الوداع سال : 2020

2019 کی ٹرین پر بیٹھے ہوئے بالکل اندازہ نہ تھا کہ ہمیں 2020 کے اسٹیشن پر اترنے سے ایک ایسی چیز سے واسطہ پڑے گا کہ پھر کسی بھی طرح کا کوئی واسطہ کسی سے رہے گا ہی نہیں اور زندگی مکمل بدل جائے گی ۔

اور صرف ان چند الفاظ سے تولق رہے گا جیسے کہ،سوشل ڈسٹننگ، لاک ڈاون ، ماسک پہننا،آن لائن پڑھنا،زوم میٹنگز، ہاتھوں کو اندر باہر جاتے ہوئے سینیٹائزر کرنا، شادیوں اور جنازوں سے پر ہیز کرنا وغیرہ۔ اور ان سب صورتحال کا سبب ایک وبا تھی، جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔

 آپ کو یاد ہے کہ ایک وقت تھا، جب دنیا میں ہر کوئی پُرامید لگتا تھا۔ سنہ 2019 کے اختتام اور سنہ 2020 کے آغاز پر لوگ سمجھ رہے تھے کہ مستقبل میں ان کی زندگیاں بہتری کی طرف جا سکتی ہیں۔

لیکن سب کچھ توقعات کے برعکس رہا۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا نے پوری دنیا کو ہلا دیا اور ہر کسی کے لیے پریشانی بڑھتی رہی۔

مگر اس رب پاک کی طاقت کا سب کو خوب علم ہو گیا، ہم جو لاعلمی میں اپنے بس میں ہر چیز کو کرنا چاہتے ہیں تو اس وبا سے ہمیں اندازہ ہوا کہ ایک سانس کا آنا جانا ہمارے بس میں نہیں، بہت سی چیزوں کی اہمیت کا ہمیں ادراک ہوا ، جیسے کہ زندگی کتنی بڑی نعمت ہے، رشتوں کی قدر، رزق کی قدر، علم واقعی ایک دولت ہے۔

لوگوں نے اس دوران اپنے بہت سے پیارے کھوئے، اپنے روزگاروں سے ہاتھ دھویا، معاشی،سماجی، جسمانی اور معاشرتی ہر طرح کے مسائل کا سامنا کیا اور کر رہے ہیں ۔

مگر بہت سی نئی چیزیں ہم نے سیکھی بھی جیسے لوگوں میں تخلیقی صلاحیتیں اور کاوشیں بڑھیں، لوگ آن لائن پر منتقل ہو گئے،اور بہت ساری کمپیوٹر اور موبائل تکنیکی معاملات سے روشناس ہوئے۔

عالمی وبا سے سب ممالک کی معشیت کو بھی بہت نقصان پہنچا ۔ ہم اپنے دوستوں سے مل نہ پائے ۔ یہ سچ ہے کہ ہمیں زیادہ وقت گھروں پر گزارنا پڑا،بعض لوگوں کو اپنے روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا۔

تعلیم کا بہت زیادہ حرج ہوا، اور خاص طور پر ان لوگوں کو جن کی معاشی صورتحال کشمکش کا شکار ہو۔

اس تحریر میں ہم یہ جائزہ لیں گے کہ 2020 میں کیا کچھ بُرا ہوا، اور ماضی کے مقابلے یہ کتنا مشکل سال تھا۔

[pullquote]کرونا اور اموات کی شرح[/pullquote]

جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک دنیا بھر میں سات کروڑ 45 لاکھ افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوچکی ہے جبکہ کووڈ 19 سے 16 لاکھ اموات ہوئی ہیں۔

سنہ 1346 کے بعد بلیک ڈتھ یا بوبونک طاعون دنیا کی سب سے خطرناک وباؤں میں سے ایک تھی۔ اس سے یورپ میں دو کروڑ پانچ لاکھ افراد ہلاک ہوئے اور دنیا بھر میں اموات کی تعداد 20 کروڑ تھی۔

سنہ 1520 کے بعد سپین اور پرتگال کے لوگ امریکہ آتے ہوئے اپنے ساتھ چیچک (سمال پوکس) لائے جس سے براعظم کے 60 سے 90 فیصد آبائی باشندے ہلاک ہوئے۔

ہسپانوی فلو 1918 میں قریب پورے دنیا میں پھیلا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد اسے وطن واپس آنے والے فوجیوں نے پھیلایا۔اس وبا سے پانچ کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ اس سے عالمی سطح پر تین سے پانچ فیصد آبادی ختم ہوئی۔

ایچ آئی وی/ایڈز کی وبا 1980 کی دہائی میں شروع ہوئی اور اس سے اب تک تین کروڑ 20 لاکھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

[pullquote]روزگار کا خاتمہ اور بے یقینی کی کیفیت[/pullquote]

عالمی وبا سے معیشت کو بھی کافی نقصانات پہنچا اور اس کی وجہ سے دنیا بھر میں کئی لوگوں کا روزگار متاثر ہوا ہے۔تاہم بیروزگاری کی شرح اب بھی 1929-33 کے معاشی بحران کی سطح پر نہیں پہنچی۔

سنہ 1933 خاص طور پر بُرا سال تھا۔ اس وقت جرمنی میں ہر تیسرا شخص بیروزگار تھا۔اور اسی دوران عوام میں مقبول سیاست دان ایڈولف ہٹلر اقتدار میں آئے۔

[pullquote]رشتوں میں فاصلے کی زیادتی[/pullquote]

یہ سچ ہے کہ دنیا کے بیشتر حصوں میں لوگوں کو زیادہ وقت گھر پر ہی گزارنا پڑا ، اور اس دوران وہ اپنے پیاروں سے بھی نہ مل پائے۔لیکن سنہ 536 میں دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ تو آسمان کی طرف بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔

تاریخ دان مائیکل میکورمک کے مطابق یورپ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے کئی حصوں میں اس سال 18 ماہ کے لیے دن رات ایک پُراسرار دھند چھائی رہی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ دنیا کی تاریخ میں وسیع پیمانے پر ’بدترین عرصوں میں سے ایک تھا، اگر ہم اسے بدترین سال نہ بھی سمجھیں تو یہ گذشتہ 2300 برسوں میں سب سے سرد دہائی کی شروعات ہے، جس میں فصلیں تباہ ہوئیں اور لوگ بھوکے رہے۔

اس کی وجہ شاید آئس لینڈ یا شمالی امریکہ میں آتش فشاں کا پھٹنا تھی۔ اس کی راکھ نصف کرہ شمالی تک جا گِری تھی۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ آتش فشاں سے پیدا ہونے والی یہ دھند یورپ، ایشیا اور دنیا کے دیگر حصوں تک پھیلی۔ اس سے سردی کی شدید لہر نے کئی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

[pullquote]تفریحی مقامات سے اجتناب[/pullquote]

تاریخی اعتبار سے یہ سال عالمی سیاحت کے لیے بھی کافی بُرا تھا۔لیکن اگر آپ کو اپنے گھر رہنے پر اتنا افسوس ہو رہا ہے تو تھوڑا اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں بھی سوچ لیں۔ایک لاکھ 95 ہزار سال قبل سے ہی انسانوں کو سخت سفری پابندیوں کا سامنا رہا ہے۔یہ اس سرد اور خشک عرصے کی شروعات تھی جو ہزاروں سال جاری رہی۔ اسے میرین آئسوٹوپ سٹیج 6 کے نام سے جانا جاتا ہے۔پروفیسر کرٹیس مریان جیسے سائنسدان سمجھتے ہیں کہ اس خشک سالی سے ہماری نسل ختم ہونے کے قریب پہنچ گئی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ انسانیت کی بقا غاروں میں رہ کر ممکن ہوئی۔ افریقہ کے جنوبی ساحل پر ایسے ہی غار موجود ہیں۔ ان میں سے ایک غار کا نام ’جنت کا باغ‘ (گارڈن آف ایڈن) ہے۔ یہاں لوگوں نے سمندری غذا (سی فوڈ) پر گزارا کرنا سیکھا۔

[pullquote]بیروت کی بندرگاہ ایک دھماکے میں تباہ ہوئی[/pullquote]

4 اگست کو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ایک بڑا دھماکہ 2750 ٹن امونیئم نائٹریٹ کو غیر محفوظ انداز میں رکھنے کی وجہ سے ہوا۔ اس سے قریب 190 اموات ہوئیں اور چھ ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔

ماہرین کے مطابق یہ تاریخ کے سب سے بڑے غیر جوہری دھماکوں میں سے ایک تھا۔ اس کی شدت ایک کلو ٹن ٹی این ٹی جتنی تھی۔ یہ ہیروشیما کے بم کا 20واں حصہ بنتا ہے۔

دسمبر 1984 میں انڈیا کے شہر بھوپال میں کیمیکل پلانٹ میں ایک لیک کی وجہ سے دھماکہ پیش آیا تھا۔ اس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے اور اسے جدید تاریخ کے بدترین صنعتی حادثات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

انڈین حکومت کے مطابق دھماکے کے بعد قریب 3500 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگلے برسوں میں پھیپھڑوں کی بیماروں کی وجہ سے کوئی 15 ہزار مزید اموات ہوئیں۔

دھماکے کے بعد کئی دہائیوں تک شہر میں خطرناک دھند چھائی رہی جس کی وجہ سے آج بھی لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔

[pullquote]آسٹریلیا کے جنگلات میں آگ[/pullquote]

آسٹریلیا میں گذشتہ موسم گرما کے دوران جنگلات میں لگنے والی آگ سے کم از کم 33 اموات ہوئیں لیکن اس سے ہونے والا نقصان کہیں بڑا تھا۔ شہر میں قریب تین ارب جانور ہلاک ہوئے یا انھیں اپنے گھر چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں منتقل ہونا پڑا۔ ان میں ہر طرح کے چرند، پرند شامل ہیں جن کے گھر اس آگ نے جلا دیے۔

[pullquote]آخر سنہ 2020 کی کوآلا کی نسل سے کیا دشمنی ہے؟[/pullquote]

لیکن ستمبر 1923 میں زلزلوں سے آگ طوفان کی شکل میں پھیلی تھی۔ ایسے ایک واقعے میں جاپان میں ٹوکیو اور یوکوہاما کے بیچ ایک لاکھ 40 ہزار سے زیادہ اموات ہوئیں۔ ہلاک ہونے والوں کی یہ تعداد انسان تھی، کوآلا نہیں۔

[pullquote]زرا سی روشنی[/pullquote]

کئی زاویوں سے 2020 ایک نہایت مشکل سال رہا ہے۔ عالمی وبا سے ہم افراتفری میں ضروری اشیا خرید رہے تھے تو کبھی اپنے پیاروں سے سماجی فاصلہ رکھے ہوئے تھے۔

ہم میں سے کئی لوگ لاک ڈاؤن سے اکتاہٹ کا بھی شکار ہوئے اور صرف سینیٹائزر سے ہاتھ ملاتے پائے گئے۔لیکن آئیے اس سال میں ہونے والی کچھ اچھی باتوں پر بھی نظر دوڑاتے ہیں۔ یہ ایسا سال تھا جس میں۔۔۔

عالمی سیاست میں خواتین کی شمولیت بڑھی۔ سنہ 2020 میں 20 ریاستوں کی سربراہی خواتین کے ہاتھوں میں تھی۔ سنہ 1995 میں یہ تعداد محض 12 تھی۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020 میں مختلف ملکوں کے پارلیمانوں میں خواتین کی موجودگی دگنی ہوئی۔ یہ تمام سیٹوں کا 25 فیصد حصہ بنی۔

اور یہ وہ سال ہے جس میں کملا ہیرس نے تاریخ رقم کی ہے۔ نائب صدر منتخب ہونے والی وہ پہلی خاتون ہیں، پہلی سیاہ فام خاتون ہیں، پہلی خاتون ہیں جن کا تعلق جنوبی ایشیائی برادری سے ہے، اور وہ پہلی خاتون ہیں جو تارکین وطن کی بیٹی ہے۔

دنیا بھر میں لوگوں نے نسلی امتیاز کے خلاف بڑے مظاہرے کیے، اس امید میں کہ مستقبل بہتر ہوگا۔

ماحول کے لیے بھی ایک خبر تھی۔ مزید کمپنیاں اب کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے وعدے کر رہی ہیں۔ درحقیقت اقوام متحدہ کے مطابق کئی مقامی حکومتوں اور کاروباروں نے مجموعی طور پر اخراج صفر کرنے کے حامی بھری ہے۔ فیس بک، فورڈ اور مرسڈیز بینز ان کمپنیوں میں شامل ہیں۔

اگر یہ اچھی باتیں آپ کے لیے ناکافی ہیں تو یہ بھی ظاہر ہے کہ کسی وقت پر ہمیں یہ زمین چھوڑنی پڑے گی۔ اکتوبر میں ناسا نے اعلان کیا تھا کہ چاند پر ہمارے ماضی کے مشاہدے سے زیادہ پانی ہے۔ یہ ایسی دریافت ہے جس سے مستقبل کے مشن اور بھی اہم ہوسکتے ہیں۔امید ہے اور اپنے رب پاک پر یقین بھی کہ اگلا سال بہت سی خوشیاں اور روشنی کی نوید سنائے گا۔ ہمارے لیے لائے گا۔

[pullquote]جنوری[/pullquote]

چین میں ایک خطرناک وائرس پھیلا اور اس کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔ بہتر حفاظتی سامان کی عدم موجودگی میں لوگ روزمرہ استعمال ہونے والی چیزوں کو متبادل کے طور پر استعمال کرنے لگے۔

[pullquote]فروری[/pullquote]

دنیا بھر میں سپر مون نظر آیا جس میں چاند غیر معمولی طور پر پہلے سے کافی بڑا دِکھ رہا تھا۔ یہ رواں سال فلکیات کے عجیب واقعات میں سے ایک تھا۔

[pullquote]مارچ[/pullquote]

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے عائد ہونے والی پابندیوں نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہم میں سے کئی افراد 2020 کے دوران آن لائن چلے گئے، چاہے بات کام، شاپنگ یا دوستوں سے ملنے کی ہو۔

[pullquote]اپریل [/pullquote]

 فاصلے کے لیے کیے جانے والے اقدامات نے لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھا دیا۔ امریکہ میں ایک رومن کیتھولک پادری پانی والی پستول کے ذریعے اپنے اجتماع پر مقدس پانی چھڑک سکتے ہیں۔

[pullquote]مئی[/pullquote]

افریقی نژاد امریکی شخص جارج فلوئیڈ پولیس کی حراست میں تھے ،جب ان کی ہلاکت ہوئی۔ اس سے نسلی امتیاز اور پولیس کے تشدد کے خلاف ایک عالمی تحریک کا آغاز ہوا۔

امریکہ میں کیلیفورنیا اور سیکرامنٹو میں ہونے والے مظاہرے تو بس ایک شروعات تھی جس نے پورے ملک کو متحرک کردیا۔

[pullquote]جون [/pullquote]

پوری دنیا میں کئی ملکوں میں جب لاک ڈاؤن لگے تو ہمارا خیال تھا کہ زندگی شاید کبھی اپنی اصل حالت میں بحال نہیں ہو گی۔ لیکن بارسلونا میں ایک فنکار نے نرسری کے دو ہزار سے زیادہ پودوں کے سامنے پرفارم کیا۔ وہ ان مشکل وقتوں میں فن کی اہمیت کو اُجاگر کر رہے تھے۔

[pullquote]جولائی [/pullquote]

کینیا میں لوگوں نے ٹڈی دل کو اپنی زمین پر قبضہ جماتے دیکھا۔ پاکستان، ایران اور انڈیا میں فصلیں تباہ کرنے کے بعد یہ ٹڈیاں مشرقی افریقہ پہنچی تھیں۔

[pullquote]اگست[/pullquote]

دنیا کی تاریخ میں سب سے طاقتور غیر جوہری دھماکوں میں سے ایک لبنان کے دارالحکومت بیروت میں پیش آیا ، جس میں 200 سے زیادہ لوگ ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ پیانسٹ ریمنڈ عیسیان بھی اس دھماکے سے متاثر ہوئے، دھماکے سے انھیں ذہنی دھچکا لگا ۔

[pullquote]ستمبر [/pullquote]

برازیل کے بارانی جنگل (رین فارسٹ) ایمازون میں دہائی کی سب سے بڑی آگ لگی تھی۔ اس پر ماحولیات کے ماہرین اور کارکنان نے کافی تشویش ظاہر کی تھی۔

[pullquote]اکتوبر [/pullquote]

دنیا بھر میں کئی حکومتوں اس بارے میں غور کر رہی تھیں کہ آیا لاک ڈاؤن لگا کر کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکا جا سکتا ہے۔ کئی صنعتوں سے وابستہ افراد اپنے کاروبار سے متعلق فکر مند تھے۔ اٹلی کے دارالحکومت روم میں ایک ریستوران کے مالک نے اپنی کرسی پر ایک مصنوعی انسانی ڈھانچہ بٹھا رکھا تھا ، جو اس بات کی علامت تھا کہ ان کا کاروبار مر رہا ہے۔

[pullquote]نومبر [/pullquote]

تھائی لینڈ کے متری چتنوندا شاہی خاندان کے بڑی حامی ہوا کرتے تھے۔ لیکن رواں سال جمہوری اصلاحات کے لیے مظاہروں اور بادشاہت کی جانب سے عائد نئی پابندیوں نے انھیں متاثر کیا اور انھوں نے بھی شاہی خاندان کی مخالفت شروع کردی۔

[pullquote]دسمبر[/pullquote]

کورونا وائرس سے شاید پوری دنیا متاثر ہو رہی ہے لیکن انسانوں کی خلا میں جانے کی دوڑ جاری ہے۔ چین اب دنیا کی تاریخ میں دوسرا ملک بن گیا ہے، جس نے چاند پر اپنا جھنڈا لگایا ہے۔ 44 برسوں بعد چینی مشن چاند سے پتھروں کے نمونے لایا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے