کورونا وائرس کی ابتلا اب تک دنیا بھر میں تباہی پھیرتی جا رہی ہے پوری دنیا میں کورونا پوزیٹو افراد کی تعداد ساڑھے 13 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ کورونا کا شکار ہو کر ابدی نیند سونے والوں کی تعداد 75 ہزار کا ہندسہ عبور کر چکی ہے پوری دنیا کے ممالک میں قائم حکومتیں اپنے شہریوں کو ممکنہ مدد فراہم کرنے کی کوششیں تیز کئے ہوئے ہیں ۔
ایسے میں لاک ڈاون نے معمولات زندگی کا حقہ پانی قریب قریب بند کر دیا ہے غربت و افلاس سے اٹے گھرانے لاک ڈاون میں شکم کی بھٹی میں روٹیوں کے کوئلے ڈالنے کی تگ و دو میں ہیں انہیں احتیاطی تدابیر سے غرض نہیں ہے انکے بچے بھوک سے جب بلکتے ہیں تو انکا کلیجہ پھٹتا ہے اور وہ باہر سڑکوں پہ دوڑتے ہیں لیکن مہذب اور درد دل رکھنے والی اقوام کے حکمرانوں کا اس ابتلا میں طرز عمل کچھ اور ہے ۔
دور مت جائیے یہ کچھ دور ساتھ ہی بنگلہ دیش موجود ہے وہاں سے آپ نے بھوک اور روٹی کے نعروں کی آواز شاید میڈیا کے ذریعے نہیں سنی ہو گی، تھوڑا آگے چلئیے ایران سے ہوتے ہوئے ترکی اٹلی ،سپین ، رومانیہ، جاپان، امریکہ وغیرہ میں دیکھئے ذرہ کہ کتنے منظم انداز میں شہریوں کی داد رسی کی گئی گو کہ حالات سب جگہ اپنی اپنی جغرافیائی حدود اور سوچوں کے مطابق خراب ہی ہیں ۔
دوسرے ممالک میں قرنطینہ میں بیٹھ کر سوشل میڈیا کے ذریعے نظر دوڑائیے اور دیکھئیے زندہ قومیں کیسے مدد کے عمل کو سر انجام دیتی ہیں اشیائے ضروریہ سڑک کنارے رکھ کر ایک نوٹ پہ لکھ دیا جاتا ہے جسے ضرورت ہو وہ یہاں سے لے سکتا ہے ۔
اگر گروسری سٹورز پہ خریداروں کا رش پڑا بھی تو مناسب فاصلے کے ساتھ لوگ لائنوں میں کھڑے اپنی باری کے انتظار میں تھے کہ لائن نہ ٹوٹنے پائے ند نظمی پیدا نہ ہو ۔
لیکن ہمارے یہاں مزدور طبقہ دیہاڑی دار طبقے کا رونا رونے والے ایلیٹ کلاس کی سوچ سے ہم آہنگ وزیر اعظم کو شاید عزت نفس کا معنی کبھی سمجھ نہیں آ پائے گا اسکی مثال حالیہ احساس پروگرام کے نام پہ حکومتی مداری سے لگائیے کہ لوگوں کو پیسے فراہم کرنے ہیں 67 ہزار سے زائد خاندان فیصل آباد میں بے نظیر انکم سپورٹ میں رجسٹرڈ ہیں جنہیں پہلے مرحلے میں 12 ہزار فی کس دئے جانے ہیں
9 اپریل کو دوپہر کے وقت فیصل آباد میں اس پروگرام کے تحت شروع ہونے والے رقم کی تقسیم کے معاملے پر صحافتی ذمہ داریاں نبھانے ایک سنٹر پر پہنچا جہاں ڈپٹی کمشنر فیصل آباد ، اے ڈی سی فنانس اور ایس ایس پی آپریشنز نے معاملات کا جائزہ لینا تھا۔
وہاں کے مناظر دیکھ کر ایک پل کو تو لگا کہ یہ سینکڑوں خواتیں جنہیں قطار میں بٹھا رکھا ہے شاید کسی مہاجر کیمپ میں بیٹھی ہیں لیکن جلد ہی احساس ہوا کہ یہ ہمارے حکمرانوں کے احساس کے نتیجے میں صبح سے یہاں بیٹھی ہیں کہ عالم پناہ نے خزانے کے دروازے کھول رکھے ہیں ۔
خواتین کو زمین پہ بٹھا رکھا تھا اور کسی قسم کی راہنمائی مانگنے پہ مرد پولیس اہلکاروں سے جھڑکیاں برابر کھا رہی تھیں لیکن ذہن میں صرف یہ تھا کہ چند پیسے جو امداد کے نام پہ دئیے جا رہے ہیں وہ لازمی حاصل کرنے ہیں تا کہ گھر کا چولہا بجھنے نا پائے اور بچے دو نوالوں کو نہ ترسیں ۔
صورتحال کا اندازہ کیجئیے کہ خواتین کے لئے احساس پروگرام میں خواتین کو زمین پہ بٹھا رکھا تھا نہ کوئی ٹینٹ نہ سایہ نہ کوئی ڈھنگ سے بیٹھنے کی جگہ گورنمنٹ سکول کے سامنے واقع پارک میں سینکڑوں خواتین بیٹھی ہیں اور قریب ہی لگے ٹینٹس میں پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کے افسران کے لئے جوس کے پیکٹس ، کرسیاں، پانی کی بوتلیں پڑی ہیں اور چند فاصلے پہ حسرت و یاس کی تصویریں زمیں پہ بیٹھ کر امداد کی منتظر ہیں ۔
ڈی سی صاحب مع لاو لشکر تشریف لاتے ہیں اور ایک معذور خاتون بارے لیڈی پولیس کانسٹیبلان کو ہدایات جاری کر کے فوٹو بازیاں کرواتے ہیں واپس میڈیا کے قریب مائیکس پہ آ کے سب کو بتاتے ہیں کہ جی ہم نے بہت سارا انتظام کر رکھا ہے سب اچھا ہے۔
اسکے بعد کیا ہوتا ہے ڈی سی کے میڈیا بریفنگ کے دوران ہی انکے عقب میں پولیس افسران اور ضلعی انتظامیہ کے افراد کی گنتی کی تو پتہ چلا کہ صاحب دفعہ 144 کو جوتے کی نوک اور سوشل ڈسٹنسنگ کو کوٹ کی جیب میں لئے گھوم۔رہے ہیں پیچھے کوئی 9 افراد کھڑے تھے جو کوشش کر رہے تھے کہ کیمرے کے فریم میں انکا رخ انور بھی نظر آجائے ۔
پھر ایک منظر ایک سڑک کنارے دیکھا کہ بیلچے ، ہتھوڑے کدالیں تھامے 8 9 مزدور ہر آنے جانے والے شخص سے چند روپے اللہ کے نام پہ اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کو مانگ رہے تھے دل پھٹ رہا تھا اور میری خود کی جیب خالی تھی ندامت بھی ہوئی اور شرم بھی آئی کہ میں مدد نہیں کر سکا۔
ریاست مدینہ کہاں ہے؟؟؟؟ احساس پروگرام کے نام پہ شہریوں کی تذلیل کرنے والے حکمرانوں سے پوچھنا چاہوں گا کہ یہ پہلے مرحلے کے جن افراد کو سڑکوں پہ بلا کر تماشا کر رہے ہو انکی عزت نفس کی قیمت صرف 12 ہزار ہے ۔
ان افراد کو بے نظیر انکم سپورٹ کے تحت جب رقوم گھروں میں بھجوائی جا رہیں تھی تو یہاں 18 سنٹرز بنا کے ان ہزاروں شہریوں کی تذلیل کا کیا جواز ہے؟؟؟؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ سوشل ڈسٹنسگ کے حوالے سے گلا پھاڑ کر لمبی لمبی تقریریں جھاڑنے والے حکمران جو خودساختہ ماہرین صحت بھی ہیں ان احساس پروگرام کے ڈرامے میں شہریوں کے ہجوم میں سوشل ڈسٹنسگ کیسےبناو گے؟؟؟ کورونا پھیلتا ہے تو پھیل جائے بس یہ پتہ چلنا چاہئیے کہ حکومت وقت کتنی سخی ہے اور یہ کہ انتظامیہ اور حکومت کے لوگ میڈیا پہ کتنا کام کرتے نظر آ رہے ہیں۔
بھئی مدد کرو ضرور کرو مگر ایسے انسانیت کی تذلیل تو مت کرو ۔
بس اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھنا……..