سندھ حکومت نے صوبے بھر میں جاری حالیہ کرونا وائرس کی وبا کو منہ دینے کے لئے جو فنڈ قائم کیا ہے، اس میں عوامی سطع یا پرائیویٹ سطع سے صرف چار کروڑ اور چند ہزار روپے موصول ہوئے ہیں۔ جبکہ قائم شدہ رلیف فنڈ میں زیادہ تر رقم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے حاصل ہوئی ہے، جس کو ایک طرح سے جبری وصولی بھی کہا جا سکتا ہے۔ وبا کے پھیلتے ہی سندھ حکومت ، خاص طور پر سندھ کے وزیراعلی مراد شاہ کے اٹھائے گئے اقدامات خاص طور پر لاک ڈاؤن کے قدم ، جس کی مخالفت کرتے کرتے اب وفاقی حکومت نے بھی بندش کے نام سے اسے اپنا لیا ہے، کو بہت حد تک سراہا گیا تھا، لیکن اکیس دن کے اس لاک ڈاؤن کے بعد بھی سندھ حکومت صوبے کے غریب افراد اور دیہاڑی دار مزدور کو راشن پنہچانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ صوبے بھر کے عوام کو کرپٹ رووینیو افسران اور پارٹی عہدیدران کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا ہے۔ جو عوام کو سہولیات پنہچانے کے بجائے حسب روایت اپنے گھر بھرنے میں مصروف ہیں۔
لاک ڈاؤن تو کیا گیا لیکن اس کے بعد سندھ حکومت کوئی بھی اقدام اٹھانے کے حوالے سے ہچکچاہٹ اور تذبذب کا شکار نظر آرہی ہے، جبکہ اس تناظر میں یہ بھی نظر آرہا ہے کہ حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت خصوصا آصف زرداری اور ان کی کیبینٹ میں شامل وزیر صحت بہن ڈاکٹر عذرا پیچوہو اور کابینہ سے باہر اور ان کی دوسری بہن، جن کو سندھ کی طاقتور ترین ایم پی اےاور ڈیفیکٹو وزیراعلی بھی سمجھا جاتا ہے، کو اپنے وزیراعلی پر مکمل اعتبار اور اعتماد نہیں ہے، اس لئے بغیر کسی خاص وجہ کے امتیاز شیخ کو رلیف کے کاموں کا انچارج بنا دیا گیا ہے۔
امداد کس طرح دینی ہے، طریقہ کار کیا ہونا چاہیئے، اس پر سندھ حکومت تذبذب تاحال واضع طور پر نظر آرہا ہے، اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہو کہ سندھ میں حکومت کے ایک سے زیادہ طاقت کے مراکز ہیں، جن کی آپسی رسا کشی یا کسی بات پر متفق نہ ہونے کی وجہ سے فیصلہ سازی میں دیر ہورہی ہے.
اب تک کے اس تمام معاملے میں پورے ملک خصوصا سندھ میں جو خاص بات نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ سیاستدان طبقہ چاہے، اس کا تعلق سندھ کی حکمران پیپلزپارٹی سے ہو یا حزب اختلاف سے ان سب میں سے غالب اکثریت نے خود کو بھلائی اور بحالی کے کام سے اپنے آپ کو دور رکھا ہے، خود وزیراعظم پاکستان اور سندھ کے وزیراعلی نے صاحب ثروت افراد اور صاحب حیثیت افراد سے اپیل کی ہے کہ وہ اس نازک موقعے پر آگے بڑھیں اور عوام کا ساتھ دیں، لیکن شاید سیاستان، حکمران طبقہ چاہے اس کا تعلق ملک کے کسی بھی علاقے سے ہے یا سندھ سے وہ اپنے آپ کو یا تو صاحب ثروت یا صاحب حیثیت نہیں ، سمجھتے یا ان کے منشور میں صرف لینا ہی ہے دینا وہ سیکھے ہی نہیں۔
اس وقت کچھ دو سال قبل کی سرویز کے مطابق سندھ کے دیہی علاقوں میں مجموعی طور پرستر فیصد لوگ بہت ہی غربت کی زندگی گذار رہے ہیں ، جبکہ پچاس فیصد لوگ تو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، اس تمام معاملے کی کئی وجوہات ہیں ، جس میں ناخواندگی، تعلیم سے دوری، صرف سرکاری ملازمت پر انحصار اور سندھ پنجاب کی نسبت کو تاحال زرعی معاشرے تک محدود رکھنا بھی ، لیکن ان تمام وجوہات میں سب سے اہم حکومتی سطع کی نااہلی اورعوام سے عدم توجہی اور عدم دلچسپی کا رویہ ہے۔
سندھ کی سطح تک اگر دیکھا جائے تو یہاں پر چند ایک سیاستدانوں کو چھوڑ کر سارے کے سارے سیاستدان ، پارٹی فرق کے علاوہ کم از کم کروڑپتی اور ارب پتی ہیں، لیکن ملک کے دیگر حصوں کی طرح سندھ کا حکمران طبقہ یا سیاستدان یا اشرافیہ صرف اور صرف لینا جانتے ہیں کسی کو دینا ان کی کتاب میں شامل ہی نہیں ہوتا۔
اپ سندھ کے کراچی سے لیکر کارونجھر تک یا کھاروچھان (ٹھٹھہ) سے لیکر اخری شہر ماتھیلو تک دیکھیں گے، تو ہر قصبے، گاؤں، شہراور دیہات اس سیاستدان نامی اشرافیہ ہر کاروبار پر قابض نظرائے گی اور اس کے ساتھ ہرجگہ موجود ان کی املاک، کوٹھیاں، بنگلے، گھومتی ہوئی گاڑیاں، کارخانے، ہزاروں ایکڑ پر پھیلے کھیت ان کے پاس موجود دولت کی ریل پیل کی شھادت دیتی دکھائی دیتی ہے، وہ تو خیر دولت کے حصول کی اس اندھی دوڑ جائزناجائز کی تفریق کے سوا، اب ان سیاستدانوں کے ساتھ بیوروکریٹ اور پولیس افسران بھی شامل ہوگئے ہیں ، لیکن ان سب میں کمی صرف دردمند دل کی ہے، جو اسی خطے کے کاروباری آدمیوں میں ان کی فلاحی کاموں کی وجہ سے تو نظر آتا ہے، لیکن سیاستدانوں کے پاس نہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قدرتی آفت یا مصیبت کے اس دور میں اگر کوئی کاروباری شضصیت، بلڈر، بینکر، مڈل کلاس لوگ اگر اپنے محروم بھائیوں کی مدد کے لئے اگے ہیں، تو وہ ارب پتی سیاستدان، وہ زمیندار جن کے رقبے ہزاروں ایکڑ اراضی پر ہیں، جن کی شگرملز سندھ کے کونے کونے تک ہیں، جن کے سندھ کے ہر کاروبار میں حصہ ہے، جن کی پیری مریدی لاکھوں افراد تک ہے، وہ کیوں نہیں اپنے لوگوں، ووٹرز اور مریدین کا اس نازک صورتحال میں ساتھ دیتے۔؟؟؟
پورے سندھ میں نظر دوڑانے سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت سندھ کے سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن جنہوں نے اپنے والد کے نام پر انعام فائونڈیشن بنائی ہے ، کے پلیٹ فارم سے حیدرآباد کے لوگوں خاص طور پر اپنے حلقے کے لوگوں کے خدمت کر رہے ہیں اور جیکب آباد کی حد تک محمد میاں سومرو اپنی جیب سے اپنے حلقے میں کم کرتے نظر آتے ہیں، جبکہ کراچی کی حد تک نیکی کمانے کا یہ کام جماعت اسلامی اور پاک سرزمین پارٹی کررہی ہے۔
باقی سندھ سطح پر حکمران جماعت پیپلزپارٹی ہویا تحریک انصاف، یا ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ن)، فنکشنل لیگ، قوم پرست جماعتیں ان سب میں شامل کارکن سے لیکر رہنماؤں اور سیاستدانوں کی پھلی، دوسری اور تیسری درجے کی صوبائی سطع سے لیکر، ضلعی، تحصیل سطع کی قیادت حکومت کی طرف دیکھتی نظر آتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شرجیل میمن کی طرح کوئی شھید بینظیر بھٹو، حاکم علی زرداری، سید عبداللہ شاہ، شھید صبغت اللہ شاہ یا کوئی اور فاؤنڈیشن نہیں بن سکتا، جو سندھ کے لوگوں کی نا سہی اپنے حلقے، چاہنے والے یا مرعدین کی اس نازک صورتحال میں مدد کر سکے۔