تبدیلی آگئی ہے !

مکے میں پہلے پہل آباد ہونے والے بنوجرہمیوں کو ’’قبضے‘‘ کی بھرپور جنگ کے بعد ’’بنو خزاعہ‘‘ والوں نے کھدیڑ دیا اور انھیں کعبتہ اللہ کی خدمت کے شرف سے محروم کردیا۔بنی خزاعہ نے بنو جرہم کے ساتھ جنگ دو بنیادوں پر کی تھی۔ پہلی یہ کہ زم زم کے سبب اللہ نے اس بے آب و گیاہ زمین کو ایسی برکتوں سے مالا مال کردیا تھا کہ تجارتی قافلے جوق در جوق آنے لگے تھے، مال و دولت کی فراوانی الگ تھی شرف و سعادت کی خلعتیں الگ۔

لہذا ’’دور سے آنے والوں‘‘(خزاعہ کا مطلب دور سے آنے والے) نے جب یہ دیکھا کہ ’’بعض مقامی‘‘ افراد کو ’’رشتے داری اور اپنے پن‘‘ کے نام پر ورغلایا جاسکتا ہے تو انھوں نے حکمت کے ساتھ آہستہ آہستہ ’’جگہ ‘‘ بنانے کے لیے پہلے پہل تو جرہم والوں کی مدد سے مکے میں قدم جمائے اور ایک مخصوص مقام کو اپنی سکونت کا مرکز بنا کر وہیں رہنے لگے، بنو جرہم نے ان کے رہن سہن پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ جہاں تک ممکن ہوا ان کی مدد کی لیکن جب دوسری وجہ یا بنیاد سامنے آئی توکشیدگی نے جنم لے لیا اور وہ وجہ تھی ’’تبدیلی‘‘۔

بنو خزاعہ والے چاہتے تھے کہ مکے میں ’’تبدیلی‘‘ آجائے اور ان کے نصب کردہ بتوں کو زیادہ پوجا جائے تاکہ حاجیوںاور مسافروں سے زیادہ سے زیادہ ’’ٹیکس‘‘ وصول کیا جائے۔شاید ان کی یہ ’’سازش‘‘ غلط بھی نہ تھی کیونکہ مکہ سرزمین ہی ایسی تھی جہاں اللہ کی ’’عنایتیں‘‘ دیکھ کر کسی کا بھی اپنی ’’رال‘‘ کوٹپکاناامر مانع نہیں تھا۔ شروع شروع میں صرف کشیدگی رہی، اکا دکا لڑائیاں اور پنجہ آزمائیوں کے سوا کچھ اور نہیں ہوا اور مقامی لوگوں نے اسے ’’برتری‘‘ کے مظاہروں سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔

ویسے بھی خزاعی لڑائیوں کے دوران دوسروں کی ماں بہن کو اس قدر فحش مغلظات بکتے تھے کہ جرہمی انھیں دیکھتے ہی رہ جاتے تھے ، گالیاں تو گویاان کی زبان کا ہی ایک حصہ تھیں اور کسی کی بھی ماں کو کچھ بھی کہہ دیناان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا(تاریخ ابن ہشام)۔مگر۔ پھر ایک دن بنو خزاعہ کا سردار ایک ایسا شخص بنا جو شادیوں کی کثرت اور عیاشانہ فطرت کے سبب اپنے قبیلے میں ممتاز سمجھا جاتا تھا، شکل و صورت پر وجاہت اور نخوت کے ملے جلے آثار اس کی پیشانی پر دیکھے جاسکتے تھے۔گفتگو کے دوران اس کی جبیں پر اس قدر بل پڑتے کہ گویا شکنوں کی نہ رکنے والی لہریں ہوں جو ایک کے بعد ایک اس طرح سے آتیں کہ عاجزی کو اپنے ساتھ بہا لے جاتیں۔اس نے سردار بنتے ہی خزاعیوں کو ’’تبدیلی ‘‘کے نام پر جمع کیا اور کہاکہ’’کیا مکہ اور اس کی سرزمین بنی جرہم اپنے نام لکھوا لائے ہیں؟

یہ ٹھیک ہے کہ یہ اسماعیل علیہ السلام کے سسرالی رشتے دار ہیں اور اپنے علاقوں سے ’’ہجرت‘‘ کر کے سیدہ حاجرہ علیہ السلام کی اجازت سے یہاں آباد ہوئے تھے لیکن اب ہم بھی یہاں پر ہیں، تو پھر اب صرف ان کے بتوں کی پوجا نہیں کی جائے گی بلکہ میں تمہارے لیے نئے بت لاؤں گا، ہم کعبے کو ’’تبدیل‘‘ کر دیں گے ، ایک نئے دور کا آغاز ہوگا کیونکہ ہم نے ایک مخصوص علاقے کو اپنا مرکز بنا کر وہاں کے امرا سے اپنا رشتہ استوار کرلیا ہے ، اب ’’اپنوں‘‘ کے لیے ہمیں تبدیلی لانا ہوگی اور اس کے لیے میں کل ہی شام کے علاقے بلقاء جارہا ہوں تاکہ وہاں سے تمہارے لیے نئے، خوب صورت، پرکشش اور منفرد بت خرید کر لاؤں اور تم ان کی پوجاکرو۔ سردار کا نام تھا عمرو بن لحی۔

بلقاء میں عمالقہ کی حکومت تھی جوعمرو بن لحی کے گہرے دوستوں میں تھا اور اسے سفر کے لیے اونٹ اور عورتیں فراہم کرتا تھا لیکن عمرو بن لحی ایک مضطربانہ طبیعت کا مالک تھا جسے پل پل سوچ اور نظریہ بدلنے میں روحانی لطف محسوس ہوتا تھا، اس نے بے انتہا شادیاں کی تھیں لیکن کوئی بھی بیوی اسے آج تلک مطمئن نہیں کر سکی تھی اور اپنے متلون مزاج کی بنا پر وہ کئی عورتوں کو ’’چھوڑ‘‘ چکا تھا۔اس بار جب وہ بلقاء آیا تو اس نے ایک بازار میں لکڑی،دھات اور پتھر کے رنگ برنگے بت دیکھے جو اسے بہت بھائے۔اس نے دیکھا کہ بلقاء کے لوگوں کی اکثریت ان بے جان بتوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے ایستادہ ہے اور انھیں اپنا پالن ہار اور حالات بدلنے والا سمجھ کر ان ہی سے مانگے جانے کو اپنا ایمان قرار دے چکی ہے۔

اس کے شاطر دماغ نے یکایک اسے یہ پیغام دیا کہ اگر عمالقہ کی حکومت میں بتوں کا یہ مقام ہے تو مکے کے لوگوں نے تو ایسے ’’جدید بت‘‘ دیکھے ہی نہیں ،اگر میں ان بتوں کو لے جاکر کعبے کے اندر نصب کردوں تویقیناً جرہم والے عاجز آجائیں گے اور پھر مکے میں ہمارے اقتدار کو کوئی چیلنج نہیں کر سکے گا۔دولت مند تو وہ ویسے بھی تھا،پیسے اس کے پاس کہاںسے آتے تھے آج تک یہ کوئی جان ہی نہیں سکا تھا چنانچہ اس نے بلقاء کے سب سے بڑے بت کدے سے ایک بد ہیت سا سرخ عقیق کے پتھر کا انسانی شکل میں تراشا ہوا ٹکڑا لیا جس کا دایاں ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا۔لوگ اسے ’’ہبل‘‘ کہتے تھے کیونکہ اس میں بہت سے عقیق جڑے ہوئے تھے اور ان کے نزدیک ’’ہبل‘‘ سے مراد سب سے اونچا اور سب سے بڑا تھا۔

عمرو بن لحی نے ’’ہبل‘‘ کو یوں گود لیا جیسے کوئی ماں اپنی اولاد کو گود میںلیتی ہے اور مکے کی جانب عازم سفر ہوا۔ مکہ پہنچتے ہی اس نے کعبے کے صحن میں سب کوجمع کیا اور محو حیرت مجمع کو مخاطب کر کے کہا ’’لوگو! تبدیلی آگئی ہے اور میں شام کے شہر بلقاء کے سب سے بڑے بت کدے سے تمہارے لیے یہ حسین و جمیل بت ’’ہبل‘‘ لایا ہوں، جس کا دایاں ہاتھ اس لیے ٹوٹا ہوا ہے تاکہ وہ ’’بنو جرہم‘‘ کو کچھ نہ دے اور بایاں ہاتھ اسی لیے سالم ہے تاکہ ہم اس سے مانگیں اور یہ ہمیں عطا کرے۔

…… لوگ دیوانہ وار چلاّنے لگے اور تبدیلی کے نعروں سے آسمان سر پہ اٹھالیا۔بنو خزاغہ والے ناچنے اور گانے میں ماہر تھے اسی لیے کئی دن تک کعبے کے صحن میں رکھے اس بت کے آگے بھنگڑے ڈالتے رہے،ناچتے رہے اور اگر جرہمیوں میں سے کسی نے آگے بڑھ کر کبھی روکنے کی کوشش کی تو اس کی ماں کو وہ ایسی گالی دیتے کہ ہر جرہمی شرم سے پیچھے ہوجاتا کیونکہ جرہمی حضرت اسماعیل کی سسرال سے تھے اور ہجرت کر کے مکے میں آباد ہوئے تھے لہذا انھیں معلوم تھا کہ مائوں بہنوں کی کیا عزت ہوتی ہے اور کسی کی ماں کو گالی دی جائے تو کس قدر تکلیف ہوتی ہے۔

کچھ دنوں تک تو وہ ہبل کی آمد کا جشن مناتے رہے لیکن اس کے بعد عمرو بن لحی نے موقع کی نزاکت اور لوہے کی گرمائش ماپتے ہوئے ایک چوٹ ماری اور ہبل کو کعبے کے اندر لے جانے کا قصد کیا تاکہ اسے سب سے اونچی جگہ نصب کردیا جائے اور اس کے لیے مقامی ’’مذہبی قیادت‘‘ یعنی ’’پرانے پروہت‘‘ کی اجازت لازمی تھی۔ان پروہتوں کی ’’جماعت‘‘ نے جرہمیوں سے نفرت کی بنیاد پر عمرو بن لحی کی بات مان لی اور بڑے پروہت نے کعبے میں اونچے مقام پر کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ آج سے ہمارا خزاعیوں سے اتحاد ہے اور اب ہم ’’ہبل‘‘ کعبے کے اندر لے جارہے ہیں کیونکہ ’’تبدیلی آگئی ہے ۔‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے