چیتا، بندر اور کورونا وائرس

شام سات بجے کا وقت تھا۔ کورونا وائرس سے بچائو کے لئے عائد بندشوں سے اُکتا کر میں نے فیصلہ کیا کہ تھوڑی دیر کے لئے واک کر لی جائے۔ گھر کی چھت پر واک سے دل بھر چکا ہے لہٰذا مارگلہ روڈ کی طرف نکل گیا۔ ایک ماہ سے اسلام آباد کے تمام پارکس بند ہیں۔

بارش کے باعث شالیمار گرائونڈ کے واکنگ ٹریک پر بھی پانی کھڑا تھا لہٰذا گرائونڈ کے سامنے مارگلہ روڈ کے فٹ پاتھ پر واک کرنے کے لئے گاڑی کھڑی کی تو اسلام آباد پولیس کی ایک جیپ آ گئی۔ پولیس کے جوان نے جیپ سے اُتر کر چہرے سے ماسک ہٹایا اور السلام علیکم کہنے کے بعد خبردار کرتے ہوئے بتانے لگا کہ جناب ایک چیتے نے ہماری جان عذاب میں ڈال دی ہے، کل رات کو بھی یہ چیتا اسی جگہ پھر رہا تھا جہاں آپ واک کر رہے ہیں۔ پھر اُس نے سڑک پار ایک گھر کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ انہوں نے موبائل فون سے چیتے کی فلم بنا کر ہمارے ایک افسر کو بھیج دی اور اب ہماری ڈیوٹی ہے کہ لوگوں کو اس چیتے سے خبردار کرتے رہیں۔

یہ سُن کر میں خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو گیا اور ناچیز نے اپنا ماسک چہرے سے ہٹا کر پولیس والے سے کہا کہ یہ تو بڑی اچھی خبر ہے کہ موسمِ گرما کے آغاز پر بھی اسلام آباد میں چیتا نظر آ گیا ہے ورنہ ہم تو یہی سمجھتے تھے کہ موسمِ سرما کی برفباری کے بعد چیتے مری اور گلیات کے جنگلوں سے نیچے اُتر کر مارگلہ کی پہاڑیوں میں آتے ہیں اور موسمِ گرما کے آغاز سے پہلے پہلے واپس چلے جاتے ہیں۔

میں نے پولیس والے سے کہا کہ اگر آپ کو چیتا نظر آ جائے تو براہِ کرم اسے گولی نہ مار دیجئے گا۔ پولیس والا مجھے پہچان چکا تھا۔ چیتے کی زندگی کے لئے میری فریاد پر وہ حیران ہوا اور اُس نے کہا کہ جناب والا اس چیتے نے مارگلہ روڈ پر کسی شریف شہری پر حملہ کر دیا تو ہم اسے گرفتار کرنے کے لئے پہاڑوں پر خوار ہوتے پھریں گے، اس لئے آپ احتیاط کریں۔ پولیس والے کی طرف سے بار بار خبردار کرنا مجھے اچھا لگ رہا تھا اور اسلام آباد میں چیتے کی موجودگی کی خبر بھی مجھے بڑی اچھی لگی کیونکہ میں اسلام آباد سوروں اور گیدڑوں کو دیکھ دیکھ کر تنگ آ چکا ہوں۔

کورونا وائرس کے باعث جزوی لاک ڈائون نے دیگر شہروں کی طرح اسلام آباد میں بھی انسانی نقل و حرکت کو محدود کیا جس کے بعد فوری طور پر سازشوں کے اس شہر میں رنگ برنگے پرندوں کی آمدورفت شروع ہو گئی ہے۔ طویل عرصے کے بعد پہاڑی بلبلوں کے علاوہ لمبی دُم والے تیتر اور سرخاب بھی نظر آنے لگے ہیں۔

صبح صبح پرندوں کی چہچہاہٹ میں بہت سی نئی آوازیں شامل ہو چکی ہیں اور یہ نئی آوازیں اُس ذہنی تنائو میں کمی کا باعث بنتی ہیں جس کا ذمہ دار ایک نیا وائرس ہے جو لاکھوں انسانوں کو نگل چکا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ وائرس چمگادڑوں اور بندروں کا گوشت کھانے والے انسانوں نے پھیلایا ہے۔

چمگادڑ پکڑنا اور پھر اس کا سوپ بنا کر پینا چین کے امیر لوگوں کی عیاشی تھی۔ اُن کی عیاشی کا خمیازہ پوری دنیا کورونا وائرس کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ آپ کو یہ سُن کر حیرت ہو گی اسلام آباد میں بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو آرڈر پر مارگلہ ہلز سے مختلف اقسام کے پرندوں کے علاوہ سؤر، بندر اور چمگادڑیں پکڑ کر فروخت کرتے ہیں اور یہ اسمگل ہو کر نجانے کہاں کہاں جاتی ہیں۔ مارگلہ ہلز میں ساڑھے تین سو سے زائد اقسام کے پرندے، پچاس سے زائد اقسام کی تتلیاں، چھ اقسام کے سانپ اور دس مختلف اقسام کی چگادڑیں پائی جاتی ہیں۔

کچھ سال پہلے تک یہاں بڑی تعداد میں ’’بارکنگ ڈیئر‘‘ یعنی بھونکنے والے ہرن پائے جاتے تھے لیکن اب ان کی آبادی بہت کم ہے۔ کورونا وائرس کے باعث شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کم ہوئی تو بندر بھی پہاڑوں سے نیچے آ گئے اور انہوں نے ایف سکس اور ایف سیون کے گھروں کی چھتوں پر لٹکے ہوئے کپڑے اُچک لئے۔

بہت سے شہریوں نے پولیس کو شکایت کی ہے کہ اُنہیں بدتمیز بندروں سے نجات دلائی جائے لیکن اس سلسلے میں مارگلہ ہلز مینجمنٹ بورڈ کے روحِ رواں ڈاکٹر انیس الرحمٰن کی رائے بالکل مختلف ہے۔ مارگلہ ہلز عرصہ دراز سے چرند و پرند کا گھر تھا لیکن ہم انسانوں نے اُن کے گھر میں گھس کر پہلے جنگل سے لکڑی چرائی، پھر ہرنوں کا شکار شروع کیا اور پھر یہاں سے رنگ برنگ پرندے پکڑ پکڑ کر بیچنا شروع کر دیے۔

دامنِ کوہ اور پیر سوہاوہ میں ریسٹورنٹ بننے کے بعد رات گئے تک ان پہاڑوں میں ٹریفک کی موجودگی نے چرند و پرند کا سکون برباد کر دیا اور ان میں سے اکثر اپنا گھر چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے۔

ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ کورونا وائرس قدرت کی وارننگ ہے۔ پہاڑوں، جنگلوں اور ان جنگلوں میں رہنے والے چرند و پرند اور حیوانوں کے حقوق کا خیال رکھیں تو قدرت بھی آپ کا خیال رکھے گی۔ ڈاکٹر انیس الرحمٰن نے بتایا کہ مارگلہ ہلز مینجمنٹ بورڈ نے جنگل میں جگہ جگہ کیمرے لگا رکھے ہیں تاکہ جانوروں کے ساتھ ساتھ انہیں نقصان پہنچانے والے انسانوں پر بھی نظر رہے۔

اُنہوں نے بتایا کہ اسلام آباد کے گرد و نواح کی پہاڑیوں میں چیتوں کے تین خاندان آباد ہو چکے ہیں اور کچھ دنوں سے بارکنگ ڈیئر بھی نظر آنے لگا ہے۔ ہمیں ان سے خوفزدہ ہونے کے بجائے ان کے ساتھ زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھنا ہو گا۔ ہم اُن کے گھر میں مداخلت نہ کریں تو وہ ہمارے گھر میں نہیں آئیں گے۔ ہم احتیاط کریں تو وہ بھی محتاط ہو جائیں گے۔

چیتے، ہرن، بندر، تیتر اور سرخاب کا گھر جنگل ہے۔ جنگل پہاڑ پر واقع ہے اور جب سے لاک ڈائون میں نرمی کرتے ہوئے تعمیراتی سرگرمیوں کو بحال کیا گیا ہے تو مارگلہ ہلز میں پہاڑوں کو توڑ توڑ کر بجری بنانے والوں نے بھی اپنا ناجائز دھندہ دوبارہ شروع کر دیا ہے۔ جب انسان چمگادڑ خوری، جنگل خوری اور پہاڑ خوری کریں گے تو پھر ایک نہیں کئی بیماریاں پھیلیں گی۔

کورونا وائرس نے بہت سے انسان مار ڈالے لیکن یہ مانیے کہ اس وائرس نے فضائی آلودگی کم کر دی ہے اور یہ وائرس جنگلی حیات کے لئے محسن بن کر سامنے آیا ہے۔ اشرف المخلوقات تو انسان تھا۔

جنگلی حیات کا محسن تو حضرتِ انسان کو ہونا چاہئے تھا لیکن افسوس کہ جب انسان نے شیطان کا روپ دھار لیا تو کورونا وائرس انسانوں کے لئے عذاب اور چیتے بندر کے لئے رحمت بن گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے