پگاڑا سے خان تک

جہانگیر ترین کے انٹرویوز سے لگتا ہے‘ انہیں احساس ہے کہ عمران خان صاحب نے اپنی ساکھ بنانے کے لیے انہیں استعمال کرکے ڈمپ کیا ہے‘ حالانکہ انہوں نے تو خان کو وزیر اعظم بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سوچنے کو تو عمران خان صاحب بھی سوچ سکتے ہیں کہ جہانگیر ترین نے انہیں الٹا استعمال کیا اور وزیر اعظم بنانے تک جو انہوں نے وسائل خرچ کیے تھے وہ وزیر اعظم بنتے ہی سود سمیت وصول کر لیے ہیں۔

سیاست اس چیز کا نام ہے کون کب کس کو استعمال کرسکتا ہے اور جو جیتا ہے وہی سکندر؟ مجھے یوسف رضا گیلانی سے لندن میں اگست 2007 میں ہونے والی ملاقات یاد آئی۔ برسوں جنرل مشرف کی قید میں رہنے بعد پہلی دفعہ لندن آئے ہوئے تھے۔ بینظیر بھٹو نے پارٹی راہنمائوں کا اجلاس رحمن ملک کے گھر بلایا ہوا تھا۔ وہ جنرل مشرف سے خفیہ ڈیل کر رہی تھیں اور نئے الیکشن کے لیے تیاریاں بھی۔ گیلانی صاحب کا فون آیا: کہاں ہیں؟ میں ان دنوں ایک پاکستانی انگریزی اخبار کے لیے لندن سے رپورٹنگ کر رہا تھا۔ میں انہیں ملا‘ اور پھر ایجوویئر روڈ پر ہم نے پیدل چلنا شروع کیا۔

مجھے محسوس ہوا‘ وہ ڈپریس اور اداس ہیں۔ حیران ہوا کہ وہ رہائی پاکر لندن آئے ہیں‘ بینظیر بھٹو سے برسوں بعد مل رہے ہیں‘ انہیں خوش باش ہونا چاہیے تھا۔ پھر انہوں نے جنرل مشرف کی جیل بھگت لی تھی لیکن پیپلز پارٹی چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے تھے حالانکہ مشرف کے قریبی مشیر طارق عزیز انہیں جیل میں ملے تھے اور مشرف کو جوائن کرنے کے بدلے بڑی پیشکش بھی کی تھی۔ گیلانی صاحب ڈٹے رہے اور جیل بھگت لی۔ اب جب وہ آٹھ برس بعد بینظیر بھٹو سے مل رہے تھے تو ان کا خیال تھا وہ انہیں زیادہ اہمیت دیں گی‘ لیکن پارٹی اجلاس میں انہیں وہ اہمیت نہ ملی جس کی وہ اپنے تئیں توقع رکھتے تھے۔ شاید بی بی کے ذہن میں تھاکہ کہیں گیلانی کا قد مزید اونچا نہ ہو جائے‘ وہ پارٹی میں زیادہ اہمیت اختیار نہ کر جائیں اور کل کو ان سے کنٹرول ہی نہ ہوں۔
یہی رویہ بعد میں نواز شریف نے جاوید ہاشمی صاحب کے ساتھ روا رکھا جب وہ جدہ سے واپس لوٹے تو ایسا سلوک کیا کہ جاوید ہاشمی پارٹی چھوڑ گئے۔ آصف زرداری نے تو اختیارات ملتے ہی گیلانی صاحب کو وزیر اعظم بنا کر جنرل مشرف کی جیل بھگتنے کا ازالہ کر دیا‘ لیکن جاوید ہاشمی کو شریفوں نے عبرتناک مثال بنا دیا۔

خیر ایجوویئر روڈ پر چلتے ہوئے گیلانی صاحب کہنے لگے ”آج بینظیر بھٹو کو اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے دیکھ کر مجھے پیر پگاڑا یاد آ گئے۔ جب آٹھ برس پہلے بینظیر بھٹو صاحبہ کو ملا تھا تو وہ اور تھیں۔ آج وہ بالکل مختلف بینظیر بھٹو تھیں۔ آج کے اجلاس میں دیکھا‘ انہیں پارٹی کے معاملات پر کتنی گرفت ہے۔ انہیں ہر بندے کا پتہ ہے کہ کب کس بندے کو کہاں استعمال کرنا ہے اور مرضی کے نتائج لینے ہیں… یہ جاننا سیاستدان کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ کب کس بندے کو اپنے سیاسی فوائد کے لیے استعمال کر سکتا ہے اور اگلے کو ہوا بھی نہ لگنے دے‘‘۔

اسی دوران مجھے ایجوویئر روڈ پر عربی کھجوروں کی ایک دکان نظر آئی۔ میں نے کہا‘ گیلانی صاحب! ٹھہریں عربی کھجوریں خریدنے دیں کہ مجھے بہت پسند ہیں۔

کھجوریں خرید کر باہر نکلا تو باہر شہباز شریف گزر رہے تھے ۔ گیلانی صاحب اور مجھے دیکھا تو رک گئے ۔ اچھے طریقے سے ملے۔ شہباز اور گیلانی کی ملاقات بھی آٹھ برس بعد ہورہی تھی۔ بس آگئی تو شہباز شریف اس پر بیٹھ گئے ۔ میں نے بات وہیں سے جوڑی تاکہ پتہ کروں بینظیر بھٹو سے ملنے کے بعد گیلانی صاحب کو پیرپگاڑا کیوں یاد آگئے تھے ؟ انہوں نے ایک کہانی سنانا شروع کی۔

1986میں محمد خان جونیجو وزیراعظم تھے ۔ نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ۔ گیلانی اس وقت جونیجو حکومت میں ایک وزیر تھے ۔ آرمی چیف جنرل ضیاء ملک کے صدر تھے ۔ ایک دن گیلانی صاحب کو پیرپگاڑا نے بلایا اور کہا ‘برخوردار آپ سے ایک کام ہے ۔ گیلانی صاحب پیرپگاڑا کے رشتے دار بھی تھے ۔ (ان کے ایک بیٹے کی شادی پیرپگاڑا کی پوتی سے ہوئی ہے‘ کچھ برس پہلے )۔

پیرپگاڑا نے کہا‘ آپ پنجاب جائیں اور نواز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں‘ نواز شریف کو ہٹانا ہے ۔ گیلانی کچھ حیران ہوئے تو پگاڑا نے کہا‘ جی آپ جائیں‘ سب کی اجازت ہے ۔ ان کا اشارہ جنرل ضیاء کی طرف تھا۔

گیلانی خوشی خوشی لاہور پہنچے اور کام شروع کر دیا۔ بہت جلد یہ خبر لاہور میں پھیل گئی کہ نواز شریف سے بڑے ناراض ہوگئے ہیں۔ گیلانی نے ایک ایک ایم پی اے سے ملنا شروع کر دیا۔ سب ایم پی ایز نے نواز حکومت جاتے دیکھ کر اپنی سیٹیں اگلے سیٹ اپ میں پکی کرنے کیلئے ملتان کے پیر کے ہاتھ پر بیعت کرنی شروع کردی۔ ایک دن گیلانی صاحب کو اندازہ ہوا کہ اب ان کے پاس نمبرز پورے ہوگئے ہیں‘ جب چاہیں عدم اعتماد کی تحریک لا سکتے تھے ۔ انہوں نے گرو کو پیغام بھیجا: مرشد کام ہوگیا ‘ اب کیا حکم ہے ؟ مرشد نے جواب دیا: بتاتے ہیں۔

اسی شام پی ٹی وی کے خبرنامہ میں خبر چلی: پنجاب کے وزیراعلیٰ نواز شریف نے صدر جنرل ضیاء سے پنڈی میں ملاقات کی اور جنرل ضیاء نے نواز شریف کے لیے اپنی پوری حمایت کا اعلان کیا ہے۔ یہ سن کر گیلانی صاحب کے پائوں تلے سے زمین سرک گئی۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب اگلے دن اخبارات میں پیرپگاڑا کا بیان چھپا: نواز شریف کی بوری میں سوراخ تھے ہم نے سی دیے ۔

مایوس گیلانی اسلام آباد پہنچے اور مرشد کے چرنوں کو چھوا اور پوچھا: گرو یہ آپ نے کیا کیا؟ میری تو سیاسی ساکھ تباہ ہوگئی ہے ۔ پگاڑا نے قہقہہ لگایا اور بولے: آپ درست سمجھے‘ ہم نے تمہاری ساکھ ہی تو استعمال کی ہے نواز شریف کو اوقات میں لانے کے لیے ۔گیلانی صاحب چونکے۔ پگاڑا بولے: جنرل ضیاء کو کچھ عرصے سے یہ خبریں مل رہی تھیں نواز شریف نجی محفلوں میں کہتا ہے کہ میں وزیراعلیٰ اپنی وجہ سے ہوں جنرل ضیاء کا کوئی کمال نہیں۔ ہم نے سوچا ذرا بتا دیتے ہیں وہ کس کی وجہ سے وزیراعلیٰ ہیں۔ میں نے تمہارا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ تم جوان ہو، تمہاری ساکھ اچھی ہے ۔ تم سرائیکی علاقے سے ہو اور سرائیکی ایم پی ایز کو آسانی سے کھینچ سکتے تھے اور پھر ایک گدی بھی ہے‘ اوپر سے میرے رشتہ دار ہو اور میں جنرل ضیاء کے قریب سمجھا جاتا ہوں‘ سو تم پر سب نے جلدی بھروسہ کرنا تھا۔ یوں ہم نے تمہیں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔

گیلانی صدمے کی حالت میں مرشد کو دیکھتے رہے اور منہ سے صرف اتنا نکلا: گرو یہ بتا دیں ایک سیاستدان کب اس قابل ہوتا ہے کہ وہ جب چاہے کسی کو استعمال کرے اور اسے پتہ ہی نہ لگنے دے ۔ پگاڑا بولے: تیس سال لگتے ہیں جب آپ یہ فن سیکھتے ہیں۔ گیلانی بولے بینظیر بھٹو کو بھی تیس برس اب ہوئے ہیں اور اب انہیں سب پتہ ہے ۔ جو کام پیرپگاڑا کے بقول سیاستدان تیس برس میں سیکھتا ہے وہ عمران خان صاحب نے بیس برس میں ہی سیکھ لیاہے۔ جہانگیر ترین کو ٹی وی انٹرویوز میں سن کر احساس ہورہا ہے کہ انہیں بھی خان نے استعمال کیا۔ عمران خان کو وزیراعظم بنانے کے لیے دن رات ایک کیا۔ بندے توڑ کر پارٹی میں لائے اور خزانوں کا منہ کھول دیا۔ جہاز اڑائے ۔ اب پتہ چلا ہے کہ شوگر سکینڈل میں ایک کو قربانی دینی تھی۔ کلہاڑا ترین پر گرا۔ ترین حیران ہیں کہ خود عمران خان کابینہ نے ایکسپورٹ اور سبسڈی کی پہلے منظوری دی اور اسے کہا جائو ایکسپورٹ کرو‘ عثمان بزدار سے تین ارب لے لو۔ اب اچانک خود ہی عمران خان صاحب اپنے فیصلے کے خلاف تحقیقات کر کے ترین کے خلاف کارروائی کا حکم دے کر عوام اور میڈیا سے داد بھی وصول کررہے ہیں۔

جہانگیر ترین کو سیاست میں صرف دس برس ہوئے اور عدالت سے خود کو نااہل بھی کرا بیٹھے جبکہ عمران کو سیاست میں بائیس برس ہوچکے ہیں۔ سیاست کی جو اعلیٰ ترین ڈگری لینے کے لیے پیرپگاڑا نے تیس سال رکھے تھے‘ وہ ڈگری عمران خان صاحب نے آٹھ برس پہلے لے لی ہے ۔ کچھ طالب علم جینئس ہوتے ہیں اور دو تین کلاسز کا اکٹھا امتحان دے کر آگے نکل جاتے ہیں۔ ترین صاحب کی بدقسمتی وہ نالائق اور عمران خان اس کھیل میں لائق نکلے۔پیرپگاڑاکہیں سگار سلگا کرمسکرا رہے ہوں گے کہ ایک اور ملتانی بکرابن گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے