رمضان کی آمد آمد ہے، اللہ کریم تمام مسلمانوں کے لیے خصوصاً اور تمام انسانوں کے لیے عموماً اسے رحمت، برکت، عافیت اور خیر کا سامان بنائیں۔ یہ مہینہ نیکیوں کا موسم بہار کہلاتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں مساجد سارے سال کی نسبت زیادہ آباد ہوتی ہیں، ذکر وفکر، درس وتدریس اور اعتکاف کے حلقے عجیب روح پرور سماں باندھ دیتے ہیں۔
امسال رمضان کریم کی آمد پر پوری امت مسلمہ دلگرفتگی و دل شکستگی کی کیفیت سے گزر رہی ہے۔ کرونا نامی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اطبا کا کہنا ہے کہ اس بیماری سے خلاصی کی واحد اور آخری صورت تنہائی ہے اور بس۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بحیثیت انسان ایک معاشرتی جانور ہے اور دوسرے انسانوں سے میل ملاپ کے بغیر ادھورا ہے۔ دوسرے انسانوں سے میل جول انسانیت کی ناگزیر ضرورت ہے۔ فکر معاش سے لے کر اقرباء پروری حتیٰ کہ سب سے بڑی ضرورت اجتماعی عبادت بھی اسی میل جول کی رہین منت ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت ساری دنیا کرب سے گزر رہی ہے اور انسانی جان کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، ایسے عالم میں ضرورت اس امر کی ہےکہ اس وبا کو ایک بیمماری کی حیثیت سے دیکھا جائے اور بیماری کی تشخیص اور اس سے مدافعت کا کلی سامان صرف اور صرف اطبا کے پاس ہے۔ ہمیں بروقت یہ جان لینا چاہیے کہ یہ مذہبی مسئلہ نہیں، طبی مسئلہ ہے اور طبیب ہی اس پر بہترین رائے دینے کے سزاوار ہیں۔ ساری دنیا بلا تفریق محمدی مسلمان و یہودی و عیسائی مسلمان کے اسی روش پر گامزن ہے اور وبا کا مقابلہ کر رہی ہے۔
وطن عزیز کی ہمیشہ سے یہ بدقسمتی رہی ہے کہ اس ملک کا نام نہاد اور اجارہ دار مذہبی طبقہ ہر مسئلے میں اول اول شرعی پہلو کو ڈھونڈ کر جذباتی اور معذرت کے ساتھ کم علم اور حقیقی دین سے نابلد مسلمانوں کو اشتعال انگیزی اور شدت پسندی کی جانب ہی راغب کرتا ہے اور تباہ کن نتائج سامنے آنے پر بھی من گھڑت تاویلوں کا سہارا لے کر اطمینان لیتا اور دیتا ہے۔
میری ناقص رائے میں اس وبا کے دوران آنے والے ماہ مبارک میں دو ہی کام کرنے کے ہیں۔ پہلا یہ کہ اللہ سے انفرادی تعلق پیدا کرنا ، جو شاید اس طرح پہلے کبھی میسر نہیں آیا، اور اس تعلق کے وسیلے سے اس جان لیوا مرض سے نجات حاصل کرنا۔ دوسرا کام جو اس وبا سے نجات حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہے وہ ہے اطبا کے مشوروں پر مکمل عملدرآمد۔
ایک بات ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ بیماری اور وبا ایک طبی مسئلہ ہے اس لیے اس میں اطبا ہی کی رائے نہ صرف حرف آخر بلکہ آج کا شرعی حکم بھی ہے۔ دین کے حوالے سے بھی میں اپنے ناقص دینی فہم اور الٰہی تعلیمات کی روشنی میں شرح صدر سے یہ بات کہتا ہوں کہ اگر تمام طبیب متفق ہو جائیں یا کچھ مانے جانے حاذق طبیب اس امر پر متفق ہو جائیں کہ ایسے عالم میں روزہ رکھنا جان لیوا ہو سکتا ہے تو ایسی صورت میں شرعی حکم یہ ہو گا کہ روزہ نہ رکھنا فرض ہو جائے گا اور روزہ مؤخر کر دینا ہی حکم شرعی کہلائے گا۔ یہ تو فرض عبادت کا حال ہے۔ ایسے عالم میں جو ناعاقبت اندیش اور خدا کو آزمائش میں ڈالنے والے نفلی عبادات کی اجتماعی صورت پر اصرار کر رہے ہیں ان کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ یہ تدبیر صرف عبادات ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہمہ قسم انسانی اجتماع اس میں داخل ہیں۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ تاریخ اور تاریخی ریکارڈ میں جا بجا اس کے نظائر بکھرے پڑے ہیں۔ عبادات فرض و نفل تو رہیں ایک طرف، ایسا بھی وقت گزرا ہے کہ اللہ کے حدود ساقط کر دیے گئے اور کرنے والے مولوی نہیں تھے، اللہ کے نبی کے سٹوڈنٹ اور متصلب فی الدین کی شہرت رکھنے والے تھے۔
جاننا چاہیے کہ انسانی جان سے افضلیت کسی چیز کو حاصل نہیں، خدارا اس کا ادراک کریں۔ یہ قرآن کا سبق ہے اسے یاد کریں۔
[pullquote]صاحب مضمون حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ملک کی مشہور دینی درسگاہ سے درس نظامی کے فاضل ہیں۔ صحافت کے وسیع تجربے کے ساتھ ملک کے نامور تعلیمی ادارے سے وابستہ ہیں۔[/pullquote]