قومی حکومت کی بازگشت

سلیم صافی میری طرح دُنیا سے کٹے اور زندگی کی تلخیوں سے شکست کھاکر گوشہ نشین ہوئے صحافی نہیں ہیں۔ ایک متحرک رپورٹر کی طرح اقتدار کے کھیل سے متعلق اہم شخصیات سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔لوگوں سے گفتگو کے بعد وہ جو نتائج اخذ کرتے ہیں ان سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ان کی نیت پر لیکن متعصبانہ شک کا اظہار کم از کم میرے لئے ناممکن ہے۔

اپنے تازہ ترین کالم میں صافی بھائی نے وطن عزیز کو درپیش مسائل کے کماحقہ مقابلے کے لئے قومی حکومت کی تجویز پیش کی ہے۔یوں گماں ہوتا ہے کہ یہ ان کی ذاتی رائے نہیں۔شاید چند ایسے حلقے بھی جنہیں’’مقتدر‘‘ کہا جاتا ہے اپنے تئیں قومی حکومت کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔میری عاجزانہ رائے میں اگرچہ قومی حکومت کا قیام عمران خان صاحب اور ان کے جذباتی حامیوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا۔وہ اس سوچ کو ’’جمہوری نظام‘‘ اور ’’مینڈیٹ‘‘ کے خلاف گھنائونی سازش شمار کریں گے۔آٹے اور چینی کے ’’بحران‘‘ کی بابت ایف آئی اے کی مرتب کردہ رپورٹ کے منظر عام پر آجانے کے بعد ہمیں اب تواتر سے یہ بتایا جارہا ہے کہ ’’کپتان ڈٹ گیا ہے‘‘۔وزیر اعظم نے طے کرلیا ہے کہ ان کی حکومت برقرار رہے یا قومی اسمبلی میں اکثریت کھودینے کے باعث فارغ ہوجائے تب بھی ’’مافیا‘‘ کو کسی صورت بخشا نہیں جائے گا۔چینی سے متعلق مافیا کی نشاند ہی کے بعد اب ان لوگوں کی فہرست بھی منظر عام پر آنا ہے جنہوں نے بلاجواز ’’میگاپراجیکٹ‘‘ سوچے۔ ان کے لئے بھاری بھر کم بیرونی قرضے لئے۔ان قرضوں میں سے اپنے جثے سے کہیں زیادہ ’’کک بیکس‘‘ کے ذریعے حصہ وصول کیا۔قرضوں سے اینٹھی ان رقوم کے ذریعے پاکستان اور بیرون ملک قیمتی جائیدادیں خریدیں۔

اپنے کاروبار کو فروغ دیا۔غیر ملکی قرضوں کے حوالے سے تیار ہوئی رپورٹ کو منظرِ عام پر لانے کے بعد توجہ اس ’’مافیا‘‘ کی جانب مبذول ہو جائے گی جنہوں نے بجلی پیدا کرنے کے دھندے سے اربوں روپے سمیٹ لئے ہیں۔مختلف النوع دھندوں کے اجارہ دار مافیا کے خلاف نظر بظاہر عمران حکومت نے کئی محاذوں پر ایک طویل جنگ لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔جنگ کی تیاری میں جٹے افراد کو ’’قومی حکومت‘‘ والی تجویز پر غور کی فرصت میسر نہیں ہوتی۔اتوار کے دن وفاقی حکومت کے دو بلند آہنگ وزرائ- فیصل واوڈا اور علی زیدی- نے سندھ حکومت کے خلاف دھواں دھار بیانات دئیے ہیں۔ان کے بیانات کو سوشل میڈیا پر سندھ میں گورنر راج کی حمایت میں چلائے ایک ٹرینڈ کے ذریعے مزید توانائی فراہم کی جارہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ذہنوں کو سندھ میں گورنر راج کے لئے تیار کرتے ہوئے اس صوبے کے ’’مینڈ یٹ‘‘ کو رعونت سے بھلایا جارہا ہے۔سوشل میڈیا پر چھائی سپاہ ٹرول یہ حقیقت فراموش کرچکی ہیں کہ سندھ میں ’’مینڈیٹ‘‘ کی تذلیل کے بعد تحریک انصاف کے ’’مینڈیٹ‘‘ کی حرمت برقرار کھنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ اس ’’مینڈیٹ‘‘ کی حرمت پر اصرار بلکہ بے تحاشہ لوگوں کو 2018کے انتخابات کے حوالے سے باقی صدیقی کے بتائے ’’داغِ دل‘‘ یاد کرنے کو مجبور کردے گا۔اندھی نفرت وعقید ت میں اس کی وجہ سے مزید شدت پیدا ہوگی۔

اپنی صحافتی زندگی کے 20سے زیادہ برس میں نے ملکی سیاست کے بار ے میں متحرک رپورٹنگ کی نذر کئے ہیں۔بالآخر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہم ہوئے یا تم ہوئے سب ’’اس زلف‘‘ کے اسیر ہوئے۔ دریافت یہ بھی ہوا ہے کہ جو چاہتے ہو سو ’’آپ‘‘ کرو۔ہم کو عبث بدنام کیا۔عمر کے آخری حصے میں داخل ہونے کے بعد چند بنیادی معاملات کی بابت مگر قطعی لاتعلقی بھی اختیار نہیں کی جاسکتی۔ہماری نسل پر جو گزری سو گزری مگر ہمارے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا۔اس سوال کے بارے میں فکر مندی لازمی ہے۔میری ناقص رائے میں اتوار کے دن کی اہم ترین ’’خبر‘‘ ورلڈ بینک کی تیار کردہ رپورٹ تھی جو اس کے ماہرین نے جنوبی ایشیاء کی معیشت کے بارے میں کرونا وائرس کے ممکنہ اثرات کو ذہن میں رکھتے ہوئے تیار کی ہے۔اس رپورٹ نے ٹھوس بنیادوں پر اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں 68برس کے طویل وقفے کے بعد ہماری معیشت میں فقط کساد بازاری ہی نہیں بلکہ کامل جمود کی صورت نمودار ہوسکتی ہے۔

1951-52میں جب پاکستانی معیشت زبوں حالی کا شکار ہوئی تو اس کی وجوہات بآسانی سمجھی جاسکتی ہیں۔پاکستان 1947میں قائم ہوا تھا۔اس کے قیام کے دوران ہولناک ہندو-مسلم فسادات ہوئے۔لاکھوںافراد نقل مکانی پرمجبور ہوئے۔ کئی دہائیوں سے جاری کاروبار اُجڑ گئے۔قیامِ پاکستان کے محض ایک برس بعد قائد اعظم رحلت فرماگئے۔ لیاقت علی خان نے قیادت کے خلاء کو پُر کرنے کی کوشش کی۔ایسی پالیسیاں اپنائیں جنہوں نے معاشی سرگرمی بحال کرنے کو ترجیح دی۔وہ مگر سیاسی استحکام فراہم نہ کر پائے۔ان کے زمانے میں ’’پنڈی سازش کیس‘‘ کے نام پر ایک ’’فوجی بغاوت‘‘ کی کہانی بھی چلی۔ بعدازاں انہیں ایک واضح سازش کے تحت راولپنڈی کے لیاقت باغ میں گولی مار کرشہید کردیا گیا۔ہم آج تک ان کے قتل کے حقیقی ذمہ داروں کا تعین نہیں کر پائے ہیں۔قائد اعظم اور لیاقت علی خان سے محروم ہوجانے کے بعد پاکستانیوں کی اکثریت میں لاوارث ہوجانے کی فکر پیدا ہوئی۔اسی باعث 1951-52کامالیاتی سال پاکستان کا بدترین سال تصور کیا جاسکتا ہے۔خوش گوار حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ پاکستانیوں نے اپنی فطرت میں موجود Resilienceکو زندہ رکھا۔اس کی بدولت سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی ہماری معیشت رواں رہی۔اس کے اُتارچڑھائو نے وسیع پیمانے پر عوام کے دلوں میں اُمید کی لو جگائے رکھی۔

مجھ بدنصیب کو یہ توقع تھی کہ اتوار کی دوپہرورلڈ بینک کی رپورٹ منظرِ عام پر آجانے کے بعد ہماری 24/7سیکرنیوں پر اس کی جزئیات پر تفصیلی بحث ہوگی۔ سوشل میڈیا میں اس کے اہم حصے نمایاں کرکے پیش کئے جائیں گے۔فیصل واوڈا صاحب کی دھواں دھار تقریر نے مگر ساری توجہ اسلام آباد بمقابلہ سندھ حکومت کی جانب موڑدی۔

دریں اثناء وزیر اعظم نے ایک ویڈیو بیان جاری کردیا۔اس بیان کے ذریعے انہوں نے دُنیا کے امیر ترین ممالک سے غریب ممالک پر کرونا کی بدولت مزید شدت سے نازل ہوئے عذاب کی دہائی مچائی۔ان کے خطاب کا متن ٹھوس حقائق پر مبنی تھا۔سوشل میڈیا پر لیکن بحث یہ شروع ہوگئی کہ انہوں نے ٹریک سوٹ پہن کر عالمی رہ نمائوں سے خطاب کیوں کیا۔میری عاجزانہ رائے میں یہ اعتراض فروعی تھا۔ بنیادی سوال بلکہ یہ اٹھتا ہے کہ بغیر کسی پیشگی اطلاع اور سفارت کارانہ تیاری کے اس خطاب کو اتوار کے روز کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ اتوار کے روز ایسٹر بھی تھا۔وباء کے موسم میں اس دن کو ٹرمپ جیسے عالمی رہ نمائوں نے شدید اداسی میں بھگتا ہوگا۔ ویسے بھی جن ممالک کی قیادت سے ہمارے وزیر اعظم مخاطب تھے ان کی اکثریت ان دنوں کرونا کے غضب کی زد میں آئی ہوئی ہے۔اٹلی کے بعد اب امریکہ اور برطانیہ میں لاشوں کے انبار جمع ہورہے ہیں۔ طویل المدتی معاملات پر فی الوقت عالمی رہ نمائوں کو توجہ دینے کی سہولت وفرصت میسر نہیں ہے۔بہتریہی تھا کہ وزیر اعظم کی عالمی رہ نمائوں سے اپیل والے خطاب کو کسی اور دن کے لئے مؤخر کردیا جاتاہے۔

عالمی رہ نمائوں سے رجوع کرنے سے قبل اشد ضروری ہے کہ ہمارے تمام ادارے یکسو ہوکر یہ طے کرلیں کہ کرونا کی زد میں آنے کے بعد ہماری وقتی اور طویل المدتی پالیسیاں کیا ہیں۔ہمارے ہاں میڈیا کے ذریعے یہ بھی طے ہوا نظر نہیں آرہا کہ کرونا کی وباء ممکنہ Peakکی طرف بڑھ رہی ہے یا نہیں۔اگر اس کی شرح Flattenہوچکی ہے تو شہروں کو لاک ڈائون میں رکھنا ضروری ہے یا نہیں۔لاک ڈائون میں اگر نرمی لانا ہے تو اس کا طریقہ کار کیا ہوگا۔یہ طریقہ کار وفاقی اور صوبائی حکومت کے مابین کامل اتفاق رائے کے بغیر طے کرنا ممکن ہی نہیں۔ہمیں بتایا گیا تھا کہ کرونا سے متعلق حتمی حکمت عملی طے کرنے کے لئے ایک قومی ادارہ قائم ہوا ہے۔اس کی سربراہی ایک اہم ریاستی ادارے سے مستعار لئے اعلیٰ ترین افسر کے سپرد ہوئی۔کرونا کے حوالے سے لہذا حتمی پالیسیوں کا اعلان محض اس ادارے کی جانب سے ہونا چاہیے تھا۔اس ادارے کے ہوتے ہوئے بھی یہ تاثر کیوں پھیلایا جارہا ہے کہ جیسے وفاقی اور سندھ حکومت لاک ڈائون کے حوالے سے Same Pageپر نہیں ہیں۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے دیہاڑی سے محروم ہوئے لاکھوں گھرانوں کو احساس پروگرام کے تحت نقدرقوم فراہم کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔اس پروگرام کے مستحقین کی فہرست کیسے تیار ہورہی ہے اس کی جزئیات بتانا ضروری ہے۔اہم ترین سوال یہ بھی ہے کہ مستحقین کے لئے طے ہوئی رقوم Targetedلوگوں تک پہنچانے میں کن دشواریوں کا سامنا ہے۔ بعدازاں اس امر پر غور بھی ضروری ہے کہ یکمشت 12ہزار روپے نقدی کی صورت میں حاصل کرنے کے بعد لاکھوں دیہاڑی دار مزید کتنے دن اپنے گھروں تک محدود رہنے کو تیار ہوں گے۔ان تمامتر سوالات کی خالصتاََ صحافیانہ انداز میں Monitoringنہیں ہورہی۔ سیاست دانوں کے دعوے اور جوابی دعوے ہیں۔محض پوائنٹ سکورنگ سے ٹی وی سکرینوں پر رونق لگائی جارہی ہے۔حقیقی سوالات کے ضمن میں ایسی بے رحم لاتعلقی ہم کب تک برقرار رکھ پائیں گے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے