وہ سیٹھ ہے اسے کچھ نہیں ہو گا

کورونا وائرس سے دنیا میں قیامت صغریٰ برپا ہے ایسے میں مملکت خداد میں کورونا کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو معاشی قیامت کا بھی سامنا ہے کہ ہر دوسرے بڑے چینل میں برطرفیوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہے معاشی تنگی کہئیے ، تنگ دامنی کہئیے یا تنگ ذہنی مالکان کی جانب سے بے شمار جواز گڑھ کر من مرضیاں عروج پر ہیں ریاست ، مقننہ، عدلیہ ہنوز چپ ہیں

قوانین کی بات کرنا ہی عبث ہے کیونکہ وہ صحافیوں کے لئے نہ بنائے جا سکے اور نہ شاید بنیں گے البتہ کروڑوں روپے لگا کر میڈیا کی ٹانگیں کھینچنے اور غلیظ لفظوں پر مبنی ٹرینڈ بنوانے کے لئے حکومت وقت کے پاس فرصت ہی فرصت ہے

میڈیا چینلز کی ادائیگیاں حکومت نے روک رکھی ہیں یہ جواز چینل مالکان پیش کرتے ہیں لٹ گئے مر گئے پیسہ نہیں ہے کا رونا روتے ہوئے آنکھوں سے مگر مچھ کے آنسو بہانے والے مالکان آنسو پونچھتے نہیں بلکہ جیبوں پہ ہاتھ رکھ کر اظہار اطمنیاں کرتے ہیں کہ شکر ہے کاروبار سلامت ہیں میڈیا ورکرز کا کیا ہے یہ بیچارے تو سدا کے اچھوت ہیں

آوازیں دبانے کا سلسلہ کچھ مقتدر حلقوں کی جانب سے جاری ہے کچھ یہ موجودہ حکومت جو لائی گئی ہے اسکی پالیسیوں میں میڈیا مخالف عناصر کی بڑی پکڑ ہے اور حکومت مختلف حیلوں بہانوں سے میڈیا پر تنقید اور صحافیوں کو جھوٹا ثابت کرنے کا باقاعدہ اہتمام وقت بے وقت کرتی رہتی ہے

مجھے وہ وقت یاد ہے جب قریب ڈیڑھ ماہ قبل مجھے اور میری ٹیم کے بقیہ ساتھیوں کو ایک فون کال پہ آفس چھوڑنے کا حکم صادر ہوا تھا تو کس طرح بوجھل دل کے ساتھ تمام سٹاف بیورو چیف سمیت ایک دوسرے کو جھوٹی ہنسی چہروں پہ سجا کے تسلی بھرے بول انتہائی مشکل سے بول رہے تھے ہم ملک کے بڑے چینل ایکسپریس نیوز کا حصہ تھے اور ایک فون کال نے سب بدل کے رکھ دیا تھا

آج دوبارہ اسی کیفیت میں تب چلا گیا جب برادر کامران خان کی فیس بک پوسٹ پہ آپ نیوز اردو چینل کے مکمل بند ہونے کی افسوسناک خبر پڑھی جس کی تصدیق بعد میں دیگر دوستوں اور اس چینل سے وابسطہ ساتھیوں نے بھی کر دی

شام کا بلیٹن جاری تھا جسے روک کر پروڈیوسرز اور اینکرز سمیت نیوز سٹوڈیو میں موجود تمام سٹاف کو اکٹھا کر کے خبر سنائی گئی کہ سیٹھ نے خبروں کا کارخانہ بند کرنے کا حکم سنا دیا ہے اپنا بوریا بستر سمیٹو اور چلو گھروں کو

مجھے یاد ہے جب ہم ایکسپریس فیصل آباد آفس سے نکل رہے تھے تو آخری بار کے لمحوں میں دفتر کی اینٹوں سے لیکر منی پلانٹ کے نئے نکلتے پتوں ، دفتر میں موجود ڈیسک ، ٹی وی، کتابوں، ہمارے کام کرنے کے لئے مخصوص کمپیوٹرز اور ایک دوسرے کی سوالیہ نظروں کو بار بار آنکھوں میں محفوظ کیا تھا جیسے ہجرت سے قبل کوئی آبائی وطن کا منظر آخری بار آنکھوں میں سمو لیتا ہے

مجھے اندازہ ہے کہ آپ نیوز کے ورکرز پر یہ خبر بجلی کی طرح گری ہو گی حالانکہ ورکرز کو ملک ریاض کے چئیرمین بننے پر لگنے لگا تھا کہ حالات بہتری کی جانب جائیں گے اور بقیہ واجبات کے ساتھ دیگر مسائل بھی حل ہو جائیں گے کیونکہ ملک ریاض ورکر دوست ہونے کے حوالے سے پہچان رکھتا ہے

مگر یہاں آکر سبھی سمجھنے اور سوچنے والوں کی عقل بند ہو گئی کہ اربوں روپے کے مالک اور مقتدر حلقوں سے دوستی رکھنے والے ملک ریاض نے اچانک ورکرز کا رزق چھیننے کا فیصلہ کیسے کر لیا البتہ یہ ہو گیا اور میڈیا انڈسٹری کے لئے ایک دھچکا سمجھئیے اور حکمرانوں کی فتح بھی

ابھی کل ہی فیاض الحسن چوہان کی جانب سے لمبی چوڑی پریس کانفرنس میں صحافیوں کے حوالے سے تیار شدہ پیکج کی تفصیلات بتائی گئی تھیں کہ کورونا سے متاثرہ صحافی کو 1 لاکھ ، کورونا وائرس کے باعث خدانخواستہ مرنے والے صحافی کے اہلیخانہ کو دس لاکھ اور صحافی کی بیوہ کو ماہانہ تا حیات دس ہزار روپے پینشن دی جائے گی، میڈیا مالکان کو ٹیکس کی مد میں 16 فی صد رعایت دی جائے گی وغیرہ وغیرہ ایک سوال کھٹک رہا تھا کل سے کہ جن افراد کا معاشی قتل اس دور حکومت میں ہوا اور جن کا آج کر دیا گیا انکو بھی دس دس لاکھ روپے عالم پناہ کے خزانوں سے دئیے جائیں گے؟؟؟؟؟

کسی بھی طرح کا ریلیف یا سکھ کا سانس اہلیخانہ کو فراہم کرنے کے لیے صحافی کا مرنا ضروری ہے؟؟؟ کیمرہ مین فیاض علی، کیمرہ مین رضوان ملک اور ہمارے وہ صحافی ساتھی جو تنخواہیں نہ ملنے کے باعث ہارٹ اٹیک کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے انکے تو نام بھی اس سخی حکومت کو شاید یاد نہ ہوں

بہر حال بات میڈیا مالکان کی جائے تو اس ملک میں سیٹھ مافیا کے خلاف کارروائی تو دور بات کرنے پر بھی حکومت اور اداروں کے پر جلتے ہیں حالیہ چینی اور آٹے کی بحران والی رپورٹ تو سب کے علم میں ہے اس رپورٹ میں سامنے آنے والے نام بھی سیٹھ حضرات کے ہیں

پھر میڈیا مالکان بھی سب کے سب سیٹھ ہیں وقت نیوز بند ہو گیا رمیزہ نظامی ملک سے باہر جا بیٹھی بقایا جات کے لئے ورکرز آج بھی اپنا سا منہ لئے بیٹھے ہیں

سینکڑوں کہانیاں ہیں ان درجنوں چینلز کی جہاں نہ صرف ورکرز کا معاشی استحصال کیا جاتا ہے بلکہ ذہنی مریضوں کی تعداد میں اضافہ بھی کیا جاتا ہے حالیہ وبا کے پھیلتے میڈیا ورکرز کی ڈیوٹیاں دیکھ لیجئیے آپ نیوز کے ورکرز 12 گھنٹے ڈیوٹیاں بھی کر رہے تھے جبکہ پچھلے 4 ماہ کے کچھ واجبات بھی مالکان نے ادا نہیں کئے تھے

لیکن سوال یہ ہے کہ ان سیٹھوں کو ہاتھ کون ڈالے گا؟؟؟ جس کا جواب سیدھا سا ہے کہ کوئی نہیں کیونکہ اس ملک میں مایا اور طاقت کا کھیل زوروں پہ ہے اور یہ سیٹھ اس کھیل کے منجھے ہوئے کھلاڑی جنہیں نہ تو ٹیکس چوری پہ کچھ کہا جاتا ہے نہ انکے سکینڈلز نکلنے پر کوئی کارروائی ہوتی ہے بلکہ بعض طاقتور ادارے انکو اپنے پروں میں محفوظ کر لیتے ہیں

ایک دوست سے آپ نیوز کے بند ہونے کی وجوہات جاننا چاہی تو اس نے مجھے ای میل کا متن بھیج دیا
ایک نظر پڑھئیے

چئیرمین ملک ریاض کی طرف سے تمام کارکنوں کو اطلاع کی جاتی ہے کہ چند ناگزیر قانونی اور تکنیکی وجوہات کی بنیاد پر آپ نیوز (اردوچینل) کو چلانا ممکن نہیں رہا۔ اس لیے فوری طور پر آج 11 اپریل سے آپ نیوز کی نشریات بند کی جارہی ہیں

انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ نیوز سے وابستہ تمام کارکنوں کے واجبات ادا کیے جائیں گے۔ جس کے تحت مارچ کی تمام تنخواہیں 14 سے 15 اپریل کو ادا کر دی جائیں گی

اپریل سے 11 مئی کے نوٹس پیریڈ کی تنخواہ بھی 21 اور 22 اپریل کوادا کر دی جائے گی

اس کے علاوہ چئیرمین ملک ریاض نے کارکنوں کی مشکلات کے پیش نظر 11 مئی کے بعد اگلے تین ماہ کی نصف تنخواہ ہر ماہ کی 5 تاریخ تک ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔جو باقاعدگی سے کارکنوں کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوتی رہے گی

چئیرمین اس دوران اپنے ملکیتی لائسنس پر نیا چینل شروع کریں گے ۔ جس میں آپ نیوز سے وابستہ کارکنوں کو ترجیحی بنیادوں پر ملازمت کا موقع فراہم کیا جائے گا۔

چئیرمین کی جانب سے تمام کارکنوں کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا گیا ہے

اس حوالہ سے ورکرز کو ای میلز کی گئی ہیں تنخواہوں یا الاونسز کی ادائیگی کے حوالہ سے باضابطہ نوٹیفیکیشن تاحال نظر نہیں آیا

اظہار افسوس اور ڈھارس بندھانے کے لئے فون کیا تو میرے دوست نے شب و روز مشکل سے کٹنے اور دیگر ساتھیوں کے گھروں میں فاقوں کی الم ناک روداد سناتے ہوئے کہا کہ بھائی
وہ سیٹھ لوگ ہیں انہیں کچھ نہیں ہو گا

اور فون بند کر دیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے