جدید ادارہ بندی ، درس نظامی کی روایتی دینی تعلیم

جدید ادارہ بندی نے درس نظامی کی روایتی دینی تعلیم کو کس مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس جدید نظام میں ایک فن میں چھ سات کتابیں پڑھنے کے بعد بھی اس سے شدبد حاصل نہیں ہو پاتا۔ منطق کی مثال بہت واضح ہے۔ میں نے منطق میں تیسیر المنطق، ایساغوجی، المرقاۃ، شرح تہذیب، قطبی، سلم العلوم، میر زاہد اور ملا جلال پڑھے ہیں لیکن اتنی کتابیں پڑھنے کے باوجود معمولی شد بد بھی نہیں۔ اور ہو کیوں؟ ایک ہی سال میں بیک وقت مختلف مضامین کے کئی دقیق اور مشکل متون کیسے پڑھے جا سکتے ہیں۔

درس نظامی کی روح مطالعے کی استعداد کا حصول ہے، جو کسی فن میں بیک وقت ایک یا زیادہ سے زیادہ دو ٹھوس متون کو اچھی طرح سے پڑھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ شرح جامی کے سال ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ ایک وقت میں ایک کتاب پڑھنے سے آدمی یکتا بن جاتا ہے، دو کتابیں پڑھنے سے آدمی کا مد مقابل ضرور ہوتا ہے اور تین کتابیں پڑھنے سے بندہ کچھ نہیں بنتا۔

دورۂ حدیث کے سال دارالعلوم حقانیہ میں مفتی سیف اللہ صاحب نے پہلے دن دارالعلوم کے قدیم تعلیمی نظام اور نظریے پر کافی پرمغز گفتگو کی تھی جس میں کتابوں کے حوالے سے موقف یہ تھا کہ بیک وقت تین سے زیادہ کتابوں کے پڑھنے کا تصور تک نہ تھا۔ افسوس کہ درس نظامی کی یہ روح اب پرواز کر گئی ہے اور اب ہم صرف لکیر پیٹ رہے ہیں۔ ذیل کے واقعے سے جہاں بحرالعلوم کی عظمت معلوم ہوتی ہے وہیں درس نظامی کی بنیادی سکیم کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ بحر العلوم درس نظامی کے بانی ملا نظام الدین سہالوی کے صاحب زادے تھے۔

"بحر العلوم علامہ سہالوی لکھنوی رح کے صاحب زادے شیخ عبد الاعلی سہالوی کہتے ہیں کہ میرے والد غبی طالب علم کو ہر فن میں دو کتابیں اور ذکی طالب علم کو ایک کتاب پڑھایا کرتے۔ کیونکہ ان کے لیے ممکن تھا کہ وہ صرف ایک کتاب کے واسطے سے ذکی طالب علم میں فہم و ادراک کا بیج بو سکے۔ جہاں تک غیر ذکی طالب علم کی بات ہے تو اسے دو کتابوں کے پڑھنے کی ضرورت ہے”۔

ذكر الشيخ عبد الأعلى السهالوي ابن العلامة بحر العلوم ملك العلماء السهالوي اللكنوي -رحمهم الله تعالى- أن أباه العلامة: كان يدرس للطالب الغبي في كل فن كتابين، وللطالب الذكي كتابا واحد في كل فن؛ وذلك لأنه كان يستطيع أن يغرس في الطالب الذكي ملكة الفهم والإدراك بواسطة كتاب واحد، وأما الذي لا يكون ذكيا فيحتاج لمعالجة كتابين.

اس عربی عبارت کا استفادہ شیخ عبد الحميد التركماني سے ہے اور اردو ترجمہ راقم الحروف کا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے