علمائے دین اور حکمرانوں کے دربار

ایک طاقتور حکمران اپنے زمانے کے ایک نامور عالمِ دین کو اپنی حکومت کا چیف جسٹس بنانا چاہتا تھا لیکن اُس عالمِ دین نے انکار کر دیا جس پر اُنہیں جیل بھیج دیا گیا۔

اُس عالمِ دین کا نام تھا امام ابو حنیفہؒ اور اُنہیں جیل بھجوانے والے حکمران کا نام ابو جعفر عبداللہ بن محمد المنصور، جو دوسرا عباسی خلیفہ تھا۔ امام ابو حنیفہؒ حکمرانِ وقت کے دربار سے دور رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ جب المنصور نے اُنہیں چیف جسٹس کا عہدہ پیش کیا تو امام ابو حنیفہؒ نے کہا کہ میں اپنے آپ کو اس عہدے کے قابل نہیں سمجھتا۔ یہ سن کر خلیفہ طیش میں آگیا کیونکہ اس زمانے میں چیف جسٹس کی حیثیت خلیفہ کے نائب کی تھی۔

خلیفہ نے گستاخ لہجے میں کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ یہ سن کر امام ابو حنیفہؒ نے خلیفہ سے کہا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو پھر واقعی میں اِس عہدے کے قابل نہیں۔ اِس جواب کے بعد امام ابو حنیفہؒ کو جیل بھیج دیا گیا اور اُن کے ایک شاگرد ابو یوسف کو چیف جسٹس بنا دیا گیا۔

جیل میں امام ابو حنیفہؒ پر تشدد کیا جاتا تھا تاکہ وہ خلیفہ کا حکم مان لیں لیکن اُنہوں نے وقت کے حکمران کی خواہش کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا اور پھر جیل سے ہی اُن کا جنازہ اٹھا۔ بغداد میں اُنکے جنازے میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ المنصور نے امام جعفر صادقؒ کو بھی زبردستی اپنی اطاعت پر مجبور کیا اور انہیں بھی گرفتار کر لیا۔

بعض روایات کے مطابق المنصور کے حکم پر امام جعفر صادقؒ کو زہر دیدیا گیا تھا۔ اسی دور میں ایک اور عالمِ دین امام مالک بن انسؒ نے بھی خلیفہ المنصور کے جبر کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ جب گورنر مدینہ نے حکم دیا کہ خلیفہ کی اطاعت کا حلف لینا سب پر واجب ہے تو امام مالکؒ نے فتویٰ دیا کہ زبردستی خلیفہ کی اطاعت پر مجبور کرنا جائز نہیں۔ یہ فتویٰ امام مالکؒ کا جرم بن گیا لہٰذا اُنہیں گرفتار کرکے مدینہ میں سر عام کوڑے مارے گئے۔

جس دور میں امام ابو حنیفہؒ، امام جعفر صادقؒ اور امام مالکؒ ایک جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہہ رہے تھے تو اسی دور میں ایسے علماء بھی تھے جو اپنی خوشامد کے باعث خلیفہ کے منظورِ نظر بن گئے۔ حکمرانِ وقت کی خوشامد کرنے والے درباری علماء کو آج کوئی نہیں جانتا۔ آج اگر کسی کا نام زندہ ہے تو جابر حکمران کے سامنے انکار کی پاداش میں جیل جانے اور کوڑے کھانے والے علماء کا نام زندہ ہے۔ ان علمائے حق کی روایت کو آگے بڑھانے والوں میں امام احمد بن حنبلؒ بھی شامل تھے۔

امام احمد بن حنبلؒ نے ایک اور عباسی خلیفہ المامون کے دور میں کچھ درباری علماء کی طرف سے پیش کئے گئے نظریات کو مسترد کیا جن میں خلقِ قرآن کا نظریہ بھی شامل تھا۔ کچھ علماء نے اپنی اہمیت جتانے کیلئے دعویٰ کیا کہ اللہ کا علم مخلوق ہے یہ بعد میں پیدا ہوا ہے لیکن امام احمد بن حنبلؒ کا موقف تھا کہ قرآن اللہ کا علم ہے اور جو یہ گمان کرے کہ یہ بعد میں پیدا ہوا اس نے کفر کیا۔ المامون نے اس نظریے سے انکار کو اپنی توہین سمجھا اور امام احمد بن حنبلؒ کو جیل میں ڈال دیا۔

کچھ دنوں کے بعد المامون نے امام احمد بن حنبلؒ کو دوبارہ اپنے دربار میں طلب کیا۔ جب امام احمد بن حنبلؒ اور انکے ایک ساتھی محمد بن نوحؒ کو بیڑیاں پہنا کر خلیفہ کے پاس لے جایا جا رہا تھا تو خلیفہ کے ایک ملازم نے روتے ہوئے امامؒ کو بتایا کہ اگر آج آپ نے خلق قرآن کے نظریہ کو تسلیم نہ کیا تو خلیفہ اپنے ہاتھ سے آپ دونوں کا سر قلم کرے گا۔

یہ سن کر امام احمد بن حنبلؒ نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار! اگر قرآن تیرا غیر مخلوق اور ازلی کلام ہے تو ہم دونوں کو مامون کے ساتھ اکٹھا ہونے سے بچا لے کہ نہ ہم دونوں اسے دیکھ سکیں نہ وہ ہم دونوں کو دیکھ سکے۔ اسی رات کو المامون کی موت واقع ہو گئی۔ اس کے مرنے کے بعد اسکا بھائی معتصم باللہ خلیفہ بنا۔ اس دوران محمد بن نوح کا انتقال ہو گیا۔ معتصم نے امام احمد بن حنبلؒ کو اپنے دربار میں طلب کیا اور درباری علماء سے ان کا مناظرہ کرایا۔

یہ درباری علماء امام احمد بن حنبلؒ کے دلائل کے سامنے ڈھیر ہوگئے تو انہوں نے خلیفہ سے کہا کہ یہ گستاخ صرف ہمیں نہیں، آپ کو بھی کافر قرار دے رہا ہے۔ خلیفہ نے امام احمد بن حنبلؒ کے کپڑے اتارنے کا حکم دیا اور اپنے سامنے انہیں کوڑے لگوائے۔ کوڑوں کی برسات میں امام احمد بن حنبلؒ کی استقامت نے معتصم باللہ کو پریشان کر دیا۔ وہ کوڑے کھاتے کھاتے بے ہوش ہوگئے۔

خطرہ تھا کہ وہ زندگی کی بازی نہ ہار دیں لہٰذا انہیں بے ہوشی کی حالت میں رہا کر دیا گیا۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا، امام احمد بن حنبلؒ روزے سے تھے۔ انہیں نیم مردہ حالت میں اسحاق بن ابراہیم کے گھر لایا گیا۔ ہوش میں آنے پر انہیں کہا گیا آپ کے جسم سے خون بہہ رہا ہے، روزہ افطار کر لیں لیکن امام احمد بن حنبلؒ نے نمازِ ظہر ادا کی اور کہا حضرت عمر فاروقؓ نے بھی زخمی حالت میں نماز ادا کی تھی۔

شام کو روزہ افطار کیا اور بعد ازاں ان جلادوں کو معاف کر دیا جنہوں نے کوڑے مارے لیکن ان گمراہ علماء کو معاف نہیں کیا جنہوں نے اسلام کے نام پر گمراہی پھیلائی۔ ان کے جنازے میں لاکھوں افراد شریک ہوئے اور اس جنازے کو دیکھ کر ہزاروں نصرانی مسلمان ہو گئے۔ یہ جنازہ 12ربیع الاول کو ہوا۔

امام شافعیؒ سے لے کر امام موسیٰ کاظمؒ اور عبدالرحیم محدث دہلویؒ سے مجدد الف ثانیؒ تک بہت سے علمائے حق اور مجتہدین نے اپنے اپنے وقت کے حکمرانوں کے جبر کو مسترد کیا اور تکلیفیں اٹھائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کی کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ میں امام احمد بن حنبلؒ کا ذکر ملتا ہے لیکن ان پر فتوے لگانے والے درباری علماء کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔

ایک دفعہ خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالکؒ کو ملاقات کا پیغام بھیجا اور کہا کہ آپ نے جو کتاب لکھی ہے وہ آپ سے سننا چاہتا ہوں۔ امام مالکؒ نے جواب بھجوایا ’’علم کی زیارت خود کی جاتی ہے وہ کسی کی زیارت نہیں کرتا‘‘۔ شاہ ولی اللہؒ نے اپنی کتاب ’’انفاس العارفین‘‘ میں لکھا ہے کہ مغل بادشاہ عالمگیر نے عبدالرحیم محدث دہلویؒ سے ملاقات کی خواہش کی۔

انہوں نے بادشاہ کو خط لکھا اور کہا ’’اہلِ اللہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ وہ فقیر بہتر ہے جو کسی امیر کے آستانے پر حاضری نہ دے‘‘۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہی علماء قابلِ تقلید ہیں جو امراء کے درباروں میں حاضریاں نہیں دیتے بلکہ امراء خود چل کر ان کے پاس جاتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے