ہر ادرے کا ایک مخصوص لوگو ہوتا ہے، جس سے اسکی اور اسکے خاص کارآمد عوامل کی پہچان ہوتی ہے۔لوگو سے ہم اس ادراے کے مشن اور مقصد سے روشناس ہوتے ہیں ۔
چاہے وہ ادارہ صنعتی ہو،تجارتی ہو،مالیاتی ہو ،ماحولیاتی ہو یا چاہے تعلیمی ادارے ہوں، ہر ادارے کا اپنا ایک مخصوص لوگو ہوتا ہے جو کہ خوبصورت ،معلوماتی، آسان اور عمدہ مقاصد کا آئینہ دار ہوتا ہے اور جتنا یہ آسان اور فہم و فراست سے مزین ہو گا، اتنا ہی ہمیں اپنی طرف راغب کر ے گا ۔اسی لوگو سے ہمیں اس ادارے کی معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔
جس طرح اداروں کے لوگو ہمیں متوجہ کرتے ہیں،اسی طرح انسانوں کے رویے بھی ہمیں متوجہ کرتے ہیں ۔ یہ ہمارے زہن پر انمٹ نشان چھوڑ جاتے ہیں، چاہے یہ اچھے ہوں چاہے برے ۔
کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ بچے جب بھی کسی نئے انجان شخص سے ملتے ہیں تو ان کے پیار اور تعریفی کلمات کو کتنا عرصہ نہیں بھولتے لیکن وہ بھولتے انکو بھی نہیں جو انکی طرف متوجہ نہ ہوں، انکو اہمیت نہ دیں یا کچھ تنقیدی کلمات یا نظروں سے دیکھ لیں ۔ہمارے رویے ہمارے عکاس ہوتے ہیں چاہے وہ مثبت ہوں یا منفی ۔ یہ ہمارے برانڈ کو لوگوں پر عیاں کر دیتے ہیں ۔ تو پھر ہمیں یہ ماننے میں کوئی دقت نہیں کہ رویے ہمارے لوگو ہیں ۔
اس برانڈڈ معاشرے ہمیں ہر چیز کے لئے برانڈ چاہئے ، تو اپنے برانڈ کا بھی کبھی سوچا ہے۔ یہ مثبت ، منفی اور بعض اوقات مخفی بھی ہوتےہیں۔اور سب سے زیادہ یہ خطرناک ہوتے ہیں ۔
یہ رویے ہمارے کسی بھی چیز کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔
?چاہے وہ رشتے ہوں،
?نوکری ہو
?مقصد ہو
?منزل ہو
?نیک عمل ہو
?صحت ہو
?دولت ہو
?قبر کے لئے جگہ ہو
کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کا اگر ہمارا لوگو مثبت اور تعمیری نہیں تو وہ حاصل کیسے ہو گی ۔
پاکستان اور پوری دنیا میں ہم شمولیاتی تعلیم کو عملی حقیقت بنانا چاہتے ہیں اور اسکے لیے بہت سی تحقیقی مکالات ، سیمینار اور میٹینگز منعقد کرتے ہیں اور وہاں پر ہم انسانی رویوں پر بحث کرتے ہیں، تو اس لیے جب تک ہمارے رویے مثبت نہیں ہوں گے تو مقاصد پورے کیسے ہوں گے۔
اسی لئے ہمارے لوگو ہی شمولیاتی تعلیم کی عملی حقیقت کی راہ میں سب رکاوٹوں کی جڑ ہے ۔
جب تک اعلی سطح کی مینیجمینٹ اور سرکاری عملے کے لوگو مثبت نہیں ہوں گے ، اس پر عمل درآمد بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ ہمارے ادارے کیسے کام کریں گے ۔ ہر اس بچے کی طرح جو ہمارے معاشرے کا فعال شہری ہے اور تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہا ہے ،ہمارے سب بچے جو کسی بھی ،جسمانی،زہنی، بصری،سمعی معذوری کے حامل ہیں، تعلیم اور دوسری تمام ضروریات کے حقدار ہیں ، جو ان تمام بچوں کو میسر ہے ۔اتنا تضاد کیوں !!
کیونکہ اللہ تعالی نے یہ دنیا مختلف قسم کی مخلوقات سے سجائی ہے ،ہمیں دوسروں سے مختلف بنایا ہے ، ہمیں شخصی عوامل اور کارکردگی میں مختلف بنایا ہے۔ یہ تو سب انسانی ضروریات ہیں ،تو پھر یہ سب خاص ضروریات کیسے ہو گئیں،تعلیم اور دوسری سفری ،روزگار کے موقع سب کے لئے یکساں طور پر لازم ہیں اور سب اسکے حقدار ہیں تو پھر ان بچوں کو خاص ادروں میں میں کیوں بھیجا جائے، خاص سفری سہولتیں نہیں بلکہ قابل رسائی سفری ،طبی، معاشرتی ،معاشی سہولتیں مہیا کی جائے ۔
انکے لیے یکساں تعلیمی درسگاہوں میں جگہ نہیں یا پھر ہمارے لوگوز بدلنے کی ضرورت ہے۔
ہر بچے کو اللہ تعالی نے فطرت ثانیہ پر پیدا کیا ہے تو اتنی تفریق کیوں؟؟؟
جب سب مختلف خصوصیات کے حامل بچے ایک معاشرے، ایک گھر میں رہتے ہیں، ایک ادارے،ایک جگہ اور ایک جماعت میں پڑھتے ہیں، اور ایک طرح کی تدریسی سہولیات سے مستفید ہو رہے ہیں تو انکو شامل کرنا اتنا مشکل کیوں ہے؟؟
یہ انسان نہیں؟؟؟؟
زرا سوچیے!
ہم ایک ہیں
ساتھ میں رہیں گے اور ساتھ میں پڑھیں گے!
وقت بدلتا ہے ضرور بدل جاتا ہے….
انشاء اللہ