پاکستانی صحافت اور’فیک نیوز‘ کامسئلہ

’فیک نیوز‘ یا جعلی خبروں کا مسئلہ اس وقت کم وبیش ساری دنیا کو درپیش ہے۔ پاکستا ن میں بھی ’فیک نیوز‘ کا دھندہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور اس کے منفی اثرات یا نتائج میں سامنے آتے رہتے ہیں۔ ’فیک نیوز‘ سے مراد بے بنیاد یا جعلی انفارمیشن ہے جسے خبرکے انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔’فیک نیوز‘ کے تحت وہ پروپیگنڈہ مواد بھی آتا ہے جسے مخصوص سیاسی، سماجی یا مذہبی گروہ کسی خاص آڈئینس کو متاثر کرنے کے لیے تیار کر کے نشر کرتے ہیں، ایسے مواد میں شامل انفارمیشن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے اگر اس کی حقیقی ہیئت بدل دی جائے اور اسے کوئی خاص رخ دیاجائے تو اسے ہم ایک درست یا مکمل طور پر متوازن خبر نہیں کہہ سکتے۔ سیاسی لیڈر، سماجی رہنماؤں اورشوبز انڈسٹری سے وابستہ لوگوں (ستاروں)کو’فیک نیوز‘ کا کثرت سے سامنا رہتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں کئی طرح کے گروہ اور لوگ ’فیک نیوز‘ کے دھندے سے وابستہ ہیں۔

اگر ہم سیاسی خبروں کی بات کریں تو اب’فیک نیوز‘ یا’جعلی خبریں‘ ان سائبر لڑائیوں کا مؤثر ہتھیار بن چکی ہیں۔ پاکستان کی نمایاں سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے سوشل میڈیا ونگز بنا رکھے ہیں جو سوشل میڈیا پر اپنی اپنی پارٹی اور لیڈر شپ کے حق میں اور مخالفین کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں۔ اس سائبر وار کے دوران کئی بار ایسے اسکرین شاٹس یا خبر نما مواد بھی پھیلا دیا جاتا ہے جس سے ریگولر میڈیا کے لوگ بھی کئی بار دھوکہ کھا جاتے ہیں اور نتیجے میں ایسی خبر معتبر سمجھے جانے والے ٹی وی چینلز اور اخبارا ت پر بھی نشر ہو جاتی ہے۔اسی طرح پاکستان میں زیادہ لوگوں کی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیاویب سائٹس تک رسائی نے صارفین کو انفارمیشن کے معاملے میں غیر محتاط بنا دیا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں جعلی سوشل میڈیااکاؤنٹس بنا دیے گئے جنہیں کسی بھی وقت کسی خاص شخص یا گروہ کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے ایکٹو کر دیا جاتا ہے۔

اس کی ایک مثال پاکستان کے نمایاں صحافیوں کے خلاف وقفوں وقفوں سے چلنے والی نفرت انگیز سوشل میڈیا مہمیں ہیں۔اس طرح کی کیمپین میں عموماً جعلی شناخت کی آئی ڈیز استعمال ہوتی ہیں اور صحافیوں کی تصاویر کو ان پر مالی کرپشن کے الزامات کے ساتھ فیس بک یا ٹویٹرپرپھیلایا جاتاہے۔ بہت سے صحافیوں کو غداری اور ملک دشمنی کے الزامات کا سامنا بھی رہتا ہے، اسی طرح فرضی اعداد وشمار خبری انداز میں لکھ کر اسے لوگوں کے لیے قابل اعتبار بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔کئی بار انفارمیشن کو اخبار کی خبر کے لے آؤٹ جیسا بنا کر سوشل میڈیا پر چلا دیا جاتا ہے ج سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ خبر کسی اخبار نے شائع کی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عام آڈئینس اس پروپیگنڈے کی زد میں آکر ایسی جعلی انفارمیشن کو درست سمجھنے لگتی ہے۔

’فیک نیوز‘ یا جعلی خبروں کے معاملے میں تازہ ترین مثال دو ہفتے قبل کا واقعہ ہے جب لاہور کے لوکل تھیٹر سے وابستہ فنکاروں کے ناموں سے بنے ہوئے ٹویٹر اکاؤنٹس سے پاکستان کے وزیراعظم اور حکومت کے خلاف مواد نشر ہوا۔مشہور مزاحیہ فنکار نسیم وکی، ناصر چنیوٹی اور امانت چن کے نام سے بنائے گئے ٹویٹرز اکاؤنٹس سے جب حکومت مخالف مواد نشر ہوا تو ہزاروں لوگوں نے اسے سچ سمجھ کر آگے پھیلایا۔حکومت مخالف سیاسی جماعتوں نے بھی اسے حکومت کے خلاف پروپیگنڈے کا بہترین موقع سمجھ کر استعمال کیا لیکن بعد میں ناصر چنیوٹی نے ایک وضاحتی ویڈیو جاری کی کہ وہ تو حکومت سے صرف تھیٹرز کھولنے کامطالبہ کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ’ہمارے نام سے بنے ہوئے جعلی اکاؤنٹس سے عمران خان اور حکومت کے خلاف مواد چلایا گیا‘ ۔اس وضاحت کے باوجود ’فیک نیوز‘سے جو نقصان ہونا تھا، وہ ہوچکا۔اب اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ وضاحتی ویڈیو کتنے لوگوں تک پہنچ سکی ہو گی۔

فیک نیوز کے ضمن میں چند دن قبل ایک پاکستانی نیوز چینل 24نیوزکی جانب سے نشر کی گئی اس خبر کا ذکر بھی مناسب ہو گا جو وزیراعظم عمران خان کے دورہئ سندھ سے متعلق تھی۔ اس خبر میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وزیراعظم کے لیے سکھر میں درجنوں ڈشوں پر مشتمل پرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بعد میں جب یہ خبر غلط ثابت ہوئی تو نیوز چینل کو باقاعدہ طور پر معافی مانگنا پڑی۔اسی طرح پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کی خبریں تو معمول بن چکی، اس بارے میں نشر کی گئیں اب کی، سب خبریں ’فیک نیوز‘ کی تعریف میں آتی ہیں۔

اسی طرح اگر ہم انٹرنیشنل میڈیا کی بات کریں تو وہاں توآئے دن کوئی نہ کوئی ’فیک نیوز‘ تہلکہ مچا ئے رکھتی ہے۔ جب سے دنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہے تو ایسی بہت سی خبریں سامنے آئی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی کورونا وائرس سے موت کی خبر پوری دنیا کے میڈیا پر نشر ہوئی، پاکستانی ٹی وی چینل ’ڈان‘ نے بھی یہ خبر فوراً ترجمہ کر کے نشر کر دی۔ شمالی کوریا کے پراسرار طرززندگی کے حامل صدر کم جونگ کے بارے میں جس کثرت سے جعلی خبریں چلتی ہیں، شاید ہی کسی دوسرے حکمران کے معاملے میں ایسا ہوتا ہو۔ کورونا وبا کے دوران جب بہت دنوں تک کم جونگ منظر عام پر نہ آئے تو کسی نے ان کی ہلاکت کی خبر چلا دی تھی۔ کچھ معتبر میڈیا آؤٹ لیٹس ایسی خبروں کو نشر کرنے میں احتیاط کرتے ہیں لیکن انفارمیشن کے متبادل ذرائع (سوشل میڈیا وغیرہ)بجلی کی سی تیزی سے ’فیک نیوز‘ کو لاکھوں لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں۔

پاکستان میں ’فیک نیوز‘ کے رجحان میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بہت سے ایسے لوگوں نے انفارمیشن پھیلانے کی ذمہ داری اٹھا لی ہے جو اس شعبے سے متعلق تربیت سے یکسر محروم ہیں۔ ان گنت اردو اور انگریزی زبان کی نیوز ویب سائٹس، یوٹیوب چینلز اور فیس بک پیجز پر خبریں شا ئع اور نشر کر رہی ہیں۔ بہت ساری ویڈیوز کو کچھ اس انداز میں ایڈیٹ کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والے کو وہ کسی نیوز چینل کی رپورٹ کی طرح محسوس ہوں۔ عام لوگ نیوز چینل کے انداز میں بنی ہوئی ایسی ویڈیوز کو درست سمجھ کر فوراً آگے پھیلانا شروع کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں کئی طرح کے منفی نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔ ’فیک نیوز‘ کسی بھی شخص یا ادارے کی ساکھ کو داغ دار کر سکتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں اگر کسی کی مذہبی سوچ سے متعلق ’فیک نیوز‘ چلا دی جائے تو وہ اس کی موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ حکومتی ایجنسیاں بھی کسی نہ کسی سطح پر ’فیک نیوز‘ کی ترویج کرتی رہتی ہیں۔ بعض اوقات وہ ملکی سلامتی یا قومی مفاد کے حق میں جعلی خبریں چلا کر مخصوص ماحول بنانا چاہتی ہیں۔حالاں کہ حکومتوں کو تو ’فیک نیو ز‘ کو فلٹر کرنے کا کوئی نظام بنانا چاہیے۔

پاکستان میں اس وقت ایک ایسے مؤثر مانیٹرنگ سسٹم کی ضرورت ہے جو نیوز چینلز، فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر نشر کئی خبروں کی ساکھ کو جانچ سکے اور ’فیک نیوز‘ کے سامنے بند باندھ سکے۔ مین اسٹریم میڈیا چینلز اور اخبارات کو بھی چاہیے کہ وہ بریکنگ نیوز کی ضروری دوڑ میں لگ کر سوشل میڈیا کی انفارمیشن پر فوراً اعتماد کرنے کی روش ترک کریں اور خبروں کو جانچنے کا عمل زیادہ کارگر اور شفاف بنائیں۔یوٹیوب سمیت انفارمیشن شیئرنگ ویب سائٹس کو بند کر دینا مسئلے کا حل نہیں بلکہ بہتر ہو گا کہ ان ویب سائٹس کے فروغ سے سامنے آنے والے مسائل کا نئے اور تخلیقی طریقوں سے سدباب کیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے