لاہور کورونا کا مرکز قرار، پنجاب بھر میں 50 سے زائد علاقے سیل

پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے صوبہ پنجاب کے 50 سے علاقوں کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے. وزیر صحت کے مطابق یہ ایسے علاقے ہیں جہاں نہ تو کوئی جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی وہاں سے آسکتا ہے۔ مقامی میڈیا سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں کورونا کے سب سے زیادہ مریض لاہور سے رپورٹ ہوئے ہیں اس لیے لاہور ایپی سینٹر (وبا کا مرکز) ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کورونا کیسز کے حوالے سے دوسرے نمبر پر راولپنڈی اور تیسرے نمبر پر گجرات ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ جی ٹی روڈ کے ارد گرد کورونا وائرس کی سب سے زیادہ موجودگی ہے اور اس کی بڑی وجہ ان علاقوں میں بیرون ملک سے آنے والے افراد ہیں۔ لاہور کو ایپی سینٹر قرار دیتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت شہر میں 11 سو سے زائد کورونا کے کنفرم مریض ہیں جو کہ صوبے کے دیگر شہروں سے زیادہ ہیں۔

[pullquote]پنجاب کے کون کون سے علاقے سیل ہیں؟[/pullquote]

پنجاب کے شہروں میں جن 50 سے زائد علاقوں کو کورونا کی وبا سے روکنے کے لیے سیل کیا گیا ہے ان میں سب سے زیادہ 18 علاقے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ہیں۔ لاہور پولیس کے ڈی آئی جی آپریشن رائے بابر سعید نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا ’کورونا کے مریضوں کی تعداد جہاں جہاں بڑھ رہی ہے ان علاقوں کو مکمل طور پر سیل کیا جا رہا ہے اور اب ان علاقوں کی تعداد 13 سے بڑھ کر 18 ہو چکی ہے۔ ان کے مطابق ان علاقوں کے باہر پولیس کا کڑا پہرا ہے اور آمدورفت مکمل طور پر بند ہے۔ یہ اقدامات محکمہ صحت اور وزارت داخلہ پنجاب کی مشاورت سے اٹھائے گئے ہیں جبکہ ان علاقوں میں محصور افراد کی خوراک اور طبی دیکھ بھال کا عمل جاری ہے۔ پولیس کے مطابق لاہور کے جن 18 علاقوں کو مکمل سیل کیا گیا ہے ان میں بحریہ ٹاؤن کے چار علاقے شامل ہیں جبکہ بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض کے فارم ہاؤس کو بھی سیل کیا جا چکا ہے۔ ان کے فارم ہاؤس کے 30 کے قریب سکیورٹی گارڈز میں بھی کورونا کی تشخیص ہوئی تھی۔

بحریہ ٹاؤن کے علاوہ جن علاقوں کو سیل کیا گیا ہے ان میں سب سے بڑا علاقہ سکندریہ کالونی کا ہے جو کہ نواب ٹاؤن میں واقع ہے، اس علاقے سے کورونا کے 44 مریض پائے گئے تھے۔ سکندریہ کالونی لاہور کے گنجان آباد علاقے گلشن راوی سے ملحقہ ہے اور یہاں پہرے پر مامور دو پولیس اہلکاروں میں بھی کورونا کی تشخیص ہو چکی ہے جبکہ گلشن راوی میں بھی ایک گلی کو سیل کر دیا گیا ہے۔لاہور میں واقع ڈی ایچ اے کے علاقے پنجاب سمال انڈسٹری ڈیفنس بی کو بھی سیل کر دیا گیا یے۔ لاہور کے بیدیاں روڈ پر واقع ایک گاؤں گوہاوا کو مکمل سیل کر دیا گیا ہے جہاں کورونا کے مریضوں کی ایک کثیر تعداد سامنے آئی تھی۔بیدیاں روڈ کے دونوں اطراف ڈی ایچ اے اور عسکری ہاؤسنگ سوسائٹی کی آبادیاں ہیں۔ جبکہ پنجاب پولیس کی ایلیٹ فورس کا ٹریننگ سینٹر بھی بیدیاں روڈ پر واقع ہے۔

لاہور ہی کے مصری شاہ میں چاہ میراں کے علاقے کو مکمل سیل کر دیا گیا ہے یہ شہر کے گنجان ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ اسی علاقے کے قریب بادامی باغ کے محلہ کرم نگر کا رابطہ دیگر علاقوں سے منقطع کر دیا گیا ہے۔ لاہور شہر کا مشہور زمانہ بازار انار کلی بھی کورونا سے محفوظ نہیں رہ سکا اور اس میں واقع محلہ سلطانی کو ہر طرح کی آمدورفت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔محکمہ داخلہ پنجاب کے ایک اہلکار کے مطابق دوسرے نمبر پر راولپنڈی شہر ہے جہاں سے اب تک 154 کورونا کے مریض سامنے آ چکے ہیں اور اسی تناظر میں راولپنڈی کے چھ علاقوں میں آمدورفت معطل کی جاچکی ہے۔ اسی طرح گجرات میں 142 شہریوں میں کورونا کی تصدیق ہوئی ہے جس کے بعد اس کے چار علاقوں کو سیل کر دیا گیا ہے۔

گجرات میں وائرس کا پھیلاؤ بیرون ملک سے آنے والے افراد بنے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو قرنطینہ نہیں کیا اور میل جول جاری رکھا۔ تیسرے نمبر پر گوجرانوالہ کے تین علاقے سیل کیے ہیں جہاں اب 60 شہریوں میں کورونا کی تصدیق ہو چکی ہے۔محکمہ داخلہ نے رحیم یار خان، فیصل آباد، وہاڑی، جہلم، ننکانہ صاحب، حافظ آباد، منڈی بہاؤالدین، سرگودھا، سیالکوٹ، قصور اور شیخوپورہ میں بھی ایسی گلیوں اور محلوں کو سیل کر دیا ہے جہاں کورونا کے کیسز سامنے آئے ہیں۔محکمہ صحت کے قواعد و ضوابط کے مطابق کسی بھی علاقے سے 10 یا اس سے زائد کورونا کے مریض سامنے آنے پر علاقے کو کسی بھی طرح کی آمدورفت کے لیے بند کر دیا جاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے