جمہوری تماشے کی میدان میں کھود کر انہی سیڑھیوں کے طفیل ایوانِ اقتدار تک پہنچنا ایک مفید اور آسان راستہ ہے لیکن بہر حال اِسے جمہوریت کی خدمت نہیں کہی جا سکتی جمہوریت کی خدمت کے مختلف پہلوؤں میں سے ایک اہم پہلو جو اس وقت عام نظروں سے کچھ اوجھل بھی ہے وہ ہے جمہوریت کو ریاستی نظام میں اجتماعی طور پہ قوم کی عمومی بالخصوص مذہبی اور تعلیم یافتہ طبقہ کی شعوری آواز بنانا ، تا کہ حقیقی معنوں میں جمہوریت ہماری دیس کا باالتسلسل مقدرٹھرے، اس حوالے سے علمی طور پہ جمہوریت کو ڈسکس کرنے والوں کے ہاں ایک بحث یہ بھی ہوتی ہے کہ جمہوریت، خلافت بادشاہت اور آمریت میں کون سا سسٹم اسلامی آئیڈیالوجی کے عینِ مطابق ہے اور کون سا سسٹم اس کے مکمل 180 زاویہ سے برعکس؟ اور کو ن سا نظام معمولی سی خراش تراش سے اسلام کے مطابق ڈالا جا سکتا ہے؟
ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ یہ سوال صدیوں قبل حل ہوچکا ہوتا اور آج تک یہ سوال ایک امر ِ لاینحل کی بجائے ایک متفقہ دستاویز کی شکل میں موجود ہوتا لیکن ؎ اے بسا آرزو کہ خاک شد ،ہمارے ہاں اہم ترین سوالات کو نظر انداز کر کے غیر اہم تر مباحث ہمیشہ فرنٹ پہ موجود ہوتے ہیں اندازہ لگائیں کہ اس وقت ہمارے پورے مدارسی نصاب ِ تعلیم میں ریاستی نظام کے متعلق کوئی مباحث شاملِ نصاب نہیں ہے اور معذرت کے ساتھ یہ لطیفہ پڑھنے کی لائق ہے کہ لے دے کے علامہ نسفی کی "العقائد النسفیہ ” کی مشہور تشریح جو علامہ تفتازانی کی لکھی ہوئی ہے اور شرح عقائد کے نام سے نصاب کا حصہ ہے ،
اس میں ریاستی امور کے حوالے سے کچھ مباحث جو درج ہیں کہ نظام کو ن سا ہو نا چایئیے امام کے عزل و نصب کا طریقہ کار کیا ہونا چاہئیے کن حالات میں کیوں اور کیسے موجودہ حکومت کو تبدیل کرنا چاہیے یہ سارے مباحث بنین کے نصاب میں تو شامل ہی نہیں کیونکہ یہ مباحث "عذابِ قبر ” کے بعد والے حصہ میں ہے لیکن بنات کے نصاب میں شامل ہیں اور بڑے تحقیق کے ساتھ اُنہیں یہ مباحث پڑھائےجاتے ہیں لیکن اسی نصاب کے تحت ریاستی امور میں بنات کی دخل اندازی تو کیا شمولیت بھی معیوب ہے، یہ ایک چھوٹی سی مثال تھی اس سے آگےکاآپ خوداندازہ لگائیں۔ بہر حال ایسے ماحول میں جمہوریت اور ریاستی امور سےنابلدی ظاہر ہے کہ بہت عام بھی ہوگی اور شدید مضرت رساں بھی۔
شعور وآگہی کے اس گہری خلیج کو قلیل المدتی میعاد میں پاٹنے کا ایک آسان فارمولا یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے تعلیم یافتہ طبقے کی ذہنیت کو اس حوالے اتنا متاثر اور ایکٹیو کیا جائے کہ وہ ازخود آگے آئیں اور اس اصلاحی سوچ کے علمبردار بن کر معاشرے میں اپنا کرردار ادا کریں کارل مارکس نے اپنے نظریات کو عوام کی آواز بنانے کے لئے یہی کیا تھا ورنہ تو اس کے "مینوفیسٹیو” اٹھا کے دیکھیں اس کے اصطلاحات عوام تو کیا بعض ڈگری یافتہ تعلیم یافتوں کے شعور سے بھی ماوراء ہیں۔ بہرحال پاکستان میں جمہوری سوچ کے حوالے سے اسی طرح کا بنیادی اور تعمیری کام اگر کوئی ادارہ ادا کررہا ہے تو راقم الحروف کے محدود معلومات کی حد تک وہ IRCRA’انٹرنیشنل ریسرچ کونسل فار ریلیجس افئیرز’ ہے ،
اس ادارے کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل میں تین روزہ ورکشاپ تھی جس میں ایک طرف نظریاتی کونسل کے ذمہ دار ارکان بمعہ چیئرمین وفاقی وزرائے قانون، انٹرنیشنل لاء کے ماہرین سیاسی جماعتوں کےوہ نمائندے جوعلمی طور پہ جمہوریت کو ڈیفینڈ کرسکتے ہوں موجود تھے تو دوسری طرف معاشرے کا عام تعلیم یافتہ طبقہ، مذہبی سوچ کے وہ نمائندے جو اس حوالے سے میڈیا سے متعلق ہو اور عوامی شعور کی ذہن سازی کے حوالےسے انتہائی متحرک ہو وہ طبقہ موجود تھا اور پورے تین روزہ مباحث کا مرکزی نکتہ اور بنیادی ڈھانچہ ہی یہی تھا کہ جمہوری حوالے سے عوام کے شکوک و شبہات ہیں کیا ؟
ان کے علمی اور مدلل جوابات کیا ہیں؟ اور علمی حوالے کے ساتھ ساتھ عملی اعتبار سے موجود ان کمزوریوں ور نقائص کا ازالہ اور تدارک کیسے کیا جائے ؟ یقین جانئیے کہ ان مبا حث کے مرکزی سیشنز اور سوالات جوابات کے منقح کردہ مناظر کو چھوٹے کلپس کی صورت میں پوری قوم کو سنائے جاتے تو علمی اور شعوری اعتبار سے جمہوریت سے متعلقہ% 50 شبہات قوم کے ذہنو ں سے ختم ہو جاتے۔ کیونکہ ہر طبقے کو ان کے اشکالات اور خدشات پیش کرنے کی مکمل آزادی تھی ، ہمارے ہاں اہلِ تشیع چونکہ اس معاملے میں زیاد حساس ہیں خمینی صاحب کے انقلاب کے علمی اثرات ان کے ذہنوں میں اب بھی اسی طرح تر و تازہ ہیں جیسا کہ 70اور80 کی دہائی میں تھیں، اور ان کے ہاں امامت کی ایک مخصوص اصطلاح اور اس کے فریم ورک کے متعیین حدود ہیں بالخصوص عصرِ حاضر میں ولایتِ فقیہ کے حوالے سے، اور ان کی طرف سے بھیجے گئے نمائندے بھی خاص ان مباحث میں ملکہ تامہ رکھتے تھے اس لئے ان کے اشکالات بنسبت اوروں کے زیادہ تھے لیکن ان کے اشکالات کا بھی کافی حد تک ازالہ ہو گیا،
اور تین روزہ ورکشاپ کے اندرونی مندرجات اور تمام مباحث کے جزئیات چونکہ میں ذکر نہیں کر سکتا وہ میرے دوسرے بعض مجھ سے اچھے قلمکار بھائی احاطہ تحریر میں لائے بھی ہیں لیکن تقریبا اس اعلامیے اور نقطہ نظر پہ ہلِ علم کا اتفاق ہوا کہ جمہوریت کی موجودہ نافذ عملی شکل میں موجود بعض نقائص سے قطعِ نظر اس وقت مفید نظام اسلام کے ریاستی نظام سے زیادہ ہم آہنگ اور انتقالِ اقتدار کا پر امن اور محفوظ راستہ اور طریقہ یہی جمہوریت ہے۔خلاصۃ الخلاصہ حافظ شیرازی کا یہ شعر ہے
؎بےخار گل نہ باشد وبے نیش نوش ہم تدبیر چیست وضعِ جہاں ایں چنیں فتاد
پرکن از بادہ جامِ ودمادمِ بگوش ہوش , بہ بشنوازوحکایتِ جمشیدو کی قباد