کرونا: عالمی ضمیر اور قانونِ قدرت

‏ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں ”

‏قرآن کریم میں اکثر مقامات پر انسانوں کے شر سے پناہ مانگنے کے لیے کہا گیا ہےاور بہت سی جگہوں پر انسانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ زمین پر فساد پھیلانے سے باز رہے لیکن انسان ان احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہے، جس کا نتیجہ جنگ و جدل کی   بھیانک صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔

‏آج کل انیسویں اور بیسویں صدی کی تاریخ بتائی جا رہی ہے کہ کیسے وبائی امراض نے دنیا کو جکڑا اور لاکھوں انسان لقمہ اجل بن گئے لیکن کوئی بھی اس امر کی طرف متوجہ نہیں ہورہا کہ Spanish flu پہلی جنگ عظیم کے دوران پھوٹا 1914 سے 1918 تک پہلی جنگ عظیم لڑی جا رہی تھی ، اسمیں تقریبآ چار کروڑ لوگ ہلاک ہوئے، انسانی تاریخ کی تباہ کن ترین جنگوں میں  سے ایک جنگ یہ تھی ، اسے روکنا تب پڑا جب spanish flu نامی وبا دنیا پہ وارد ہوئی ، فوجوں اور عوام کا مورال ڈاؤن نا ہو اسلیے شروع میں اس مرض کی سنگینی اور ہلاکتوں سے متعلق عوام کو اندھیرے میں رکھا گیا، شاید یہی بڑی وجہ تھی کہ اس وبا نے دنیا کی ایک چوتھائی آبادیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔۔۔ اس وبا کے دوران کروڑوں لوگ جان  سے گئے، ‏لیکن انسانوں کا جنگی جنون غلبے کی خواہش اور طاقت کا گھمنڈ قدرتی آفات کے دوران وقتی طور پر تھما ۔

‏دنیا نے پھر قدرتی آفت کے بعد خود بھی بربادی کی ٹھان لی تھی ، دوسری جنگ عظیم میں جو تباہ کاریاں ہوئیں وہ ایک سیاہ ترین باب ہے ، اس جنگ میں دنیا کی تمام بڑی طاقتیں  شامل تھیں، اس جنگ میں دنیا کا تین فیصد حصہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھاؤ، لیکن یہ ابھی اختتام نہیں تھا ۔۔1945 میں امریکہ کی جانب سے ہیروشیما پر ایٹم بم کے حملے نے ثابت کر دیا کہ انسانی درندگی اور وحشت قدرتی آفات سے ہزاروں گنا زیادہ ہے، جس کے اثرات کئی نسلوں تک منتقل ہوئے۔

‏قدرت پہ کسی کا اختیار  نہیں ہے ۔۔ سیلاب ، زلزلے ، وبائیں ، امراض کو کنٹرول کرنا انسانی اختیار سے باہر ہے، لیکن اپنے جنگی جنون پہ قابو پانا ، دنیا پہ اپنی دھاک جمانے کے لیے طاقت کا سہارا لینا ، جیتے جاگتے خطوں کو آگ میں جھونک دینا ان سب پہ بہت آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔

‏دنیا اس وقت کورونا کی بیماری سے لڑ رہی ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ اسی سال افغان جنگ کے اختتام کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا ہے ، ہمارا یہ خطہ پچھلے اٹھارہ سال سے خون میں رنگا ہے، افغانستان پہ حملہ ، عراق جنگ ، عرب سپرنگ کے نام پر مختلف عرب ممالک میں جاری خانہ جنگی  میں اب تک لاکھوں لوگ مارے جا چکے ہیں، انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کی تباہی کی ایسی المناک داستانیں ہیں کہ یقین نہیں ہوتا یہ اکیسویں صدی کی مہذب دنیا ہے، جہاں کتے بلیوں کے بھی حقوق متعین ہیں، لیکن آگ ، بارود اور ہتھیاروں سے بچنے کا کسی کمزور ملن یا انسان کے پاس کوئی جائے پناہ نہیں ہے، ‏ایک کورونا نے پوری دنیا کو اسکا چہرہ دکھا دیا ہے، وبا امیر غریب ، ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملک دیکھ کر نازل نہیں ہوتی، یہ تو دنیا کو باور کرواتی ہے کہ اسکی نظر میں سب ایک ہیں۔

‏کرونا نے مہذب عالمی طاقتوں کے چہرے بے نقاب کر دیے ہیں ۔۔۔ ایک قدرتی آفت پہ سیاست ، چین کا تمسخر اڑانے ، انکی معاشی ابتری پہ خوشیاں مناتے ذہنی مریض عالمی لیڈران یہ بھول گئے کہ وائرس کی سرحد نہیں ہوتی ۔۔ بیماری پاسپورٹ یا کرنسی ریٹ دیکھ کر حملہ اور نہیں ہوتی ۔۔۔ بجائے اسکے کہ چین کی مدد کی جاتی ، اور اپنے طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتیں متکبرانہ اور جاہلانہ رویے نے پوری دنیا کو اس میں جھونک دیا ہے ۔۔ ‏تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ اس زمین پر جب بھی ظالم ، بیوقوف اور خود غرض حکمران تخت نشین ہوئے دنیا جنگوں میں بھی جھونکی گئی  اور قدرت کا قہر بھی وبائی بیماریوں اور دوسری آفات کی صورت میں نازل ہوا ۔۔

‏انسانوں کے ہاتھوں اس دنیا کی تباہ کاریوں کا پلڑا پھر بھی بہت بھاری رہے گا ۔۔قدرت تو شاید یہ احساس دلاتی ہے کہ انسان کچھ حدود و قیود کا پابند ہے ۔۔ وہ دنیا کو اپنے اشاروں پر نہیں چلا سکتا ۔۔۔ ہر عروج کو زوال ہے، ‏کرہ ارض کی بھلائی انسانیت کی بھلائی میں پنہان ہے ۔۔۔ جنگیں ، سازشیں ، طاقت کا غرور صرف تباہی لاتا ہے ۔۔ جس کے نقوش انمٹ ہوتے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے