پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کانفلیکٹ اینڈ اسٹریٹیجک سٹڈیز (PICSS) کے زیر اہتمام تین نومبر2020 کو ”پاکستانیت قوت محرکہ” کے عنوان سے ایک روزہ تقریب کا قصر صدارت مظفر آباد میں اہتمام کیا گیا جس کے روح رواں محترم عبداللہ خان صاحب نے عمدہ انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے آزاد کشمیر کی تمام یونیورسٹیز کے چیدہ چیدہ طلباء ، وائس چانسلرز اور اساتذہ کو مدعو کیا تھا – سوال و جواب کا سشن نہ ہونے کی وجہ سے سامعین دل کی بات نہ پوچھ سکے نہ ان کو جواب ملا-
ہونا تو یہ چاہیے کہ فکری نشست میں موضوع پر ایک یا دو مقررین ہونے چاہییں جن کے بعد سامعین کو سوال کرنے کا موقع فراہم ہونا چاہیے تاکہ تشنہ تشریح باتوں کو واضح کیا جائے – اس کے برعکس سوائے خصوصی مہمانوں کے ، ہر مقرر کو مختصر کرنے کی پرچی تھما دی جاتی ہے ، اس لئے کوئی بھی موضوع کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا-
محدود وقت پر محیط تقریب میں مقررین کی لمبی فہرست تھی جن میں نمایاں صدر آزاد کشمیر مسعود خان ، پاکستانی پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے چئیرمین شہر یار آفریدی اور سابق وزیراعظم سردار عتیق خان صاحب تھے-
میرا موضوع ”پاکستانی نیشنلزم اور آزاد کشمیر کے نو جوانوں کا فکری انتشار” بہت دلچسپ اور حسب حال تھا جس پر نوجوانوں اور سامعین کو کہنے کے لیے بہت کچھ تھا جو شاید خصوصی شخصیات کی دلچسپی کا باعث نہ ہوتا ، شہر یار آفریدی صاحب کی باتوں سے ایسا لگا بھی – میں اس تقریب میں اپنی کہی ، اور وقت کی تنگی کے باعث ان کہی باتوں کو PICSS اور نوجوانوں کے ادراک کے نظر کرتا ہوں-
”نیشنل ازم اور پیٹریاٹ ازم” کبھی کبھی ہم معنی ہوتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے کی ضد – نیشنل ازم محدود سطح پر قوم، قبیلہ ، علاقہ، زبان، ایک خاص سوچ کی بر تری سے نکل کر ایک نسلی شناخت پر مبنی سوچ کا نام بھی ہے اور ایک خاص جغرافیائی حدود کے اندر ملک اور اس میں رہنے والے لوگوں کا بھی – اگر اس نیشنل ازم کے نظریہ کے حامل لوگ حب الوطنی ( Patriotism )اور اپنے آپ اور ملک کو سب سے برتر اور باقی سب کو کم تر اور ہیچ سمجھیں تو وہ نیشنل ازم اور اور حب الوطنی کی بد ترین صورت ہے- یہ دنیا بھر کے لئے بد امنی کا باعث ہے جیسے امریکی صدر ٹرمپ کی White Supremacy, Nazi Izam , اب نریندر مودی کی کی صورت میں HINDUTVA ہے –
اس کے برعکس افغان ، ترک ، چینی، ایرانی، جرمن ، یورپئین وغیرہ ایک نسلی شناخت ہے-ان ملکوں کے نام بھی اسی نسل کے نام پہ ہیں – جو کسی دیگر کے خلاف نہیں لیکن اپنی محنت اور سب کے ساتھ چلتے ہوئے اپنی برتری بھی قائم رکھی ہے،جبکہ پاکستان یا ہندوستان مختلف النسل ، قبیلہ اور علاقائی ناموں کی شناخت کے حامل لوگوں پر مشتمل ملک ہیں – برصغیر ہند کسی ایک ملک کا نام نہیں بلکہ اس خطے میں مختلف ممالک تھے ، جو ادغام ، انضمام ، تحلیل و تشکیل سے ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش کے نام سے موسوم ہیں –
میرے نزدیک یہ آئینی ریاستیں ہیں جن کو آئین کے ذریعے ہندوستان یا پاکستان کی شناخت ملی ہے – جب تک یہ ملک آئین کی روح کے مطابق چلیں گے ان میں وطنیت اور حب الوطنی کا جذبہ پروان چڑھتا رہے گا اور ان کی شناخت کے حامل لوگ ملک سے پیار اور اس کو مضبوط تر بنا رکھیں گے –
ہندوستان نے دس ریاستوں کو خصوصی ، جس میں کشمیر بھی شامل تھا، اور بیس زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دے کر ان کو کرنسی نوٹس پر درج کر دیا ہے ، ملک کو سیکولر ڈیموکریسی پر استوار کر کے سب کو برابر کا شہری بنایا تھا، جس کا نریندر مودی کے ہندوتوا فلسفہ نے اب ایک جنونی نسل پرست ملک بنا دیا ہے – اب ہندوستان کم از کم مسلمان، عیسائی ، سکھ بلکہ کوئی بھی غیر ہندو اپنے آپ کو دوسرے درجے کا اور غیر محفوظ شہری سمجھتا ہے جس کے باعث ان کی حب الوطنی پر اونچی ذات کے ہندو شک کرتے ہیں –
ہندوستان میں شہریت کے نئے قانون کے خلاف اقلیتوں، بلخصوص مسلمانوں کی ملک گیر مہم اور کشمیری سیاست دانوں کے مطالبات نہ ماننے کے وقت اگر ان لوگوں کے ہاتھ میں پاکستان کا جھنڈا تھما دیا گیا ہوتا تو برصغیر کی قیادت پاکستان میں آجاتی ، جس سے قوم پرستی کے مضبوط ہونے کے علاوہ پاکستان کو ”صنم خانے سے پاسباں مل جاتے”
پاکستان مسلمان اکثریت کا ملک ہے ، اپنے آئین کو اسلامی مملکت کے نام سے مسلم قومیت پر استوار کیا ہے، جہاں اقلیتوں کو برابر شہری کا درجہ دیکر جمہوری اصولوں پر استوار کیا ہے – لیکن بدقسمتی سے تین آئینوں کے برعکس عمل کی وجہ سے ملک پولرائزیشن کا شکار رہا ، قومی ادارے اپنی حدود پھلانگتے رہے – ضیاء الحق اور مشرف کے دور حکومت میں ملک غیر آئینی ، غیر قانونی اور آمریت کا شکار ہونے کی وجہ سے علاقائیت، نسل پرستی ، مذہبی جنونیت کو سرکاری پشت پناہی ملی اس کے مخالف ، ریاستی جبر کا شکار رہے –
ضیاء الحق نے مجاہدین کے نام پر پاکستانی مدرسوں کے بچوں کو بھرتی کر کے افغانستان میں روس کے خلاف استعمال کیا اور مشرف نے ان ہی بچوں اور ان کی نسلوں کو دہشت گردوں کے نام پر بھون ڈالا جس میں پاکستانی فوج کی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں – ریاستی سطح پر انتقامی عمل کے خوف کی وجہ سے جس کو موقع ملا وہ ملک چھوڑ گیا اور سرمایہ بھی لے گیا – باقی ماندہ عدم تحفظ کے شکار رہے – آئینی ریاستوں، بالخصوص پاکستان کو صرف Constitutionalism قائم رکھ سکتا ہے اور صرف اسی سے صورت میں پاکستانی قومیت، نیشنل ازم یا patriotism ( حب الوطنی ) کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں –
پاکستان کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ فوج ملک کی تاریخ کی نصف عمر تک براہ راست اور بقیہ نصف بالواسطہ فوجی دور میں بنے SOP’s کے تحت چلتی ہے جس کو غیر معمولی کردار اور بالغ نظر سیاسی قیادت ہی اس عمل سے روک سکتی ہے ، موجود سیاسی قیادت ہر سطح پر جاگیرداروں، سرمایہ داروں ، کارخانہ داروں اور یورپ اور امریکہ کی چوسنی میں پلی بڑی ہے ، جس کو تحریک ، تاریخ اور پاکستان کی 95 فیصدزندگی کا کوئی ادراک نہیں – سول ادارے جن میں سر فہرست عدلیہ اور بیوروکریسی ہے ، فوج اور ان ناہنجار سیاست دانوں کے درمیان پھنسی ہے، جس کا حل ادارتی گفتگو اور میثاق سے ہی نکل سکتا ہے ، جو ہونا ملک کی بقا کی ضمانت ہے – وگرنہ سیاسی بحران، اقتصادی خستہ حالی اور سفارتی تنہائی ملک کا مقدر بن جائے گی –
”وطن” کسی زمانے میں وطن مو لود کو ہی کہا جاتا تھا اور لوگ اسی کی محبت کے اسیر ہوا کرتے تھے – اپنے گاؤں ، شہر یا گھر سے نکل کے اگر دوسرے گاؤں میں جاتے تو گھر اور گاؤں والوں کی دعائیں لے کے نکلتے تھے کہ “ پردیس “ جارہے ہیں – شیخ سعدی نے اس کا اظہار اس طرح کیا ہے؛
خار وطن از ملک سلیمان خوش تر ، خار وطن از سنبل و ریحان خوشتر
یوسف کہ بہ مصر پادشاہی می کرد ، می گفت کہ گدائے کنعاں بودن خوشتر
حب الوطنی یا نیشنلزم بھی وقت، سوچ ، مفادات یا جغرافیائی حقائق کے بدلنے کے ساتھ بدل جاتے ہیں اور اس کی حیثیت ریلیٹیو بنتی جارہی ہے – علامہ اقبال نے 1905 میں ، “ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا- ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستان ہمارا، ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستان ہمارا-“ کہہ کے اپنی حب الوطنی یا نیشنلزم کا اظہار کیا، جبکہ 1908 میں اس سے بیزار ہوکے کہا :
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن ہے اس کا وہ مذہب کا کفن ہے
1908 میں ایک قدم آگے بڑھ کے کہا “ ہر ملک ملک ما است کہ ملک خدائے ما است “ – 1930 میں یو نینسٹ پارٹی میں ہونے کے باوجود خطبہ الہ آباد میں ہندوستان کے “ جغرافیائی حدود کے اندر” ایک مسلم ریاست کا تصور دیا- سنٹرل اور نارتھ انڈیا کے مسلمانوں نے پاکستان بنانے کے لئے جدو جہد کی ، لیکن وطن کے طور ہندوستان کو ہی اپنایا – مشرقی پاکستان والوں نے پاکستان بنانے کے لئے بہ انتہا قربانیاں دینے کے باوجود علیحدگی اختیار کر کے بنگلہ دیش بنایا –
اب نئی دنیا میں ترجیحات ہی بدل گئی ہیں ، اب patriotism کی جگہ Opportunism نے لے لی ہے – جس شخص کو جہاں بہتر مواقع میسر آتے ہیں وہ اپنے وطن ہی نہیں ماں باپ ، بال بچوں عزیز و اقارب کو چھوڑ کے چلا جاتا ہے – حب الوطنی خالی پیٹ ، زندگی اور عزت کی قیمت پر نہیں پنپ سکتی ، اس کے لیے روزگار کے بہتر مواقعے ، عزت، جان ، مال کا تحفظ یقینی بنانا پڑتا ہے – ہمارے لاکھوں لوگوں نے جان، مال اور کاروبار کے تحفظ کے لیے باہر کے ملکوں میں پناہ لے لی ہے – دنیا کے سمٹ جانے کے بعد حب الوطنی ذاتی نفع نقصان میں بدل گی ہے ، جہاں بہتر ، محفوظ اور اور باوقار زندگی کے امکانات ملیں وہاں ڈیرہ ڈالا جاتا ہے اور وہ وطن بن جاتا ہے – امریکہ، بر طانیہ، کینیڈا ، آسڑیلیا جیسے خوشحال ملکوں کے لوگ opportunities avail کرنے کے لئے ترک وطن کر دیتے ہیں – اس ملک میں حکومت میں بیٹھے لوگوں کی دہری شہریت اس کی کلا سیکل مثال ہے – اب تو اقبال کا یہ شعر ہی حسب حال لگتا ہے کہ ،” ہر ملک ، ملک ما است کہ ملک خدائے ما است “ – ریاست کو شہریوں کے روز گار، حقوق ، عزت اور نام و ناموس کو یقینی بناکے پاکستانی نیشنلزم مستحکم کرنا پڑے گا –
دنیا کے ہر آئین اور قانون میں شہریوں کی ذمہ داریاں لکھی پڑھی ہیں دونوں اس کے پورا کرنے کے ذمہ دار ہیں
یہ ایسا معاہدہ ہے جو Reciprocal بنیادوں پر چلتا ہے صرف خلوص کی بنیاد پر نہیں – کسی نے کیا خوب کہا ہے:
یہ خلوص اس زمانے کی بات ہے فراز
جب مکاں کچے لوگ سچے ہوا کرتے تھے
جہاں تک آزاد کشمیر کی یوتھ میں (Ideological Disorientation ) ” فکری انتشار ” کا تعلقات ، PICSS نے اس کو موضوع بحث بنا کر بہت بڑی قومی خدمت کی ہے – میرے نکتہ نظر سے اس کی بہت سی وجوہات ہیں جو سوچ کی سطح پر موجود لیکن لفظوں کے احاطہ میں نہیں آ رہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں؛
—-آزاد کشمیر کی یوتھ میں فکری انتشار ہے ، لیکن یہ پاکستان کی نفی یا ہندوستان سے محبت کی وجہ سے نہیں اور نہ ہی “ خود مختار کشمیر” کی سوچ فکری انتشار ہے – پاکستان کے آئین کی دفعہ 257 کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق الحاق کی شرائط طے کرنے کی پابند ہے ۔ خواہشات کی کم از کم حد ” پاکستان کے اندر انضمام” اور زیادہ سے زیادہ ” پاکستان کے اندر مکمل آزادی اور خود مختاری ہے” جو ریاست کو ڈوگرہ حکومت کے وقت حاصل تھی ، اس لیے خود مختاری کی سوچ کو اس نکتہ نظر سے دیکھنا، سمجھنا اور سمجھانے کی ضرورت ہے – اس کو پاکستان دشمنی پر منتج نہیں کرنا چاہیے نہ ہی پاکستان دوست لوگوں کو دشمن سمجھنا چاہیے –
ہندوستان اور پاکستان ” آزادئ ہندوستان ایکٹ 1947 ” کے تحت وجود ہیں آئے ہیں اور اسی قانون کی روح کے مطابق ریاست جموں کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا چاہیے تھا، لیکن ریاست کے مہاراجہ نے اس کے برعکس ہندوستان کے ساتھ الحاق کر کے معاملہ گھمبیر بنا دیا جس کا حل یو این سلامتی کونسل نے ”عام رائے شماری” کے ذریعے کرانے کا فیصلہ کیا جو بوجوہ آج تک نہیں ہوسکا لیکن آزاد کشمیر کے جائز مقام کا بھی تعین نہیں کیا جا سکا-
—- پاکستان کے زیر انتظام ریاست کے حصوں کی 24 اکتوبر 1947 کی آزاد اور خود مختار حکومت کو یو این نے تسلیم کرنے کے بجائے ان کو لوکل اتھارٹی قرار دیا جس صورت میں اس میں سلامتی کونسل کا عمل دخل رہتا وہ بہترین صورت تھی ، اس کے بجائے پاکستان نے اس کو اپنے زیر انتظام متنازعہ علاقہ کے طور رکھ لیا اور کشمیریوں کو کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے کوئی رول ہی نہیں دیا بلکہ اس پر آئین کے تحت پابندی بھی عائد کردی-
—- ہندوستان نے اپنے آئین کے تحت پوری ریاست کو اپنا حصہ قرار دینے کے باوجود ریاست کا مقامی آئین بحال رکھا اور ویسے ہی چلاتا رہا گو کہ لوگ اس سے بھی مطمئن نہیں تھے ، جبکہ پاکستان کے زیر انتظام ریاست کے حصے پاکستان کے آئین کے تحت اس کے حصے نہیں،جبکہ حکومت پاکستان ہی صوبے سے زیادہ گرفت رکھ کر عملآ ان کی حکومت چلاتی ہے اور جواب دہ بھی کسی کے پاس نہیں ہے – یہ سب سے بڑا فکری انتشار ہے – اس کا شکار 75 فیصد نوجوان اور سو فیصد عوام ہورہے ہیں – سوشل میڈیا کے شعور اور ادراک کو جلا بخشنے کی وجہ سے یہ انتشار محسوس اور اس کا مختلف طریقوں سے اظہار کیا جارہا ہے ، جس کو حساس ادارے منفی سمجھ رہے ہیں – اور الحاق پاکستان کے نام پر سیاست دان ان کو مزید شہ دے کے اپنے حق میں ایکسپلائیٹ کرکے پاکستانی ایجنسیوں کی ہمدردیاں حاصل کرتے ہیں –
——- حکومت پاکستان کے بنانے یا چلانے میں آزاد کشمیر کا کوئی رول نہیں ، اس کے باوجود آزاد کشمیر حکومت پاکستان کے ہر قومی اور بین الاقوامی قانون، پالیسی اور فیصلے کی پابند ہے -ہمارے صدر گرامی قدر جناب سردار مسعود خان صاحب اور ان کی دیکھا دیکھی کچھ لوگ اکثر کہتے ہیں کہ پاکستان کی فوج میں آزاد کشمیر کے جنرلز ہیں ، سیکریٹریز اور سفیر ہیں اور یہ آزاد کشمیر کے نمائندے ہیں – یہ لوگ حکومت پاکستان کے ملازم اور اس کے بنائے ہوئے قانون کے تحت اپنی محنت کی بنا پر بھرتی ہوتے ہیں اور ریٹائر ہوجاتے ہیں – وہ ہمارے نمائندے کیسے بن گئے ؟ نمائندے تو پارلیمنٹ کے ممبر ہوتے ہیں جو عام لوگوں کے ووٹ سے بنتے اور ان کے ووٹ سے حکومت پاکستان بنتی ، ہم تو اس میں کہیں نہیں ہیں !!!
—- کشمیر کونسل آزاد کشمیر کے آئین کے تحت بنایا گیا ادارہ ہے جس پر حکومت پاکستان کا مکمل کنٹرول ہے جبکہ حکومت پاکستان کا کوئی عہدے دار آزاد کشمیر کے آئین کا حلف نہیں لیتا نہ ہی اس کا پابند – اس پر فکری انتشار بے جا تو نہیں –
—- آزاد کشمیر اور پاکستان کا، پاکستان کے آئین کے تحت کوئی تعلق نہ ہونے کی وجہ سے یہ پاکستان کا حصہ نہیں ، نہ لوکل اتھارٹی ہے ، نہ ہی کوئی آزاد اور خود مختار ملک، ان علاقوں اور لوگوں کی مملکت پاکستان اور بین الاقوامی سطح پر کوئی حیثیت اور شناخت نہیں ہے، یہ باشعور لوگوں کے لئے سب سے بڑا انتشارہے،اس وقت آزاد کشمیر نہ آزاد ہے، نہ کشمیر نہ ہی پاکستان –
یہ پاکستان کی سلامتی کے لئے بھی خطر ناک ہے – ہندوستان ریاست کے ان علاقوں کو اپنا کلیم کررہا ہے اور لائین آف کنٹرول پر دونوں ملک کشمیریوں کی جان کی قیمت پر اپنے مقبوضہ حصے کو بچانے میں مصروف ہیں جبکہ بین الاقوامی سرحد پر مکمل امن ہے –
ہندوستان پاکستان کے زیر انتظام علاقوں کو قبضہ کرنے کا دعویدار بھی ہے – اگر خدانخواسطہ ایسا ہو جاتا ہے تو سیاہ چن کی طرح وہ مقبوضہ علاقے کو اپنا جتلا کر پاکستان کو لاجواب کر دے گا کیونکہ پاکستان تو اس کو اپنا حصہ نہیں بلکہ متنازعہ کہتا ہے جبکہ ہندوستان اپنا کلیم کرتا ہے ؛
—- پاکستان کا آئینی حصہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ پاکستان کے شہری نہیں ہیں نہ ہی پاکستان کے شہریت کے قانون 1952 کے تحت یہ پاکستان کے شہری ہیں، یہ شناخت کا بہت بڑا بحران ہے- آزاد کشمیر کے لوگوں کا پاکستانی پاسپورٹ ایک رعایت ہے ، قانونی حق نہیں ، یہ شناخت کا فقدان ہے – آزاد کشمیر کے لوگوں کا تعلق مملکت پاکستان کے ساتھ پاکستانی سیاسی جماعتوں یا ذاتی تعلقات کی وجہ سے ہے آئینی اور قانونی نہیں —
اس میں کوئی شک نہیں آزاد کشمیر کے جو لوگ پاکستان میں مستقل آباد ہوگئے ہیں وہ وہاں پر قومی دھارے کا حصہ ہیں ، وہاں کی سیاست، کاروبار، ٹیکس کے نظام میں باقی لوگوں کی طرح سمجھے اور باور کہے جاتے ہیں ، لیکن آزاد کشمیر اور اس کے لوگ قومی دھارے سے الگ ہیں – بین الاقوامی تنظیموں مثلآ سارک، انٹر نیشنل وکلاء کی انجمن، ٹریڈ ایسوسی ایشنز اور دیگر اداروں میں آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے کسی حیثیت کا حامل نہیں ہے –
—- مقبوضہ کشمیر سے جو لوگ ہجرت کر کے پاکستان کے مختلف صوبوں میں آباد ہیں وہ پاکستان کے شہریت کے قانون کے تحت پاکستان کے شہری ہیں اور ان کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو پاکستان کے شہریوں کو حاصل ہیں ، اس کے باوجود ان کو آزاد کشمیر کی سروسز اور پروفیشنل کالجز میں بیس فیصد کوٹہ دیا جاتا ہے – آزاد کشمیر میں وسائل اور روزگار کے مواقع محدود اور آبادی بڑھتی جارہی ہے جس وجہ سے مقامی تعلیم یافتہ لوگوں کی فرسٹریشن بڑھتی جارہی ہے- –
فیڈرل سروسز میں آزاد کشمیر کے لیے دو فیصد کوٹہ مقرر ہے اس میں بھی مہاجرین کشمیر مقیم ہاکستان ریاستی باشندے کے نام پر حصہ لے جاتے ہیں جبکہ جن صوبوں میں یہ آباد ہیں وہاں کا حصہ بھی لیتے ہیں –
آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں 1/3 حصہ نشستیں بھی پاکستان میں آباد مقبوضہ کشمیر کے مہاجرین کے لئے مختص ہیں ، جو آزاد کشمیر کے بجٹ سے مقامی اسمبلی ممبران کے برابر حصہ بھی لیتے ہیں- یہ لوگ عوامی نمائندے نہیں ، بلکہ اس سیاسی جماعت کے منظور نظر ہوتے ہیں جو اس صوبے یا مرکز می میں حکومت میں ہوتی ہے اور ان پر انتخاب کرانے والوں پر آزاد کشمیر الیکشن کمیشن یا حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا – یہ خود اس قانون کے پابند اور اس کے سامنے جواب دہ بھی نہیں جو یہ بناتے ہیں –
اس کی بنیادی ذمہ داری آزاد کشمیر کے سیاست دانوں پر ہے جنئوں نے مسئلہ کشمیر کے نام پر پاکستان کے اندر یہ ایجنسیاں کھولی ہیں بلکہ اب سمندر پار نمائندگی کے نام پر بھی اپنی اپنی جماعتوں کی شاخیں کھول کر لوگوں کو تقسیم کردیا ہے – ان کو عہدے کی دم لگا کر لوٹ مار مچا رکھی ہے اور اسمبلی کی سیٹوں کا بھاؤ بھی بڑھا دیا ہے – آزاد کشمیر کی Good governance بحال رکھنا پاکستان کی ذمہ داری ہے اور اس فراڈ کی ذمہ داری بھی پاکستان پر ہی ہے ؛
آزاد کشمیر کے سیاست دانوں اور حکومت پاکستان کے حکمرانوں کی ایک محدود سوچ کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہوگا – جج ہائی کورٹ کی حیثیت سے 1990 کے کشمیری مہاجرین جو حکومت نے الگ ٹینٹ بستیوں میں بسائے تھے یا اپنے طور رہ رہے تھے ، کو میں نے ریاستی باشندہ سرٹیفکیٹ ، نیشنل آئی ڈی کارڈ ، پاسپورٹ ، بطور مہاجرین نوکریوں میں الگ کوٹہ کے علاوہ بطور چیف الیکشن کمشنر ووٹ کا حق دار قرار دیا – حکومت پاکستان کی ایجنسیاں اس پر سیخ پا اور آزاد کشمیر کی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری عبد المجید صاحب نے مجھے الیکشن کمیشن کے عہدے سے ہٹانے کی قرار داد پیش کی جس کو قائد ایوان سردار سکندر حیات نے ہاتھوں ہاتھ لے کر پاس کرا دیا- اس حمام میں سب ننگے ہیں ، خود غرضوں کے ایک ٹولے نے مملکت پاکستان کی قیمت پر اجارہ داری قائم کی ہے – اس کا انجام تو انتشار ہونا ہی ہے –
—- پاکستان بھر میں نافذ ہونے والی آئینی اور انتظامی نوعیت کی پالیسی اور فیصلوں کا اطلاق ہو بہو ہی نہیں ، بلکہ بڑی شد و مد سے ہاکستان کے زیر انتظام ریاست کے علاقوں پر ہوتا ہے ، جبکہ ان پالیسی اور فیصلہ ساز اداروں میں ان علاقوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہوتی ، اس یک طرفہ حکمرانی سے باشعور لوگوں کو لونئیل( colonial ) حیثیت لگتی ہے جس میں انتشار کا لاوا بدرجہ اتم موجود ہے ؛
—- سول سروسز میں باقی صوبوں کی طرح آزاد کشمیر میں بھی فیصلہ کن اہمیت کی حامل بڑی پوذیشنز فیڈرل سروسز کے آفیسرز کے پاس ہوتی ہیں جن کو مقامی طور لینٹ آفیسرز کہتے ہیں – ان میں چیف سیکریٹری، انسپکٹر جنرل پولیس، ڈویلپمنٹ سیکریٹری ، سیکریٹری مالیات ہیں – ایک ہی یو نیورسٹی اور سروسز ٹریننگ اکیڈیمی سے فارغ التحصیل اور ٹرینڈ آفیسرز ہونے کے باوجود ، اکثر مقامی آفیسرز سے کئی کئی سال جونئیر فیڈرل آفیسرز کو چیف سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس تعینات کیا جاتا ہے اور ان سے سینئر آزاد کشمیر کے آفیسرز کو ان کے ماتحت کام کرنا پڑتا ہے – یہ آزاد کشمیر پر عدم اعتماد یا مقامی بیوروکریسی کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہے – یہ سول سروسز کے ڈھانچے میں بے چینی اور فکری انتشار کا باعث بنتا ہے جو کولونئیل ازم کی بدترین مثال ہے ؛
—- اعلٰی عدلیہ میں تقرریاں پرائم منسٹر پاکستان کے بطور چئیرمین کشمیر کونسل کی منظوری کے تابع ہوتی ہیں ، جن میں غیر آئینی طور من مانیاں کی جاتی ہیں – اس وقت تک میرے خیال میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دس ججز کی تقرریوں کو ساتھی ججز نے آئین کے خلاف ہونے کی وجہ سے کالعدم قرار دیا ہے – اتنے بڑے اداروں کی بے توقیری یقینآ اضطراب اور انتشار کا باعث ہے ؛
—- ان اداروں کے چیف جسٹسز کی تقرری عمومآ عرصہ دراز تک بلا وجہ التوا میں ڈالی جاتی ہے جو صورت حال اس وقت بھی موجود ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے مستقل چیف جسٹسز کی تقرری پرائم منسٹر پاکستان نے التوا میں رکھی ہے جس وجہ سے سپریم کورٹ میں ایک اور ہائی کورٹ میں چھ ججز کی تقرری التوا کا شکار ہے – پاکستان بھر کے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری اسامی خالی ہونے سے کئی ماہ پہلے نوٹی فائی کی جاتی ہے – یہ صورت حال تو کبھی مقبوضہ کشمیر میں بھی نہیں ہوئی جہاں ہندوستانی صدر ریاستی آئین کے تحت ہی ججز اور چیف جسٹس کی تقرری کرتے تھے جو 5 اگست 2019 کے بعد بدل گئی –
—- پاکستان کے ہم پلہ ججوں کے برابر مراعات کی آئینی پوزیشن کے باوجود آزاد کشمیر کے ججوں کو وہ مراعات اور حیثیت نہیں دی جاتی جو ان کے ہم پلہ پاکستانی ججوں کو حاصل ہیں – مثال کے طور آفیشل پاسپورٹ اور دیگر سہولیات جو ہم پلہ ججوں کو پاکستان میں حاصل ہیں وہ آزاد کشمیر کو نہیں دی جاتی تھیں جس کو میں نے لاھور ہائی کورٹ میں رٹ کے ذریعہ حاصل کیا ، لیکن ریٹائر منٹ پہ نہیں دی جاتیں جبکہ ان کے ہم پلہ ججوں کو پاکستان میں حاصل ہیں –
مجھے 2007 میں بھی صدر مشرف کے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ پاکستان جانا پڑا جب مجھ سے سات سال جونئیر جج کو چیف جسٹس بنایا گیا – میرے پاس ایک متعلقہ جنرل نے برگیڈئیر کو یہ پیغام دے کے بھیجا کہ آپ کیس واپس لیں اس سے پاکستان کی بد نامی ہوتی ہے – میں نے اس سے پوچھا بد نامی آپ کے عمل سے ہوئی ہے یا سپریم کورٹ پاکستان سے داد رسی کے لیے رجوع کرنے پر ؟ اس کے بعد مجھے بچوں اور بھائیوں کے سروس میں ہونے کی وجہ سے بھگتنا پڑا-
میری اطلاع کے مطابق آزاد کشمیر کے ممبران اسمبلی ، منسٹرز اور پاکستان بیورو کریسی کے ہم پلہ لوگوں کے برابر یہ مراعات اس لئے نہیں دی جاتیں کہ آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں ، اس سے لوگ کیا تاثر لیں گے ، یہ سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں –
—- آزاد کشمیر میں نیلم اور جہلم دریاؤں پر 969 اور 1100 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے دونوں دریاؤں کارخ مقامی حکومت اور ماحو لیاتی ادارے سے معاہدہ اور شرائط پوری کئے بغیر موڑے گئے جس وجہ سے شدید ماحولیاتی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور ان کا کوئی تدارک بھی نہیں کیا جاتا، جس سے عوام اور ادارے آمنے سامنے ہیں –
یہ مثالیں تو مشتے از خر وارے ہیں – آگہی کی وجہ سے ہر ہر قدم پر امتیازی سلوک ، محرومی اور فرسٹیشن کی وجہ سے یقینآ انتشار محسوس کیا جاتا ہے – احساس محرومی نفرت کو جنم دیتا ہے جس کا اگلا مرحلہ بغاوت ہوتی ہے – اس کا ادراک اور تدارک کیا جانا لازمی ہے –
گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے کی بات بھی زیر بحث آئی- میں اس موضوع پر دس سال سے لکھتا اور بولتا چلا آرہا ہوں – گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر ، ریاست جموں کشمیر کے انتظامی یونٹس ہیں لیکن ریاست کے سارے یونٹس کے لوگوں کی اپنی اپنی ترجیحات اور آپشنز ہیں – کسی ایک یونٹ کی خواہش دوسرے پر نہ ٹھونسی جا سکتی ہے نہ اس کو کوئی قبول کرے گا – جب سے ریاست جموں کشمیر 1846 میں وجود میں آئی ہے ، سوائے جموں کے ڈیڑھ ضلع کے ریاست کے کسی بھی حصے نے اس کو قبول نہیں کیا – سب نے بیع نامہ امرتسر ، جس کے تحت ریاست وجود میں آئی تھی ، کو غلامی کی دستاویز کہہ کے مسترد کیا اور 1947 تک اس کی منسوخی اور ڈوگرہ راج سے آزادی کی تحریک میں شامل رہے –
اگر انگریز ہندوستان سے نہ نکلتا ڈوگرہ راج نے بھی ختم نہیں ہونا تھا – جب یہ ختم ہوا تو ریاست کے جو حصے اس کی تشکیل کی دستاویز کو غلامی کی دستاویز کہتے تھے، وہ اس ریاست کی بحالی کے لئے متحرک ہوگئے – ان کی سو سال کی جدو جہد غلط تھی، یا اب غلط ہیں ؟ یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے ؟
سال 1846 سے قبل صرف وادئ کشمیر ہی بین الاقوامی سطح پر جانا پہچانا ملک تھا جس کی سرحدیں حملہ آوروں کی اتھل پتھل سے گھٹتی بڑھتی رہیں اور بالآخر ڈوگرہ خاندان نے پنجاب کے سکھوں کی مدد سے گھیر گھار کے اس کو وہ صورت دی جو 1947 تک بزور شمشیر قائم رہی ،گلگت بلتستان والوں نے تو کبھی مانا ہی نہیں نہ کبھی یہ آزاد کشمیر کے کنٹرول میں رہا ، نہ اُ ن لوگوں کی پاکستانی صوبہ بننے کے علاوہ کوئی اور ترجیح ہے – ان کا موقف حق و صداقت اور زمینی حقائق پر مبنی ہے – وہ آزاد کشمیر والوں کی طرح نیمے دروں نیمے بروں نہیں ہیں – اب پاکستان نے اپنے قومی نقشے میں ساری ریاست کو پاکستان کا متنازعہ حصہ شامل کر لیا ہے- یہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ بھارتی مقبوضہ علاقہ خالی کرائے اور ایسی کاروائی کرے جیسے چین لداخ اور ارونا چل پردیش میں کررہا ہے یا آذربائیجان آرمینیا میں کر رہا ہے
ریاست کے آزاد حصوں کو آزادی اور پاکستان کے برابر کے شہری حقوق سے کیوں محروم رکھا جائے ؟ مقبوضہ کشمیر کی غلامی کی سزا ان کو کیوں دی جارہی ہے؟ جب ریاست کے لوگوں کو ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ کوئی اور آپشن ہی نہیں تو ان حصوں کو پوری ریاست کے حتمی حل تک الگ الگ یا یکجا کرکے پاکستان کے صوبوں کے برابر درجہ کیوں نہ دیا جائے ؟ اس کے لیے صوبہ بنانے کی ضرورت بھی نہیں ، صرف آئین میں ان کے لئے پارلیمنٹ میں نشستوں کا اضافہ اور اس حد تک ترمیم کرنی ہے کہ ان کا مرتبہ اور حقوق صوبے کے برابر ہوں گے – ہندوستانی آئین کے تحت 1947 سے 1967 تک کشمیر کی اسمبلی جن لوگوں کو پارلیمنٹ آف انڈیا کے لئے نامزد کرتی تھی ، ہندوستانی صدر ان کو نو ٹیفائی کرتا تھا – ریاستوں سے متعلق ہندوستان آئین کے حصہ vi میں 5 اگست 2019 تک لکھا تھا کہ “ State does not include the state of Jammu & Kashmir )
اس سیمینار میں گلگت بلتستان کے آئینی صوبہ بننا بھی زیر بحث آیا
گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی ملکی، بین الاقوامی اور تاریخی حیثیت ایک جیسی ہے ، دونوں کے بارے میں پاکستان کو کشمیر کے حتمی حل تک قومی دھارے میں لینا پڑے گا ورنہ آزاد کشمیر کی حکومت کے بے حساب اور بے احتساب مزے لینے والے سیاست دان ”کشمیر کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے، گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بننے دیں گے ، کشمیر آزاد ہوکے رہے گا” وغیرہ کے نعرے ہاکستان کے خلاف فکری انتشار کو عروج پہ پہنچا دیں گے – ”کشمیر بنے گا پاکستان” کا پر فریب نعرہ دھوکہ ہے کہ “ جب ساری ریاست آزاد ہوگی اس وقت سب پاکستان کے ساتھ ایک ساتھ الحاق کریں گے بقول غالب ”خم آئے گا، صراحی آئے گی تب جام آئے گا -“ تب تک اس کی اور اس کے لاکھوں لوگوں کی حیثیت کیا ہے؟
جب پاکستان کی اقتصادی اور سفارتی صورت حال مضبوط تھی، دنیا نے کشمیر کے حوالے سے پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا اور سلامتی کونسل نے مہاراجہ کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کو نظر انداز کرتے ہوئے رائے شماری کے ذریعہ اس کے فیصلہ کی قراردادیں پاس کیں بلکہ رائے شماری کمشنر کی بھی تقرری عمل میں لائی گئی تھی- پاکستان کی آخری سفارت کامیابی بھٹو صاحب کا شملہ معاہدہ تھا (اگر اس کو بھی کامیابی مانا جائے) اس کے بعد تو پاکستان کشمیر کے لئے ” سفارتی، سیاسی اور اخلاقی مدد” کی حد تک اکیلا ہی کھڑا ہے – ترکی ، ملائیشیا اور ایران اپنے ایمان کے زور پہ کھڑے ہیں ، عرب ملک ( اور اب پاکستان بھی) اپنے خرچے پر مندر بنا رہے ہیں-
پاکستان کی ساری سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں ہوتے ہوئے حکومت کو زچ کرنے کے لیے کشمیر کا سودا، کشمیر کی تقسیم کرنے کا الزام لگا کر کچھ نہیں کرنے دیتیں- مسلم لیگ کی حکومت کے دوران سرتاج عزیز کمیٹی نے عبوری صوبہ بنانے کی سفارش کی جس میں آزاد کشمیر کے بارے میں بھی اسی خواہش کا اظہار کی – پیپلز پارٹی نے اپنی حکومت کے دوران صوبہ بنانے کا وعدہ کیا ، اب اس کی مخالفت کرتے ہیں، عمران خان کی حکومت کہتی ہے اپوزیشن ایسا نہیں کرنے دیتی – ہم لوگوں کو سب الو بنا رہے ہیں –
گلگت بلتستان کے لوگوں کی صوبہ بننے کی ڈیمانڈ 1947 سے چلی آرہی ہے ، اب اس کو ان لوگوں کے مطالبے کو احترام اور پذیرائی کا نام دیا جارہا ہے- اب اگر کوئی سنجیدگی دکھائی جارہی ہے تو یہ اصل میں “ سی پیک” CPEC کی مجبوری ہے جسے گلگتیوں کے مطالبہ کا نام دیا جارہا ہے – انوسٹمنٹ کرنے والے چین نے گلگت بلتستان کی آئینی گارنٹی مانگتے ہیں جبکہ شنید ہے کہ “ سی پیک” کے آزاد کشمیر کے لئے منصوبے ڈراپ کیے گئے ہیں، کیونکہ اس کی ان کو ضرورت نہیں ہے – جی بی کے ساتھ لداخ ملحق ہے جس پر چین کا کلیم بڑی شد و مد سے سامنے آیا ہے ، جبکہ ریاست کا حصہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کا لیگل کلیم جامد ہو گیا ہے –
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان خنجراب سے سیالکوٹ تک کے پی اور پنجاب کے لئے حفاظتی دیوار ہے جس کی وجہ سے شاہراہ ابریشم ، جی ٹی روڈ ، منگلہ ڈیم اور کہوٹہ کے دفاع کی فرنٹ لائین ہیں – آپ دونوں کے بارے میں بیک وقت اور ایک جیسا فیصلہ کریں ، الگ الگ کر کے آپ کو بار بار محاذ آرائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور ممکن ہے ایسا کرنا ممکن ہی نہ رہے – جو ہے اس کی کوئی مثبت سمت مقرر کریں تاکہ حتمی فیصلہ کرتے وقت لوگوں کو آپ کے حق میں فیصلہ کرنے میں آسانی ہو ، وگرنہ اگلی نسل اس پوزیشن کو قطعآ قبول نہیں کرے گی –
سلامتی کونسل نے رائے شماری کے ذریعہ ریاست کے مستقبل کا حل تجویز کیا ہے جو مسئلے کا پرامن حل (pacific settlement) ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پر امن حل کے باقی ایسے ذرائع بند ہوگئے ہیں جس سے فریقین کے اطمینان اور زمینی حقائق کے مطابق حل نہ نکالا جا سکتا ہو ، جن میں ، mediation, arbitration, International court of justice کو ریفرنس، سہ فریقی مذاکرات – یہ حل صرف ریاست کے لوگوں کی ضرورت نہیں بلکہ دنیا بھر کے لئے ضروری ہے –
اب یہ حل 1947 کے حالات کے پس منظر میں نہیں بلکہ اکیسویں صدی کے حالات اور تقاضوں کے مطابق ہوگا – ریاست کشمیر ، پاکستان اور ہندوستان والے کسی خوش فہمی ہیں نہ رہیں – مجھے نہیں لگتا کہ ہندوستان اور پا کستان اپنے زیر کنٹرول علاقے کا ایک انچ بھی زبردستی یا ریاست کے لوگوں کی مرضی کے باوجود بھی ، دوسرے سے لے سکے یا حاصل کر سکے ، لیکن وادئ کشمیر پاکستان کے پاس آئے یا نہ آئے ، ہندوستان کے پاس نہیں رہے گی ، اس کا حل ان کے اطمینان کے مطابق نکالنا پڑے گا ، جو سب کو تسلیم کرنا پڑے گی ، باقی صورت حال جوں کی توں ہی رہے گی بشرطیکہ دنیا کی بڑی طاقتیں کوئی نئی بندر بانٹ کرنے کا منصوبہ نہ بنائیں جو مشرق وسطی کی جنگ اور اعلان باس فورس کے ختم ہونے کے بعد ہونے کا امکان بھی ہے- اس کے لئے ذہنی طور تیار ، اور آزاد کشمیر کی تحلیل کے خلاف چو کنا رہنے کی بھی ضرورت ہے –
اس بات کا ادراک کر کے ذہن نشین کر لیں کہ کشمیر کی مقامی لیڈر شپ کے انگوٹھے کے بغیر کسی فیصلے کو کوئی نہیں مانے گا اور نہ ہی اس کی کوئی حیثیت ہوگی- پاکستان کے ساتھ آزاد کشمیر کا بنیادی سیاسی عمرانی معاہدہ ، (اچھا ہے یا برا) ، 1949 کا کراچی کا معاہدہ ہے – جو کچھ بھی کرنا ہے ، اس کے تسلسل میں کرنا پڑے گا ، ورنہ اس فیصلے کو ویسا ہی سمجھا جائے گا جو مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کے 5 اگست 2019 کے عمل کو سمجھا جارہا ہے –