ڈانسنگ ایلیفینٹ

دنیا کے تمام براعظموں میں موجود مسلمان ممالک جن کو قدرت نے فیاضی سے وسائل سے نوازا ہوا ہے نے بھی ایک تنظیم بنائی ہوئی ہے جس کو او آئی سی کا نام دیا گیا ہے۔21 اگست 1969 کو مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کے حملے کے رد عمل کے طورپر 25 ستمبر 1969 کو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی کا قیام عمل میں آیا۔57 مسلمان ممالک کے سوا ارب کے قریب مسلمانوں کی یہ نمائندہ تنظیم آج تک ماسواے قراردادوں اور مذمتی قراردادوں کے عملی طورپر کچھ نہیں کرسکی۔اسی تنظیم کے وزراے خارجہ کا اجلاس نائیجر کے دارلخلافہ نیامی میں ہوا جس میں مسلئہ کشمیر کے حل پر زور دیتے ہوے پاکستان کے مقبوضہ کشمیر پر موقف کو دہرایا گیا۔قرار داد منظور ہوئی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اور اس میں بھی پاکستان کو برادر ممالک کے ساتھ مل کر لابنگ کرنی پڑی۔رہی بات نتائج کی تو یہ نا تو پہلے کبھی او آئی سی کا مسئلہ رہا ہے نا اب ہے۔

او آئی سی میں شامل مسلمان ممالک کی کمزوری کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ اس کے رکن 57 ممالک تنظیم بننے کے بعد گزشتہ پانچ دہائیوں میں مل کر بھی کشمیر اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کو انصاف نہیں دلا سکے۔جبکہ ایک بادشاہ کی بیٹی کی خوشی کی خاطر لائے گئے ہاتھی کاون کی قید تنہائی کی داستان ڈاکٹر ثمر خان کی زبانی سن کر امریکہ اور دیگر ممالک میں نرم دل لوگوں کی آنکھیں بھر آئیں۔ ڈاکٹر ثمر خان کی آن لائن پٹیشن پر لاکھوں لوگوں نے دستخط کیئے امریکی گلوکارہ نے فری دا وائلڈ نامی تنظیم بنائی اور اس تنظیم کے لیے کروڑوں کے فنڈز جمع ہوے۔یہ تنظیم اسلام آباد ہائی کورٹ گئی اور وہاں سے کاون کی آزادی کا پروانہ حاصل کرلیا۔آج کاون کمبوڈیا کے قدرتی ماحول میں موجود ہے۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ فری دا وائلڈ نامی تنظیم بھی او آئی سی سے زیادہ موثر ثابت ہوئی اور عملی جدوجہد کرکے اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

او آئی سی کو فری دا وائلڈ نامی تنظیم سے سبق سیکھنا چاہیے اگر کاون قید تنہائی سے نجات پاسکتا ہے تو مقبوضہ کشمیر کے لاکھوں کشمیری لاک ڈاون سے نجات کیوں نہیں پاسکتے۔ان کشمیریوں پر یہ ظلم اور جبر کا عہد کب ختم ہوگا۔معذرت کے ساتھ لگتا یہی ہے کہ کاون ہاتھی مقبوضہ کشمیر کے مظلوم کشمیریوں سے زیادہ خوش قسمت تھا۔او آئی سی قرار داد کی بجائے فری دا ہیومن نامی تنظیم بنا لیتی تو شاید کچھ بہتری ہوجاتی ۔بے فائدہ قراردادوں کی بے مقصد لفاظی سے نا تو فلسطینیوں کی اشک شوئی ہوسکی اور نا ہی مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کو حق خود ارادیت مل سکا۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ او آئی سی کے رکن ممالک مل کر ہندوستان کے سیاسی ، سماجی ، معاشی اور سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کردیں تو دنوں میں یہ مسلئہ حل ہوسکتا ہے۔ پس طے ہوگیا کہ شائد ہم خود ہی ان مسائل کو حل نہیں کرنا چاہتے ۔

او آئی سی کو موردِ الزام ٹھہرانے سے پہلے اگرہم اپنا جائزہ لیں تو شائد ہم خود اپنے مسائل حل نہیں کرنا چاہتے۔المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ پاکستان میں بنیادی ضروریات زندگی کا شمار بھی نااہل سیاسی اشرافیہ ، کرپٹ نظام حکومت، ترجیحات کا غلط تعین اور وسائل کی کمی کے سبب آسائشوں میں ہوتا ہے ۔بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ زندگی کی دیگر لوازمات اپنی جگہ ہم ایٹمی طاقت بن گئے مگر عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کرسکے۔عوام کا معیار زندگی کیا بلند ہونا تھا الٹا غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہی ہوا ہے۔صحت کی سہولیات کا عالم یہ ہے کہ قابل علاج بیماریاں یہاں پر جان لیواثابت ہوتی ہیں۔امن و امان کی صورتحال اتنی ابتر ہے کہ موٹر سائیکل اور موبائل چھیننے کی وارداتوں کے دوران معصوم شہری قتل ہوجاتے ہیں۔ملکی وسائل پر لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے۔ہر طاقتور جی بھر کے لوٹ رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے،

یہ بھی تو المیہ ہے کہ لوٹ مار میں نیچے سے اوپر تک سب شریک ہیں تو کون پوچھے اور کس سے پوچھے۔انہی حالات کو بدلنے کی خاطر 9 سال قبل 2011 میں 30 اکتوبر کو لاہورکے مینار پاکستان گراونڈ میں عوام کا ایک جم غفیر جمع ہوا۔کپتان نے ملک کو مسائل سے نکال کر نئے پاکستان کے بنانے کا عزم ظاہر کیا۔حالات سے تنگ عوام نے مسیحائی کے اس دعوی کو بھی حقیقت سمجھا اور اس طرح نئے مسیحا کے پیچھے چل پڑی۔2018 کے عام انتخابات میں کپتان برسراقتدار آگیا اور اس کے دور اقتدار کے پہلے دوسال میں عام آدمی کی حالت پہلے سے بھی ابتر ہوگئی۔نااہلی کی انتہاوں کو چھوتی ہوی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی جماعتوں کے اتحاد کا ایک بارپھر ایک بڑا جلسہ لاہور کے مینار پاکستان گراونڈ میں 13 دسمبر کو ہونے جارہا ہے۔

توقع کے مطابق یہ بہت بڑا اجتماع ہوگا۔لاکھوں لوگ شریک ہوں گے۔مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسی گراونڈ پر کپتان کے کامیاب جلسے کے بعد ممکنہ اپوزیشن کے کامیاب جلسے تک عوام کو کیا فائدہ حاصل ہوا۔کیا عوام کے حالات بہتر ہوگئے۔حالات تو اقتدار پر فائض حکمرانوں اور ان کے حواریوں کے بہتر ہوتے ہیں۔غربت ، تنگدستی کو عام آدمی تقدیر کا لکھا سمجھ کر سہتا رہتا ہے۔سسک سسک کر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زندگی گذارتا ہے۔بنیادی ضروریات زندگی کا حصول اس کے لیے من وسلویٰ سے کم حیثیت نہیں رکھتا۔دو وقت کی روٹی میسر آجائے تو سرشاری میں رقص کرنا شروع کردیتا ہے۔بالکل اسی طرح جس طرح کاون ہاتھی چڑیا گھر میں بچوں کی تالیوں میں رقص کرتا تھا اور اس کا رکھوالا کاون کی کیفیت سے بے خبر ڈانسنگ ایلیفنٹ کے نام پر پیسے اکٹھے کرتا تھا۔یہ تو ڈاکٹر ثمر خان کو علم تھا کہ یہ ہاتھی ڈانس نہیں کررہا بلکہ اپنے ڈیپریشن کی آخری سٹیج پر ہے۔کیاہمارا رکھوالا ہماری کیفیت سے بے خبر ہے۔ہمارا حاکم کب تک عوام کی ڈیپریشن میں کی گئی حرکات وسکنات کو رقص کا نام دے کر ٹیکسز کے طورپر پیسے جمع کرتا رہے گا۔کیا کبھی اس بائیس کروڑ عوام کی خاطر فری دا وائلڈ کی طرز پر فری دا ہیومن تحریک چلے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے