میں بچپن سے ہی ایک ڈرپوک انسان تھا, مجھ سے زیادہ تیز چھوٹے بھائی آفتاب حسین تھے جو 3 فروری 2016 کو ایک ایکسیڈنٹ میں شہید ہو گے تھے۔ وہ پاکستان آرمی میں ملازمت کرتے تھے۔
خیر جب میں پاکستان میں تھا تو اسی وقت میں نے اس ڈر کو ختم کرنے کے لئے راتوں کو سفر کرنا شروع کئے, جو بنیادی طور پر ایک گاؤں سے دوسرے تیسرے گاؤں تک پیدل سفر ہوتا تھا۔ اس کے لئے میں اکثر اپنی خالہ کے گھر سے اپنی بہن کے گھر جاتا اور پھر وہاں سے میں اپنے گھر کی طرف نکل جاتا اور جب دو تین بار ایسا کرنے پر میرا حوصلہ بڑھا تو میں نڑول اپنی پھوپھو کے گھر سے شام گئے گھر آنے کی ٹھانی, اللہ نے کیا یہ تجربہ بھی کامیاب رہا۔
وقت گزرتا گیا تو میں نے سوشل کاموں میں اور سیاسی جماعت کے جلسوں میں مفت شمولیت کے لئے ہجیرہ اور راولاکوٹ کے بھی سفر کئے۔ اب مجھے یقین سا ہونے لگا کہ میں اکیلا رات کا کوئی بھی وقت ہو گھر جا سکتا ہوں۔ میں راولپنڈی سے بھی متعدد بار تراڑکھل رات آٹھ بجے والی بس سروس سے جاتا رہا جو دوسرے دن آٹھ بجے فاروڈکہوٹہ پہنچا کرتی تھی۔اور تراڑکھل رات کے تین بجے کے قریب پہنچتی تھی۔ پیدل گھر جاتے ہوئے مجھے کبھی بھی ڈر محسوس نہ ہوا کہ اگلا موڑ کیسا ہو گا۔ مجھے پرنسپل حنیف صاحب کے گھر کے پیچھے سے گزرتے وقت ڈر لگتا تھا کیونکہ ساتھ آگے نجم کا گھر تھا اور اس کا کالا کتا رات کو اکثر کھلا رہتا تھا اور اس کی جسامت بھی خاصی بڑی تھی۔
میری کوشش ہوتی کے میں اس کتے سے بچنے کے لئے دو متبادل رستوں کا انتخاب کروں، یا اکرم/شوکت کے گھر کے پیچھے سے سیدھا اوپر کی طرف جاؤں اور چودھری اسلم صاحب (پی آر او) کے گھر کے سامنے سے نکلوں یا پھر اکرم لوگوں کے گھر کے پیچھے سے سیدھا نکل کر مویشیوں کے رستے (گہل) سے ہوتا ہوا استاد محترم مشتاق احمد محب کے گھر کے پاس سے نکلوں۔
دونوں رستے مجھے بہت زیادہ ڈراؤنے لگتے ، میں نے بچپن میں سن رکھا تھا کہ اکرم لوگوں کے گھر کے پیچھے والی جگہ میں کسی زمانے میں ہندو اپنے مرنے والوں کو جلایا کرتے تھے اور اسی لئے رات کے کسی کسی پہلو میں یہاں آگ کے الاؤ خود بلند ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور آوازیں بھی آتی ہیں, یہ میرے لئے سب سے زیادہ خطرناک جگہ ہوا کرتی تھی اور دوسرا گہل والا رستہ تو دن کے وقت بھی ڈراتا تھا تو رات پھر رات ہی ہوتی ہے۔
اب میں آیت الکرسی کا تین بار ورد کر کہ اپنے پورے جسم پر پھونک کر سڑک کے راستے نجم کے کتے کو ترجیح دے کر چل پڑتا کہ شاید یہاں اگر ایسا کچھ ہوا تو کوئی باہر آجائے گا شور سن کر، اور اگر میں دوسرے رستوں کا انتخاب کرتا ہوں تو موت سامنے ہے۔ اس دوران اگر رستے کے قریب سے ذرا سی بھی آہٹ آتی تو جان نکل جاتی۔
یہاں سے نکل کر جب میں آگے بڑھ جاتا تو میرا پچانوے فی صد ڈر ختم ہو جاتا۔ یہاں سے صرف دس منٹ کی دوری پر ہمارا گھر واقع ہے اور پانچ فی صد جو ڈر ہوتا تھا وہ گھر پہنچ کر لگتا تھا جب میں اپنے صحن میں کھڑا ہوتا۔
یورپ میں تو کبھی ایسا موقع میسر نہیں آیا ان دس سالوں میں کہ مجھے لگے کہ میں “نجم کے گھر کے قریب ہوں یا اکرم/شوکت کے گھر کے پیچھے پہنچ چکا ہوں”۔
دسمبر 2019 سے میں اٹلی کے خوبصورت ترین شہر لیکو میں رہتا ہوں، گھر سے صرف پانچ سو میٹر کی دوری پر سے گھنا جنگل شروع ہو جاتا ہے اور یہ جنگل تین اطراف میں ہے , میں نیو ائیر نائٹ پر رات تین بار لیکو سٹی گیا جو گھر سے اڑھائی کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ مجھے ویران رستوں پر چلتے ہوئے اب ذرا بھر بھی خوف محسوس نہیں ہوتا، اور اس رات میں ڈیڑھ بجے گھر واپس پہنچا تھا۔
جس دن سے اٹلی میں کروناوائرس شدت اختیار کر چکا ہے ، میرے دوست احباب و رشتہ دار مجھے دنیا کہ کونے کونے سے ہر روز فون کر کہ میری خیریت دریافت کرتے ہیں۔ میں پچھلے چار سال سے تنہا رہ رہا ہوں، اب اگر میں کہیں بھی کسی دوست کے پاس چلا جاؤں تو مجھے زیادہ افراد دیکھ کر کوفت محسوس ہوتی ہے میری کوشش ہوتی ہے کہ میں تنہائی والی جگہ پر رہوں، میں ایسا بالکل بھی نہیں تھا مجھے دوست اچھے لگتے تھے اور بھیڑ بھی لیکن اچانک پتہ نہیں کیا ہوا کہ مجھے تنہائی اچھی لگنے لگ گئی۔
اب جب کروناوائرس سے بچاؤ کا ہر طرف شور برپا ہے کہ ایک دوسرے کے قریب نہ آؤ، تنہا رہو ، کسی سے نہ ملو اپنے بوڑھے والدین کے پاس تک نہ جاؤ کہ کہیں ان سے یہ مہلک بیماری آپ میں نہ پھیل جائے تو ایک عجیب سی کیفیت جنم لیتی ہے کہ کل تک تنہا رہنے کی خواہش میری اکیلے کی تھی مگر آج پوری دنیا میں ہر کوئی تنہا ہونے جا رہا ہے۔
آجکل یہاں نرسنگ ہومز میں اکثر بزرگ والدین خاموشی سے چل بستے ہیں، انہیں دوا دینے کے لئے بھی کوئی میسر نہیں ہوتا, یہ افراد تو شاید کہ دس دس سالوں سے ایسی جگہوں پر رہتے ہیں، جہاں مہینہ دو مہینے کے بعد یا پھر کسی خاص دن ان کی نرینہ اولاد انہیں دیکھنے آتی ہے، پھول اور گفٹ بھی لاتی ہے اور دن کو گھومانے کے لیے باہر کی سیر بھی کرواتی ہے۔
جینیفر کو اپنے بوڑھے ماں باپ سے ملے تقریباً ابھی سات ماہ ہوئے تھے اور وہ خوش تھا کہ اس کے والدین اس وائرس سے بچے ہوئے ہیں۔ اس کے والدین بیرگامو( Bergamo ) کے نواحی علاقے میں کسی اولڈ نرسنگ ہوم میں رہتے تھے۔جینیفر جرمنی میں ویسٹرن یونین کے منی لانڈرنگ ڈیپارٹمنٹ میں ابھی ٹریننگ کر رہا تھا۔ پچھلے سال ہم تینوں دوستوں نے اگست کے مہینے میں الگ الگ ملکوں میں چھٹیاں منانے کا ارادہ کیا تھا۔ میں ایک ہفتے کے لئے سوئیٹزرلینڈ گیا جبکہ جینیفر اپنی گرل فرینڈ اور والدین کے ساتھ ساؤتھ اٹلی میں چار دن کے لئے گیا، اور مارکو صرف گرل فرینڈ کے ساتھ کیلگری(کینیڈا) دس دنوں کے لئے گیا۔
جنیفر نے ایک بار ہمیں بتایا تھا کہ میرے ابو اور امی ایک دوسرے سے پہلی بار جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں ملے تھے، پھر تعلقات مضبوط اس وقت ہوئے جب میری پیدائش ہوئی۔ پھر جب میں گیارہ سال کا تھا اور میرا چھوٹا بھائی پانچ سال کا تو ہمارے والدین نے اٹلی میں باقاعدہ شادی رجسٹر کروائی۔
اب وہ ہم سے الگ رہتے ہیں چونکہ میں جرمنی میں ہوتا ہوں اور چھوٹا بھائی ایمسٹرڈیم میں ملازمت کرتا ہے۔
آج میری اس سے بات چیت ہو رہی تھی تو اس نے بتایا کہ مجھے کل معلوم ہوا ہے کہ میرے امی ابو کی کروناوائرس سے ہلاکت پچھلے ہفتے ہوئی ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے جان دیتے تھے اور بلآخر دونوں کی موت بھی صرف چھے گھنٹوں کے دوران ہوئی۔
اس نے بتایا کہ مجھے کل فون کرنے پر معلوم ہوا کہ میرے ابو اور امی پچھلے ہفتے ہی انتقال کر گئے تھے۔ ابو کی وفات کے چھ گھنٹے بعد امی بھی دنیا سے کوچ کر گئیں۔
یہ ایک واقعی طور دکھ بھرا واقعہ تھا ہمارے ساتھ پڑھنے والے دوست کا ۔ جینیفر اکثر ہمیں کافی پیتے پیتے اپنے والدین کی لو سٹوریاں سنایا کرتا تھا اور اکثر کہا کرتا تھا کہ میری والدہ کی خواہش ہے کہ وہ جب بھی مرے اپنے خاوند کے ساتھ ہی ہو، اور میری والدہ کی خواہش پوری ہو گئی __ اور آج وہ یہ بات سناتے ہوئے اتنا بے بس لگ رہا تھا کہ جیسے اس نے سب کچھ کھو دیا ہے۔ اس نے کہا کہ حالات معمول پر آتے ہی میں ان کی قبروں پر جاؤں گا۔ اور پھر وہ سکتے کی حالت میں چلا گیا ہو جیسے ۔۔۔
اس میں کسی مبالغہ آرائی کی بات نہیں کہ اب یہاں موت ہر شخص کو چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔ میں خوش ہو رہا تھا کہ گرمیاں آ رہی ہیں اور ڈاکٹروں کے مطابق پچیس سے ستائیس درجہ حرارت پر یہ کروناوائرس مر جاتا ہے، مگر جب سے کراچی میں ہلاکتیں ہو رہی ہیں تو معلوم پڑا کہ وہاں کا درجہ حرارت اس وقت تیس ڈگری کو عبور کر چکا ہے لیکن وہاں کروناوائرس بڑی تعداد میں پھیل رہا ہے تو ڈاکٹروں کے مفروضے بھی اب جھوٹ لگتے ہیں۔
اب جو ڈر مجھے کھا رہا ہے وہ یہ ہے کہ باہر گھوم کر بوجھ دل کو نہیں بہلایا جا سکتا ہوتا اور گھر فون کر کہ ان کو نہیں پریشان کیا جا سکتا,کہیں چپکے سے ہی نہ چل بسوں ، اب تو کسی سے پوچھتے تھوڑی ہیں کہ آخری خواہش بتاؤ !!!
مر گئے ان ویران راہوں میں تو وطن والوں کی دعائیں ہی نصیب ہوں گی مٹی قطعی طور پر نہیں۔
مجبوری کی وجہ سے < تنہائی> ہو یا تنہائی مجبوری ہو، دونوں مشکل عوامل ہیں ____
اب مجھے واقعی ڈر لگتا ہے !!!