کوئی وزیراعظم بننے کیلئے تیار نہیں ۔

سر پہ وزارت عظمی کو ٹوکرا رکھے گلی گلی آوازیں لگائی جا رہی ہیں خریدار ہی کوئی نہیں۔صورتحال اس قدر پیچیدہ اور مضحکہ خیز ہے خریدار مزا لے رہے ہیں ۔ مول تول کرتے ہیں پھر منکر ہو جاتے ہیں ۔کبھی بلاول بھٹو بھاو تاو کرتا ہے پھر انکار کر دیتا ہے نہیں خریدنا سودا ناقص ہے ۔کبھی شہباز شریف خریداری کی حامی بھرتا ہے پھر نقد ادائیگی کی بجائے ادھار پر اصرار کرتا ہے ۔

سودا خراب ہو رہا ہے ۔کوئی خریدار ہی نہیں ۔بے قدری کا یہ عالم ہے بے اختیار ہونٹوں پر مصرعہ مچلنے لگتا ہے ۔

“وہ دن ہوا ہوئے جو پسینہ گلاب تھا “

کوئی بھی وزارت عظمی پر راضی نہیں اور مال خراب ہوتا جا رہا ہے ۔کچھ دن جاتے ہیں کوئی ادھار تو درکنار مفت بھی لینے پر راضی نہیں ہو گا ۔

خریدار کہتے ہیں ۔بہت مال بیچ لیا ۔بے پناہ منافع کما لیا ۔لوٹ ہی تو لیا ۔ناقص مال مہنگے داموں بیچتے رہے اور پورے محلے کی جیب خالی کر دی ۔دیوالیہ کر دیا۔

کبھی حسین شہید سہروری اور فاطمہ جناح کی غداری فروخت کر گئے ۔کبھی بھٹو کے ختنے بیچ گئے ۔کبھی نصرت بھٹو کی اور بینظیر بھٹو کی تصویریں بیچیں ۔

کبھی جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ بیچا۔

کیا کچھ نہیں فروخت کیا۔کبھی ایوب خان کا

“شکریہ امریکہ”

فروخت کیا ۔کبھی ضیاالحق کی سر پر رکھی نماز کی ٹوپی فروخت کی ۔کبھی مشرف کا گود میں لیا کتا بیچ گئے ۔کبھی مودی کا یار اور کبھی امریکن سنڈی بیچی ۔

کبھی مذہب بیچا اور کبھی توہین رسالت کا الزام فروخت کیا۔کرپشن اور بدعنوانی ہمیشہ بہت مہنگی بیچی ۔

عدالتوں کو باندی بنایا اور میڈیا کو پالتو بنایا ۔

کبھی جونیجو،کبھی شوکت عزیز،کبھی معراج خالد ،کبھی معین قریشی اور کبھی شیر باز مزاری،کبھی جمالی اور کبھی چوہدری شجاعت بیچا۔

خریدار اب چالاک ہو گئے ہیں ۔خریدار جان گئے ہیں

“سودا مک گیا اے “

اب کوئی بھی خریدار باقی نہیں ۔

گلیاں سنجیاں ہیں اور مرزا یار اکیلا ہے ۔

خریدار اب چھیڑنے لگے ہیں ۔خریدار اب مٹی سے وفا کا امتحان لینے لگے ہیں ۔

وقت آ رہا ہے ۔کچھ با خبر لوگوں کو کہنا ہے وقت آن پہنچا ہے فیصلہ ہو جائے گا ،وطن عزیز ہے یا ضد اور انا ۔

خریدار کہتے ہیں ہم تو غدار ہیں ۔مودی کا یار ہیں ۔امریکن سنڈی ہیں ۔توہین مذہب کے قصور وار ہیں ۔چور ہیں ۔ڈاکو ہیں ۔منی لانڈرنگ کرتے ہیں ۔

خریدار کہتے ہیں ہم سارے الزامات قبول کرتے ہیں ۔

اب تمہاری باری ہے ۔ تم بتاو تم کیا ہو؟ مٹی کے بیٹے ہو تو مٹی سے وفا ثابت کرو ۔

خریدار کہتے ہیں چنتخب کو خود لائے تھے خود فارغ کرو۔

خریدار کہتے ہیں فیصلہ تم نے کرنا ہے ادارہ عزیز ہے یا چند لوگ ۔ملک عزیز ہے یا چند عہدیداروں کا تحفظ ۔

خریدار کہتے ہیں کام پورا کرو چنتخب سے صرف اختیار واپس لینا کافی نہیں ملک سے محبت کے مزید ثبوت دو کہ تم تو وطن پرست ہو ۔تم حب الوطنی کے پہاڑ ہو ۔

خریدار کہتے ہیں یہ تمہاری حب الوطنی کا پرچہ ہے دیکھنا ہے فیل ہوتے ہو یا پاس ۔چنتخب کو چلاو یا خود آجاو اور غربت،بھوک ،مہنگائی اور بےروزگاری سے بپھرے ہوئے عوام کا سامنا کرو ۔

خریدار کہتے ہیں ہم اپنا کاندھا ہمیشہ دیتے آئے ہیں ۔اب ہم تھک گئے ہیں ۔

خریدار اب سودا خریدنے کیلئے تیار نہیں ،نہ نقد نہ ادھار ۔

وقت تیزی سے کم ہو رہا ہے ۔کچھ باخبر کہتے ہیں حقیقت میں وقت ختم ہو چکا ہے ۔

فیصلہ کا وقت آ نہیں رہا آ چکا ہے ۔

یہ وقت بھی انا اور ضد پر ضائع کر دیا تو واپس نہیں آئے گا ۔

عوامی انقلاب کی ہنڈیا پک گئی ہے ۔تین چار ہفتے گزر گئے لوگ بھوک اور بے بسی کے ہاتھوں لاچار ہو کر باہر نکل آئیں گے اور پھر جو کچھ آج تک بیچتے رہے سب کا جواب دینا پڑ جائے گا ۔

فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے ۔زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے ۔

حب الوطنی کا پرچہ سامنے پڑا ہے اور وقت ختم ہو رہا ہے ۔پرچہ حل نہ کیا تو اضافی وقت نہیں ملے گا اور پرچہ چھین لیا جائے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے