مجھے سکول، کالج اور پھر یونیورسٹی میں ہی اتنے اور ایسے پیارے دوست ملے کہ عملی زندگی میں دوست بنانے کی فرصت ہی نہ ملی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خانہ بالکل ہی خالی رہا۔ نسبتاً کم سہی لیکن دوستیوں کے پھول دشتِ صحافت میں بھی کھلے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں دوستی کے رشتہ کو بہت ہی زیادہ سنجیدگی سے لیتا ہوں۔ ایسا نہیں جیسے پہلی دوسری ملاقات میں ٹرمپ نے عمران خان کو اپنا ’’دوست‘‘ ڈیکلیئر کر دیا تھا۔ اس ’’کارپوریٹ‘‘ کمرشل زندگی میں ’’دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا ‘‘ جبکہ دوستی کی تو Definitionہی اور ہے یعنی ……ہاتھوں میں ہاتھ پکڑے ہوئے یوں کھڑے تھے دوستدریا کو بھی گزرنے کا رستہ نہیں ملاآج بھی تقریباً ہر رات سونے سے پہلے والدین کے بعد ہر بچھڑ چکے دوست کیلئے دعا کرکے سوتا ہوں۔ آج سے اسی طویل فہرست میں اک اور چہرے، اک اور نام کا اضافہ ہو گیا- سعید اظہر۔ مولوی سعید اظہر جس میں سوائے داڑھی کے مولویوں والی اور کوئی بات نہ تھی۔سعید اظہر سے میری دوستی کی اصل وجہ اس کی مخصوص منفرد معصومیت اوربے ساختگی تھی۔ مجھے یاد نہیں کہ ہمارا تعارف کب، کہاں، کیسے ہوا اور وہ ظالم کون تھا جس نے یہ ظلم ڈھایا کہ نہ وہ ملتا نہ اس سے بچھڑنے کا دکھ دیکھنا پڑتا۔
وہ دور جدوجہد کا تھا جب ایک دن سعید اظہر نے یہ آئیڈیا فلوٹ کیا کہ ہم میں سے جو بھی پہلے مالی طور پر مستحکم ہو جائے وہ دوستوں کو ساتھ لیکر اک عمدہ رسالہ نکالے گا۔اس ’’میثاقِ صحافت‘‘ کے چند ماہ بعد 80،81میں حفیظ خان جیسا بچپن، لڑکپن کا دوست ’’گن پوائنٹ‘‘ پر مجھے سعودی عرب لے گیا۔ یہ وہی حفیظ خان ہے جس نے پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے اک تاریخ ساز الیکشن میں ’’لیفٹ‘‘ کے مستند اسٹوڈنٹ لیڈر جہانگیر بدر کو شکست دی اور اسی حفیظ خان کے نیچےجاوید ہاشمی سیکرٹری منتخب ہوا۔ حفیظ خان نے بعدازاں تحریک انصاف کیلئے بھی جان توڑ محنت کی اور پھر کینیڈا شفٹ ہو کر وہاں بھی PTIکو منظم کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا لیکن یہ کہانی پھر سہی۔سعودی عرب جانے کے بعد میرے معاملات مکمل طور پر سنبھل گئے۔82میں مَیں اپنا پہلا ذاتی گھربنا چکا تھا۔ پھرسعودی کمپنی کی شاخ یہاں قائم ہوئی جس کیلئے گارڈن ٹائون میں اک کوٹھی رینٹ کی گئی۔
مقامی رابطے بحال ہوئے تو ظاہر ہے باریش محبوب سعید اظہر سرفہرست تھا جس نے اپنے مخصوص جمالی و جلالی انداز میں مجھے پرانا ’’میثاقِ صحافت‘‘ یاد دلایا تو ظاہر ہے سرِتسلیم خم تھا۔ طے یہ پایا کہ ڈیکلریشن کا بندوبست سعید اظہر کرے گا، باقی سب کچھ میرے ذمہ- گارڈن ٹائون میں ہی میگزین کیلئے کوٹھی کی تلاش بھی شروع ہو گئی تو انکشاف ہوا کہ سعید اظہر کی ترجیحات میں واش رومز کی کوالٹی سرفہرست ہے۔خدا خدا کرکے سعید اظہر کو ایک گھر پسند آیا تو ایک طرف دفتر کی تیاری دوسری طرف سعید اظہر کسی کاتب کو پکڑ لایا جس کا نام شاید مقبول تھا۔مقبول کے پاس ’’سٹوڈیو‘‘ کے نام سے اک ماہنامہ کا ڈیکلریشن تھا۔ میں نے کہا ’’یار سعید!باقی سب شرائط تو من وعن قبول لیکن ماہنامہ کا نام بہت ہی فلمی اور گھٹیا قسم کا ہے ‘‘ سعید اظہر بھی متفق تھا جس کے بعد نام تبدیل کرانے کی تحریک شروع ہوئی۔
میں نے ’’زنجیر‘‘ تجویز کیا جو سعید اور مظفر محمد علی دونوں کو بہت پسند آیا کہ تب تک کرٹسی میں سعید اظہر کے ساتھ مظفر محمد علی بھی شامل ہو چکا تھا جسے میں پہلے نہیں جانتا تھا۔85کے آخر یا 86کے شروع میں ’’زنجیر‘‘لانچ ہوا تو بے نظیر بھٹو کی آمد کا موسم سر پہ تھا اور یہ وہ دن تھے جب سعید اظہر تقریباً نیوٹرل اور یہ احمق خاک وسرتا پا اک ایسا ’’جیالا‘‘تھا جو سعودی عرب جانے سے پہلے جیل مقدمے بھگت چکا تھا۔’’چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر ‘‘ کے سلوگن کی گونج میں ’’زنجیر‘‘ لانچ ہوا The Rest is History۔ ’’لے آئوٹ‘‘ اور اداریہ کے علاوہ باقی سب کچھ سعید اظہر اور مظفر محمد علی کے کندھوں پر تھا کیونکہ میری دوسری مصروفیات کا تقاضا یہی تھا۔ ’’لے آئوٹ ‘‘ کی ذمہ داری بھی اس لئے اپنے ذمہ لی کہ کیریئر کے آغاز پر ہی ماہنامہ ’’دھنک‘‘ میں سرور بھائی (سرور سکھیرا) کے ہاتھوں اس کام کیلئے میری خاصی تربیت ہو چکی تھی اور یہ وہ زمانہ تھا جب یہاں ’’لے آئوٹ‘‘ کا کوئی تصور ہی نہ تھا۔اس چند سالہ مہنگی مہم جوئی کے بعد دوسرا مرحلہ وہ تھا جب میں ’’بیلی پور‘‘ شفٹ ہو گیا اور یہی وہ دن تھے جب میں نے ’’گوشہ نشینی ‘‘ کا باقاعدہ آغاز کیا۔
تب اس پریکٹس کا آغاز ہوا کہ میں ڈرائیور بھیج کرسعید اظہر کو ’’امپورٹ‘‘ کر لیتا اور پھر ’’ہم تم ہوں گے ساون ہو گا،رقص میں سارا جنگل ہو گا ‘‘ خاص طور پر جب صلو درانی کینیڈا سے آتا تو ملاقاتیں بڑھ جاتیں کیونکہ صلو درانی کو بھی سعید اظہر کی لت لگی ہوئی تھی۔صلو درانی سے میری دوستی 50سال پلس پر محیط ہے۔سعید صلو کیلئے میرا سپیشل گفٹ تھا …..خدا جانے سعید اظہر کے جانے کی خبر سن کر صلو درانی پر کیا گزری ہو گی کہ جو مجھ پہ گزری …..میں ہی جانتا ہوں۔فرشتے بھی اس کی معصومیت اور بے ساختگی پر مسکرا رہے ہوں گے۔سعید اظہر بندہ نہیں ’’نشہ‘‘ تھا اور یہ ہر ایرے غیرے کا کام نہیں !!!