بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے!

آزادکشمیر پر مسلط ارباب اختیار کے نزدیک ہماری حیثیت لائیو سٹاک (منافع کیلئے مال مویشی پالنا) سے زیادہ نہیں ، ہم وہ شیور مرغیاں ہیں جو صرف ذبح ہونے کیلئے پیدا ہوتے ہیں

ایک حادثے کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اس بلدیہ نما ریاست پر مسلط طبقے کے نزدیک آئین وقانون اخلاقیات انسانی قدروں کی کوئی اہمیت نہیں۔ طفیلیے(پیراسائٹ) نسلوں کی بیلیں (climbing plants ) ہمیں اس طرح حصار میں لیے ہوئی ہیں کہ ہمارے خدوخال تباہ ہو کر رہ گے۔

ہیروبننے کے خواہش قابل قدر مگر اس کا بنیادی وصف ڈی این اے کا حصہ ہو تو۔۔۔۔۔۔اگر ڈی این اے چوری، ڈکیتی،دھوکہ دہی،بددیانتی غلط بیانی نمود ونمائش کے تعفن کا آمیزہ ہو تو بڑے بڑے القاب رکھنے سے آدمی بڑا نہیں ہوتا۔

دعا کی اپنی جگہ اہمیت تسلیم مگر اس کیلئے اسباب کا اہتمام ناگریز ہے، اگر دعاؤں سے حمل ٹھہرتے تو ازواجی بندھن کا وجود تک نہ ہوتا۔

اپوزیشن اور حکومت کی مفاہمتی پالیسی (لوٹ مار کی مشترکہ حکمت عملی) کا شکار آزادکشمیر کا عام آدمی ہے۔۔۔۔۔ جب بھی کوئی بڑا حادثہ ہوتا ہے یہ ڈکیت گروپ ہمارے سامنے بے لباس ہوجاتا ہے۔

وزیراعظم کے ووٹ سے بننے والا اپوزیشن لیڈر کیونکر اختلاف کی جُرات کرسکتا ہے۔ خفیہ معاہدے کے مطابق اس کی مخالفت کی حُدود طے ہیں۔پیپلز پارٹی کے سربراہ لطیف اکبر مظفرآباد ازم کا شکار ہیں، جو کچھ اس وقت آزادکشمیر میں ہورہا ہے اس میں لطیف اکبر اور فاروق حیدر ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔

سردار عتیق رہبری کے کرشمے دکھانے کیلئے مارشل لاء کے انتظار میں ہیں۔ سپر بیورو کریسی ارباب اختیار کی خوشنودی اور اپنے مفادات کیلئے بیانات ،وڈیو لنک میٹنگز تک محدود ہے۔

مارچ کے آخری عشرے کے شروع میں لاک ڈاؤن کیا گیا۔ 17 لاکھ لوگ اس سے براہ راست متاثر ہوئے ، خوراک کا حصول امتحان بن کر سامنے آیا۔ وزیراعظم بتائیں ان کی حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن کے بیس دن بعد سامنے آنے والی متوقع فہرست میں 94 ہزار 814 خاندان شامل ہیں۔ ان خاندانوں کے یہ بیس بائیس دن کیسے گزرے ہوں گے؟

2 لاکھ 48 ہزار814 خاندان حکومتی اعداد وشمار ہیں۔ اس میں67000 وہ خاندان ہیں جو اسلام آباد کے حکمرانوں کے اعلان کردہ پیکج کا حصہ ہیں، 87 ہزار خاندان احساس (بے نظیر انکم سپورٹ) کا حصہ ہیں۔ 94 ہزار 814 خاندانوں کی مجوزہ فہرست ۔۔۔۔۔ کیا کریں کیا نہ کریں، اسی سوچ وبچار ماہ مارچ کے دس دن گزرے

اپریل کے پہلے ہفتے میں متاثرین کی فہرستیں تیار کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ آج اپریل کا پہلا عشرہ ختم ہوچکا ہے۔ فہرستیں مرتب نہ ہوسکیں، یہ کارکردگی ہے! ترقیاتی بجٹ کے ساڑھے چھ ارب چاٹنے کے لیے رکھے ہوئے ہیں کیا؟ کوئی شرم ہوتی ہے۔۔۔۔۔ ضمیر نام کی بھی کوئی چیز ڈکشنری میں موجود ہے۔۔۔۔۔ مگر کرپشن کے مال سے وجود میں آنے والے خون میں یہ اوصاف کہاں۔۔۔؟ ان کے نزدیک ہم وہ شیور مرغیاں ہیں جو صرف ذبح ہونے کیلئے پیدا کی گئی ہیں۔

انتہائی بُرے اور ناگفتہ بہ حالات کو فلاحی معاشرے میں بدلنے کا واحد راستہ ہماری شعوری بیداری سے جڑا ہوا ہے، اس کا فیصلہ ہم نے اور ہماری نسلوں نے کرنا ہے کہ چوروں کو خود پر مسلط رکھنا ہے یا بہتر قیادت کا انتخاب کرنا ہے۔ برادری اور علاقائی تعصبات سے نکل کر اہل قیادت کا انتخاب وقت کی اہم ضرورت ہے۔

ایک انتباہ ارباب اختیار کیلئے ۔۔۔۔ ڈریں اس وقت سے کہ جب لوگ آپ کو آپ کے دفتروں اور گھروں سے گھسیٹ کر باہر سڑکوں اور گلیوں میں تھپڑوں اور مُکوں کے آگے رکھیں گے۔لوگوں کو ایک مخصوص وقت کے لیے بے وقوف بنایا جاسکتا ہے ہمیشہ کیلئے نہیں۔

بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے