکہ آجکل انھیں بھی چھٹیاں ہیں تو یہ بچے معمول کے مطابق ہمارے پاس ہی رہتے ہیں۔
ہم نے ان کی کھیل کود کے لئے قیمتی سے قیمتی کھیلنے کا سامان یہاں پر رکھا ہوا ہے۔ کیارا کی عمر ڈیڑھ سال ہے مگر وہ ٹھیک سے چلتی ہے، ہم نے ان بچوں کے لئے صحن میں چھوٹا سا فش فارم بھی بنا رکھا ہے جس میں کیارا اور فرانچسکو شوق سے ان کو انکی خوراک ڈالتے ہیں۔ فرانچسکو کو آرکیٹیکٹ بننے کو شوق ہے تو ہم نے اس کے لئے سارا سامان صحن میں لا کر رکھا ہوا ہے۔
معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ صحن میں ان کی کھیل کود کا سامان دس ہزار یورو سے زائد مالیت کا پڑا ہوا ہے۔
کیارا اور فرانچسکو ہر روز مجھے کھڑکی سے دیکھتے ہیں اور دور سے ہاتھ ہلا کر پیاری سی آواز میں چاؤ( Ciao) کہتے ہیں جس کے معنی اطالوی زبان میں ہائے یا ہیلو کہ ہیں۔
جہاں ایک طرف پورے اٹلی میں ہو کا عالم چھایا ہوا ہے اور لوگ بری طرح سے کروناوائرس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں وہاں ہی کچھ افراد ایسے بھی ہیں کہ جو اپنے شب و روز نہایت ہی پرسکون طریقے سے گزارتے ہیں۔ ان کے چہرے پر کسی پریشانی کے اثرات ہیں نہ ہی ان کوئی دوسری فکر ان کے یہاں دیکھنے کو ملی۔
اس سٹریٹ میں لگ بھگ تیس پینتیس سے زیادہ گھر آباد ہیں مگر بچے صرف تین چار گھروں میں ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں جس جگہ میں اس وقت رہائش پذیر ہوں وہاں بھی زیادہ تعداد میں لوگ بڑی عمروں کے ہیں، واک اور ہائیکنگ ان تمام افراد کا مشغلہ ہے۔ یہ ایک سیاحتی مقام ہے اور سال کے ہر موسم میں دنیا بھر سے سیاح یہاں گھومنے آتے ہیں، اسی تناظر میں یہاں ہر طرف جنگلوں میں واکنگ ٹریک اور ٹریلز بھی بنے ہوئے ہیں۔
ان دنوں میں پولیس مکمل کوشش کرتی ہے کہ کوئی بھی شخص غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نہ نکلے، اور خلاف ورزی کرنے والے سینکڑوں افراد کو پولیس جرمانے بھی عائد کئے ہیں۔ پچھلے ہفتے مجھے ایک یونیورسٹی سٹوڈنٹ سے ملاقات ہوئی جو شام کے وقت واک پر نکلی اور دس منٹ بعد اسے میں نے افسردہ ہوئے چہرے کے ساتھ اس وقت پایا جب میں اس کے پاس سے گزر کر آگے جانے لگا تو اس نے کہا کہ آگے مت جانا پولیس نے مجھے بھی روک کر واپس بھیجا ہے۔ یہاں سے آپ بھی مڑو۔
میں نے بہت سے اطالوی افراد کو دیکھا ہے کہ وہ اس کروناوائرس کے نام وجہ سے ذہنی تناؤ کا شکار ہو چکے ہیں اور دور تنہائی میں جا کر رہنا شروع کر دیا ہے۔ ابھی تک معلوم نہیں کہ مزید کتنا وقت لگے گا حالات کو معمول پر آتے ہوئے___ یہاں لوگوں میں اب سنجیدگی آنا شروع ہوئی ہے جب یہاں گزشتہ کل سات سو تیرانوے لوگوں کی ہلاکت اس کروناوائرس سے ہوئی ہے۔
یہاں یہ بات بتانا بہت ضروری ہے کہ یہ اموات پورے اٹلی کے ہسپتالوں سے حاصل ہونے والی اطلاعات کے مطابق اکٹھی کی جاتی ہیں اور کوئی بھی شخص اس معلومات کو ان کی ویب سائیٹ https://lab24.ilsole24ore.com/coronavirus/ پر جا کر حاصل کر سکتا ہے۔ اس میں پوری دنیا سے کروناوائرس سے متعلق متاثرین کی تعداد روزانہ کی بنیادوں پر شامل کی جاتی ہیں۔
آنے والے دنوں میں اگر اموات کی شرح کم ہوتی ہے اور نئے مریضوں میں کسی طور کمی آتی ہے تو پھر امید کی جا سکتی ہے کہ بہت جلد ہی حالات بہتری کی طرف گامزن ہو جائیں گے ورنہ مضبوط سے مضبوط معیشت تباہی کے دہانے پر ہو گئی۔ اس وقت پورا اٹلی مکمل اس وقت پورا اٹلی مکمل طور پر لاک ڈاؤن ہے اور ہر شہر اور گاؤں “سوئے ہوئے محل” کا منظر پیش کر رہا ہے۔
اب دو ہی صورتیں سامنے ہیں, ایک مکمل طور گھر میں رہا جائے یا دوسری صورت میں ہسپتال میں رہا جائے۔ اس مہمان “وائرس” کو گھر میں نہ لائیں ورنہ یہ اتنا طاقتور ہے کہ آپ کو بے گھر کر دے گا احتیاط واحد علاج ہے۔