آج 26 اکتوبر 1951 ہے،میں تمھیں خط لکھ رہا ہوں

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

برادرم عزیز-مولوی محمد عبدالخالق جی!

منجانب بندہ ! آپکا خیر اندیش محمد اکبر- السلام وعلیکم ورحمتہ اللّہ

آج بتاریخ 26 اکتوبر 1951 عیسوی خداوند کی مہربانی سے میرے ناقص دل میں آپکی یاد تشریف آور ہوئی۔

آپکی مبارک یاد نے آپکا صوفیانہ تصور دل میں جما دیا۔پھر خیال آیا۔کہ پیارے بھائی صاحب کہ تصویر تو دل کے تصور میں مہمان بن چکی ہے۔مگر مہمان نوازی کا پہلا فرض گفت کلام ہی پر منحصر ہوتا ہے۔

اسلئے بہتر تو یوں ہی ہوگا کہ آپ سے گفتگو کا فریضہ ادا کروں۔

پھر دل نے مشورہ دیا۔کہ اگر مولوی صاحب کے ساتھ گفتگو کی بھی جائے۔تو انہیں کس طرح خبر ہو سکے گی کہ ان کے ساتھ محمد اکبر گفتگو سے اپنی حسرت پوری کرتا ہے۔

عقل نے جواب دیا۔کہ اے دل ناداں! تم نے باپ دادا کی اور خدا کی مہربانی سے جو تعلیم کی تھوڑی سی پونجی دادی کی مراد سے حاصل کی تھی۔وہ کس وقت کے لئے بیکار چھپائی ہوئی ہے۔ایسے نیک بخت مہمان کی خاطر تو تن من اور دھن سب کچھ وقف کر دینا لازم ہے۔

اب دل نے عقل سے ہدایت پائی اور تمام وجود آپکی مہمان نوازی میں مشغول ہو گیا۔اور تعلیمی پونجی کے چند حروف بطور تحفہ قبول فرمائیے۔تاکہ اس قسم کی معمولی خدمت کا مجھے ثواب حاصل ہو جائے اور آپکو بھی غریب میزبان کی دعوت قبول فرمائے جانے کا اجر عظیم حاصل ہو سکے

عزیز جان۔میری عمر کا پنتسواں 35 سال جا رہا ہے۔جب میرا بچپن تھا۔تو میں سوچا کرتا تھا۔کہ جب میں جوان ہونگا۔تو اپنی دنیا کو عجیب رونق دوں گا۔ اور اپنی ہستی کو دوبالا کروں گا۔اور باپ دادا کا نام روشن کروں گا۔لیکن بڑھاپا کی اور موت کی صورت سے میں کنارہ کش اور غیر واقف تھا۔
بھلا آپ ہی انداز کیجئیے کہ بچپن میں بچوں کو ناقص و معمولی چیز سے کتنی بڑی نفرت ہوتی ہے۔اور پھر میرے جیسا نا اہل مورکھ بچہ ایسی نا موافق چیزوں و باتوں کو کب گوارا کر سکتا تھا۔

میرے وہ بچپن کے عہد نامے تو دل ہی میں رہے اور جوانی کی خبر ہی نہیں کہ وہ میرے پاس کتنے دن مہمان ٹھہری ہے۔وہ تو آئی۔اور ہوا کے موافق چلتی بنی۔اور میری امیدوں اور تمناؤں کو نظر انداز کر گئی۔اور میری آرزوئوں کو خاک بگولہ کر گئی۔واہ رے جوانی! تم بھی تو کتنی بے وفا اور نا انصاف ہے۔اور تم نے اپنے منتظر عاشق سے زرا بھی تعاون نہ کیا۔اور بغیر پوچھے تم مسافر ہو گئی۔

افسوس کا مقام ہے۔کہ میں ابھی بھی جوانی کو دردمندانہ آواز سے پکار رہا تھا۔کہ ادھر سے کسی نے جواب دیا۔میں آ رہی ہوں۔

میں خوش ہوا۔کہ میری آرزوئوں کی بہار لوٹ آئی۔میری بگڑی کو بنانے والی جوانی نے مجھے اپنایا اور میں اب کچھ حاصل کر لوں گا۔

جب وہ نزدیک آئی تو میں نے اسکو خوش آمدید کہا۔اور بہت ہی بڑے پیمانہ سے اس کا خیر مقدم کیا اور وہ بولی۔کہ تم اس قدر میری چاہت کس لئے کرتا ہے۔تم کتنا نادان ہے۔بھلا تم کو اتنا معلوم نہیں۔کہ جوانی کی رخصت کے بعد اموات کا نمبر ہوتا ہے۔اور جوانی نے بھی کبھی کسی کا ساتھ دیا ہے۔وہ تو ادھر سے آئی اور پرواز ہو گئی۔میں جوانی نہیں ہوں۔میں تو موت ہوں۔اور اب میں صرف اپنے آقا کے حکم کی منتظر ہوں۔اور جبھی مجھے حکم ملے گا تو تجھے جوانی کہ خواب کی تعبیر بتاؤں گی۔اسلئے تمہیں کمربستہ تیار رہنا چاہئے۔کیونکہ میرا وقت مقرر تم کو معلوم نہیں۔اور ایسا نہ ہو کہ تمہیں میری مہمان نوازی بجانے کے لئے کہیں سے قرضہ بھی دستیاب نہ سکے۔اور رونا پڑ جائے۔اور اپنے سفر میں تم کو ہزارہا تکالیف کا سامنا ہو۔

میں نے موت کے فیصلہ کن جواب سے مایوس ہو کر اصرار کیا۔اور اسکے سوال پر وضاحت کی۔اور کہا۔کہ تم نے اربوں انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی ہے۔اور غریبوں و کمزوروں کو گفتر ہی کیا۔بلکہ تم نے بڑے بڑے شہنشاہوں اور پیغمبروں کو لقمہ اجل کیا۔مگر پھر بھی تم بھوکی ہی ہے۔بھلا تم کو میری ناتواں ہستی سے کیا دشمنی ہے۔مجھے ابھی بہت کام کرنے ضروری ہیں۔دنیا کا ذائقہ نہیں لیا۔اور لوحقین و برادری سے میل جول نہیں کیا۔دینی دنیاوی کام نہیں کئے۔اپنے ذاتی دشمنوں سے مقابلہ نہیں کیا۔اور انہیں زیر نہیں کیا۔اسلئے میری التجاء ہے۔تم مجھے ذندہ رہنے دو۔اور میرا خاتمہ نہ کرو۔میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔اور ہر قسم کا مال جنجال ہے۔اور سب ویران ہو جائے گا۔

موت نے کہا۔اوئے پاگل! تمھارے کام جو کہ تم نے کئے ہیں۔یہی کافی ہیں۔اور انکا ہی حساب تم نہیں دے سکے گا۔اور تم بجائے کل کہ آج ہی سفر کی تیاری کر ورنہ تم نے پہلے کہ موافق اور بھی بوجھ خریدنے سے تکلیف اٹھانی ہے۔تم زندہ رہنے کی درخواستیں کرتا ہے۔مگر تم کو یہ معلوم نہیں کہ یہاں کوئی بھی مقامی نہیں رہا ہے۔تم بھی تو کسی کا بچہ تھا۔اور تم کو بھی یتیمی پیش آئی ہو گی۔اور اسی طرح تمھارے بھی یتیم رہ جائیں گے۔اور جس طرح قدرت کاملہ نے تمھاری زندگی کا گزارہ چلایا تھا۔اسی طرح تمھارے یتیماں کا بھی وہی کارساز ہے۔اور اب تمھاری زندگی کا دعویٰ بے سود ہے۔کیا تم کو مسلمان کہلانے کی حیثیت سے اللّہ تبارک و تعالیٰ کی یہ فرمائش یاد نہیں۔جو کہ اس نے
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ کے ارشاد میں ظاہر کی تھی۔اور کیا تم اتنی مخلوق کے مرنے سے بھی خدا کی فرمائش پر ایمان نہیں رکھتا۔تمہیں یاد رکھنا چاہیے۔کہ اللّہ تبارک و تعالیٰ کی ہر فرمائش صداقت پذیر ہے۔اور اسکا فیصلہ اٹل ہے۔اور وہ کسی کی گڑگڑاہٹ یا ہٹ دھرمی یا سفارش سے اپنی تحریر کو نہیں مسترد کر سکتا۔اور وہ ہر کسی کو اسکے کئے کی جزا و سزا دے گا۔

اچھا میں مجبور ہو گیا۔اور بلا عذر مجھے موت کے پیغام کو صداقت پذیر جاننا چاہیے۔اور موت کا منتظر رہنا چاہیے۔اور عیاشی و جنجالی اور تعریفی تمناؤں پر ہڑتال کر دینی چاہیے۔

عزیز محمد خالق۔میں کیا لکھوں دنیا اور جوانی بیوفا۔دنیا کے سازو سامان بھی بے وفا۔دنیا کہ دوست بھی بے وفا۔غرض یہ کہ تمام دوستوں سے میں نا امید اور بیزار ہوں۔موت نے مجھے لاجواب کر دیا۔اور کسی بھی دنیاوی اشیاء میں یہ جرات نہ ہو سکی کہ وہ میری وکالت کو انجام دے سکے۔یا میری افسوس کن موت کے سامنے میرے بجائے خود کو پیش کرے۔

میں زندگی سے ہاتھ صاف کر کہ موت ہی کہ سہارے بیٹھا ہوں۔خدا جانے میرا کونسا سانس واپس میرے وجود میں نہیں لوٹے گا۔اور میری زندگی کا کارواں کس قسم کی ادھوری منزل پر رک جائے گا۔

عزیز مولوی جی۔زرا غور فرمائیے۔میری یہ فخر پذیر دنیا۔میری یہ فکر ساز دنیا کتنی بڑی دھوکہ باز ثابت ہوئی ہے۔اسکا میرے ساتھ اور میرا اسکے ساتھ کس قدر خلق تھا۔اور کس قدر میرے اسکے ساتھ تعلقات تھے۔

بلآخر اس نے مجھے پاگل ہی ثابت کر دکھایا اور مجھے ہر قسم کی ٹھگ بازی سے خرید لیا۔بھلا ایسی مکار آقا دنیا کے غلامان نے میرے موافق کتنے بڑے نقصان برداشت کئے۔اور آپ ہی فرمائیے کہ میرے جیسے ٹوٹے ہوئے بدنصیبوں کے لئے بھی کوئی ایسی پناہ گاہ ہو گی جہاں کہ ہم نجات پا سکیں گے۔

عزیز عبدالخالق جی۔ہمارے فانی گاؤں میں عارضی زندگانی کے شیدائی دنیا کے گیت گا رہے ہیں۔اور انہیں میرے موافق ہی دل کی آنکھوں سے بینائی ختم ہو چکی ہے۔دن بھر کو پڑوسیوں کی عارضی چیزوں کی غور میں گزارتے ہیں۔اور رات کو لوٹ دھاڑ میں مشغول ہوا کرتے ہیں۔بلآخر ایسے لوگوں کا کیا حشر ہو گا۔اور کیا جہاں اس قسم کی مخلوق آباد ہو۔وہاں خدا کا غضب نہیں اترے گا۔

عزیز جان۔ہمیں تو خدا کی ذات کا شکریہ ادا کرنے کا ایک بہانہ ملا ہے۔اور وہ یہ کہ اس گاؤں میں آپکی بھی سکونت ہے۔اور یہ ہو سکتا ہے۔کہ آپکی پاکیزہ ہستی کے طفیل گاؤں پر آنے والے غضب خداوند ملتوی کر دے۔اور آپکی برکت و عظمت سے اہل گاؤں کو بھی وہ ہدایت پر لا دے۔

آپکی تبلیغ بعض اوقات ہوا کی دھکیل سے خاموش بھی ہو جایا کرتی ہے۔برائے کرم آپ اپنا سلسلہ تبلیغ کا جاری رکھا کیجئے۔اور خدا سے امداد مانگیے۔یقینا مجھ جیسے گنہگاروں کو خداوند کریم آپکی برکت و عظمت کے محض ہدایت پر لائے گا۔اور ہمارا وطن آباد رہے گا۔اور عزت کی زندگی سے جئیے گا اور حلال کی موت سے سرشار ہوگا۔آمین ثم آمین

اس میں شک نہیں۔کہ خداوند کریم نے آپکو ایک عالم و عامل انسانوں کی بستی میں تعمیر فرمایا ہے۔مگر آپ زمانہ کی رفتار سے گھبرانا نہیں۔زمانہ اپنا رخ دیکھائے ۔اور آپ اپنے رستے پر چلئے۔

آج کل اگر کوئی انسان حقیقت کا راستہ اختیار کرے تو زمانہ والے اسکی رہنمائی سے الگ رہنے پر خوش رہتے ہیں۔اور اگر کوئی شخص غلط راستہ اختیار کرے تو اہلیان زمانہ اس کو ایسے سفر میں مدد کرتے ہیں۔مگر اللّہ والوں کو کسی غیر کے تعاون کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔اور خدا انکی مدد کرتا ہے۔اور میرا خط لکھنے کا مطلب ہی یہی ہے۔کہ آپکے حقیقی راستہ میں مری قلم سے آپکا تعاون ہو۔اور آپکو نایاب حوصلہ افزائی کا حصول برآمد ہو۔اور خدا مجھ کو آپکی نیک دعا سے رہنمائی کرے۔اور مجھے ہمیشہ ختم زندگی تک آپکی خدمت میں ایسے خطوط لکھنے کی فرمائش حاصل ہو آمین

آپکا خیر اندیش محمد اکبر

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے