ہم ترقی میں امریکہ سے آگے نکل جائیں گے؟

شاہد ریاض گوندل ہمارے ان دانشوروں میں سے ہیں جو اپنا علم، اپنی معلومات اور اپنے تجزیے مجھ ایسے ان پڑھ کے ساتھ گفتگو میں ضائع کرتے رہتے ہیں، میں نے انہیں کئی دفعہ کہا برادر یہ سب باتیں تم لکھتے کیوں نہیں، بولے لکھے ہوئے سچے لفظ جھوٹے لفظوں کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتے ہیں، تو تحریر کی صورت میں ان ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا شروع کیا تو قیامت کے روز اٹھایا بھی ان کے ساتھ جائوں گا۔ میں نے کہا، برادر! میں آپ کو کم از کم بیس سچ لکھنے والوں کے نام بتا سکتا ہوں، مگر انہوں نے مجھ سے نام پوچھنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کی۔ ان دنوں کورونا ہر جگہ موضوع گفتگو ہے، گزشتہ ہفتے انہوں نے اس حوالے سے چشم کشا باتیں کیں، ذیل میں کی گئی گفتگو کا خلاصہ پیش کیے دیتا ہوں، تحریر تو نہیں، فی الحال ان کی باتوں کا خلاصہ پیش کر رہا ہوں، اس پر گزارا کریں، سو ملاحظہ فرمائیں!

کچھ لوگ اور دوست یہ بات کر رہے ہیں کہ یورپ تباہی کی طرف جائے گا اور امریکا بھی اور جو ان کا عالمی قائدانہ رول ہے، وہ بھی ختم ہو جائے گا لیکن آپ تاریخ پر نظر ڈالیں تو پہلی جنگ عظیم میں کوئی ایک کروڑ ستر لاکھ لوگ ہلاک ہوئے اور اس وقت جو اسپینش فلو تھا، 1918ء میں اس سے ڈیڑھ کروڑ سے 10کروڑ لوگوں کی ہلاکت ہوئی، پھر دوسری جنگ عظیم میں چھ سے سات کروڑ لوگ یورپ اور امریکا میں ہلاک ہوئے اور کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا لیکن اس کے باوجود ان تمام مصائب اور مصیبتوں سے گزر کر یورپ اور امریکا دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑے ہوئے اور ان کا جو عالمی قائدانہ رول تھا، وہ ختم نہیں ہوا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا منصف ہے۔ جو قومیں اپنی محنت، کردار، دیانت، تحقیق سے اور تعلیم سے ترقی کا راستہ چنتی ہیں اللہ تعالیٰ ان کیلئے وہی راستہ چنتا ہے۔

کچھ قومیں دن رات میڈیکل کی انسٹیٹیوٹ لیبارٹری میں گزاریں، اس پر اربوں ڈالر خرچ کریں، اوپن ہارٹ سرجری، گردوں کے ٹرانسپلانٹ، کینسر کی کیمو تھراپی، یہ سارے کام کریں اور ہم صرف باتیں کرنے والے ان سے پہلے ان کی منزل تک پہنچ جائیں؟ قومیں سینکڑوں سال تک اپنے تعلیمی اداروں کو قائم رکھیں اور ان کے معیار میں اضافہ کریں اور انٹرنیٹ جیسی ٹیکنالوجی، ہمارے ملک اس معاملے میں ان سے آگے نکل جائیں یا وہ ہوا بازی پر تحقیق و تعلیم کریں اور ہوا پر پہلی اڑان ہم بھر لیں تو یہ بات اللہ کے انصاف کے نظام سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ہم لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ یورپ اور مغرب، امریکا کا رول ختم ہو رہا ہے، پہلے بھی ہم ایک دفعہ خوش ہوئے تھے جب سوویت یونین ٹوٹا تھا تو ہم سمجھے کہ اس میں پاکستان کا بھی کردار ہے، بہت خوشی ہوئی لیکن ہم نے تو سوویت یونین کو ری پلیس نہیں کیا۔ بلکہ الٹا امریکا سنگل سپر پاور بن کر سامنے آیا، انڈیا کا اثر افغانستان میں بڑھا، ہمارے حصے میں دہشت گردی اور دوسرے مسائل ہی آئے۔

چنانچہ آج ہمیں اس بات پر خوش ہونے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے لاکھوں بہن بھائی جو امریکا، یورپ اور کینیڈا وغیرہ میں رہتے ہیں وہاں سے زر مبادلہ بھیجتے ہیں، تعلیم اور تحقیق اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں، آج کی دنیا انٹر کنیکٹ ہے، اگر وہاں تباہی پھیلے گی تو ہم بھی اس سے محفوظ نہیں رہیں گے۔ ویسے بھی جب تک ہم آکسفورڈ، ہاورڈ، کیمبرج کے متبادل انسٹیٹیوٹ اپنے ہاں تیار نہیں کر لیتے اور اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا نہیں کرتے، ہمیں یہ خواہش بھی نہیں کرنی چاہئے کہ امریکا اور یورپ تباہ ہو، لیکن اب دوسری طرف آتے ہیں کہ وہ تباہ کیسے ہو سکتے ہیں جب آپ کبھی مغرب میں کثرت کے ساتھ لوگوں کو ون وے توڑتے دیکھیں، اشارے توڑتے دیکھیں، وہاں پر پنشنرز کو اپنی پنشن لینے کیلئے سفارش کروانی پڑ جائے، وہاں پر کسی مریض کو آئی سی یو میں بیڈ لینے کیلئے کسی کا حوالہ اور کسی کی سفارش کی ضرورت پڑ جائے، جب وہاں پر گورنمنٹ کے اسکول اور ہاسپٹل پرائیویٹ اسپتالوں اور اسکولوں سے کہیں کمتر درجے کے ہو گئے، جب وہاں کی اکثریت ٹیکس دینے سے گریز کرے، ٹیکس چوری کرے اور جو ٹیکس اکٹھا ہو وہ سیاستدان اپنی ایمپائر کھڑی کرنے کیلئے استعمال کرنے لگیں تو یورپ تباہ ہوگا، اگر وہ ان رستوں پر نہیں جائے گا تو کورونا کی وجہ سے تباہ نہیں ہوگا۔

دوسری بات جو میں کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ مغرب کا جو قائدانہ عالمی کردار ہے وہ میں ختم ہوتے دیکھ رہا ہوں، اس کی وجہ کورونا وائرس نہیں بلکہ یہ ہے کہ چین اگر اسی رفتار سے سائنس، معیشت، معاشرت اور تحقیق میں آگے بڑھتا رہا تو ہم اپنی زندگی میں ہی یہ دیکھیں گے کہ جو مغرب کا مشترکہ عالمی قائدانہ رول ہے وہ چین ٹیک اوور کرلے گا۔ اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو خوش فہمیوں سے نکالے اور اس کی جگہ تعلیم و تربیت اور سائنس و تحقیق کی طرف توجہ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے