[pullquote]ضلع نگر کا تعارف [/pullquote]
دنیا کی 27 ویں بلند پہاڑی چوٹی راکا پوشی کی خوبصورت سرزمین وادی نگر صوبہ گلگت بلتستان کا ایک ضلع ہے۔ نگر سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنی ” قدیم ” ہے ۔ یہاں مکتب تشیع سے وابستہ لوگ آباد ہیں . ضلع نگر کا کل رقبہ 5000 کلو میٹر ہے۔آج کل نگر 3 سب ڈویژینژ پر مشتمل ہے۔ اس کی کل آبادی تقریباً 115000 ہزار لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہاں کے باشندوں کو بروشو اور ان کی بولی کو بروشسکی کہا جاتا ہے۔ پہاڑوں میں گھری ہوئی وادی نگر قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ راکاپوشی کے پہاڑی سلسلے پر پڑی برف پر جب سورج کی کرنیں ٹکراتی ہیں تو پورا علاقہ جگمگا اٹھتا ہے ۔نگر میں ایک ارضیاتی عجوبہ بھی ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس مقام پر 55 ملین سال قبل2اہم ایشیائی اور انڈین ارضیاتی پلیٹوں کے باہم ٹکرانے کے باعث یہ عظیم پہاڑی سلسلے وجود میں آئے.
[pullquote]نگر میں تعلیم کا مسئلہ [/pullquote]
نگر گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع کی طرح معیاری تعلیم سے محروم ہے . مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
تاہم حکومتی اداروں کی جانب سے نگر میں تعلیم کے میدان میں واضح غفلت موجود ہے. نگر میں طلبہ اور طالبات کو کالج تک پہنچنے کے لیے پچیس پچیس کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے آنا پڑتا ہے . کئی اسکول بھی دور دراز علاقوں میں قائم ہیں اور ان میں بنیادی سہولتیں موجود نہیں . یہی وجہ ہے کہ نگر کے صاحبان استطاعت لوگ اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے لئے گلگت شہر اور اس سے ملحقہ شہر دینیور کا رخ کرتے ہیں . اگر حکومت ضلع نگر میں معقول اعلی تعلیمی ادارے قائم کرے تو مقامی لوگوں کی بہت سی مشکلات کا ازالہ ہوسکے گا.
[pullquote]نگر کی سیاست میں مذہب کا کردار[/pullquote]
نگر کی آبادی تقریبا ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔ ضلع نگر کا صدر مقام ’’ہریسپو‘‘ واقع ہے۔جن کو مزید دو حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے –۔ یہاں گزشتہ الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مجلس وحدت المسلمین نے یہاں سے ایک ایک سیٹ حاصل کی ۔ دونوں انتخابات میں عمومی رجحان یہی نظر آتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور کسی شیعہ مذہبی جماعت کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے ۔جب کہ 2009 کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ ق نے ایک سیٹ حاصل کی ۔ نگر میں مکتب تشیع کی اکثریت ہے اور یہاں مجلس وحدت المسلمین اور اسلامی تحریک کا سیاست میں بڑا اثر و رسوخ ہے .
[pullquote]نگر میں انفراسٹکچر کے مسائل[/pullquote]
نگر آبادی کے لحاظ سے ایک چھوٹا ضلع ہے ۔ لیکن اس کے باوجود علاقہ بہت سی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہے ۔ سڑکیں خراب ہیں ۔ ان سڑکوں کے لئے کئی دفعہ فنڈز منظور ہوئے۔ لیکن منصوبوں پر کام کا آغاز نہ ہو سکا۔60 کروڑ کی لاگت سے30 کلو میٹر سڑک کی تعمیر کا منصوبہ جو 2014 میں شروع ہوا تھا وہ ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا ہے ۔ اسی طرح ہسپر روڈ کا منصوبہ بھی زیر التوا ہے۔ ٹاؤن کے اندرونی روڈ اور گلیاں بھی ابتر صورتحال میں ہیں ۔ اسی طرح آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ پانی اور سیوریج کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے .
[pullquote]نگر میں سیاحت کے مسائل [/pullquote]
ضلع نگر قدرتی حسن سے مالا مال ہے ۔ ہوپر میں پاکستان کی سب سے بلند ترین جھیل رش واقع ہے۔ یہ جھیل سطح سمندر سے 4700 میٹر یعنی 15510 فٹ بلندی پر واقع ہے، اور دنیا کی 25 ویں بلند ترین جھیل ہے۔غلمت سے چند ہی کلومیٹر کی مسافت پر شاہ راہِ قراقرم کے دائیں جانب دیران پیک کا بسیرا ہے، راکاپوشی بیس کیمپ بھی اسی علاقے میں ہیں۔ دِیران پیک کے علاوہ سیاحتی مقامات میں تغافری، کچھیلی، ہپہ کن اور بنی داس قابلِ ذکر ہیں- اتنے زیادہ سیاحتی مقامات ہونے کے باوجود ابھی تک یہ ضلع سیاحتی اعتبار سے پیچھے ہے ۔ کیونکہ ان علاقوں کی تشہیر پر خاطر خواہ رقم خرچ نہیں کی گئی ۔ ایک اور بلند وبالا چوٹی ہے جسے دومانی کہتے اور یہ نلت وجعفر آباد کے بالائی حصے میں واقع ہے. راستہ دشوار ہونے کی وجہ سے سیاح دومانی کے حسین مناظر دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں . نلت وجعفر آباد کی آبادی سے دومانی کے دامن تک آٹھ کلومیٹر کا فاصلہ ہے. اگر دومانی کے دامن تک یہ راستہ بن جائے تو سیاح راکاپوشی کے حسن کو بھول جائیں گے . نگر میں موجود قدرتی مناظر کا ابھی بھی دریافت ہونا باقی ہے دشوار گزار راہوں اور حکومت کی عدم توجھی کی وجہ سے وادی بر کا دیتر تلتورا اوراسی طرح چھپروٹ وادی کا حسین ترین علاقہ گپہ سیاحوں کی پہنچ سے دور ہے .سیاح حضرات کو شاہراہ قراقرم سے گزرتے ہوئے نگر کے کچھ حسین مناظر کو دیکھنے کی توفیق حاصل رہتی ہے جبکہ حقیقی مناظر وادی ہوپر ,ہسپر،بر،نلت وجعفراباد اور وادی چھپروٹ میں واقع ہیں جہاں تک بڑی مشکل سے پیدل جایا جاسکتا ہے .
[pullquote]انٹرنیٹ کا مسئلہ [/pullquote]
جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی نگر انٹرنیٹ کی بنیادی سہولت سے تقریبا محروم ہے ۔ 3 جی اور 4 جی سروس تو درکنار ، موبائل فون کے سگنل آنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ کئی مقامات پر فون کی سروس موجود نہیں ہے۔ انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے طلباء و طالبات ذیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
[pullquote]نگر کے مسائل کا حل[/pullquote]
سڑکوں کی تعمیر کے منصوبوں پر جلد از جلد کام مکمل کیا جائے اور ناپختہ سڑکوں کو تعمیر کیا جائے.
نگر میں جگہ جگہ غیر مناسب انداز میں تعمیراتی کام جاری ہیں ، ٹاؤن پلاننگ کر کے ان کاموں اس انداز میں کیا جائے جس سے علاقے کی خوبصورت متاثر نہ ہو .
نگر میں طلبہ اور طالبات کے لیے مزید ایک ایک کالج قائم کیا جائے.
سیاحتی مقامات کی تشہیر سمیت رسائی کے لئے مختص رقم خرچ کی جائے تاکہ یہاں کے لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو سکے ۔
انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ پریس کلب کا منظور شدہ فنڈ فوری جاری کرے تاکہ مقامی صحافی نگر کی تعمیر و ترقی اور جمہوری عمل میں بہتر کردار ادا کر سکیں.
نگر میں سیاحتی مقامات قائم کیے جائیں ، ہوٹل انڈسٹری کو فروغ دیا جائے . اور نوجوانوں کو ہنر سکھانے کے لیے مراکز قائم کئے جائیں.
پانی کی سکیموں کو جلد از جلد مکمل کیا جائے اور پینے کے صاف پانی کے لیے واٹر فلٹریشن پلانٹ لگائے جائیں .
نوٹ : یہ مضمون آئی بی سی اردو کے زیر اہتمام فریڈرک ایبرٹ سٹفٹنگ (ایف ای ایس) کے اشتراک سے منعقدہ ورکشاپ کے دوران ہنزہ کے صحافی یوسف نگری کی معاونت سے تیار کیا گیا . ورکشاپ میں انتخابات سے پہلے "گلگت بلتستان کے ترقیاتی منشور ” کی تیاری کے بارے میں صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے درمیان مکالمہ ہوا . مکالمہ کے رپورٹ آپ اس لنک پر ملاحظہ کر سکتے ہیں .
۔[/pullquote]