خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات کے دوران اعتماد کا شدید فقدان دیکھنے میں آیا۔وزیراعلیٰ ہاؤس سے جو اراکین اسمبلی ہال چار چار اور پانچ پانچ کے ٹولوں کی شکل میں ووٹ ڈالنے کےلئے آتے تھے، وہ موبائل فون کے بغیر ہوتے تھے۔اسی طرح موثر حکمت عملی نہ ہونے کے باعث ارب پتی تاج محمد آفریدی کے ساتھ کئی اراکین اسمبلی نے ہاتھ کیا تو تحریک انصاف کی پانچویں نشست ذیشان خانزادہ کو دو ووٹ مسلم لیگیوں نے دی ہیں۔ جس کے باعث انہیں آخری نمبر پر کامیابی ملی، حکومت نے اپنے ہی اراکین اسمبلی کو وائٹ اور گرے کی کیٹگری میں تقسیم کیا تھا اور امیدواروں کو بتایاگیا تھاکہ گرے کیٹگری والے اراکین اسمبلی کسی بھی وقت پھسل سکتے ہیں انہیں سنبھالنے کےلئے مکمل ”انتظامات “کئے جائیں۔
اراکین اسمبلی کی درجہ بندی کسے ہوئی تھی؟؟؟ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے تمام اراکین اسمبلی کو پانچ گروپوں میں تقسیم کیا تھا شبلی فراز، لیاقت ترکئی اور محسن عزیز کے گروپ میں 19, 19 اراکین اسمبلی جبکہ باقی فیصل سلیم اور ذیشان خانزادہ کے گروپس میں 18،18 ایم پی ایز رکھے گئے تھے۔ اتحادی تاج محمد آفریدی کو 6 اراکین اسمبلی دئیے گئے تھے اور انہیں بتایا گیا تھا کہ باقی ووٹ کہیں اور سے تلاش کریں۔ اسی طرح اپوزیشن نے بھی اپنے اراکین اسمبلی کو تین گروپس میں تقسیم کیا تھا مولانا عطاءالرحمن کے حصے میں اپنی پارٹی کے 15، اے این پی کے ہدایت اللہ کے حصے میں اپنے پارٹی کے ایم پی ایز کے علاوہ جماعت اسلامی کے تین اراکین اسمبلی اور ن لیگ کے عباس آفریدی کے حصے میں پیپلز پارٹی کے ایم پی ایز رکھے گئے تھے۔
کابینہ کے ایک اہم رکن نے بتایا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار نے اپنے لئے دئیے گئے چھ ایم پی ایز کے علاوہ جب ذیشان خانزادہ اور فیصل سلیم کے گروپ میں اراکین اسمبلی کو خریدنے کی کوشش کی تو وزیراعلیٰ سے اس کی شکایت کی گئی ، اس دوران مقتدر حلقوں نے حکومت کو 31ایم پی ایز پر مشتمل ایک گرے لسٹ حوالے کردی کہ یہ اراکین کسی بھی پھسلن کا شکار ہوسکتے ہیں جس کے بعد وزیراعلیٰ نے ان اراکین کی کھڑی نگرانی کا فیصلہ کیا ۔ اپوزیشن کے کئی اراکین نے عباس آفریدی کے ساتھ بھی وعدے کئے تو ساتھ ہی تاج محمد آفریدی کے چمک کے سامنے بھی نہ ٹھہر سکے۔ 28 فروری کو ایک اہم سرکاری عمارت میں صوبائی حکومت کے اعلیٰ شخصیات نے گروپ کے اراکین میں رد وبدل کی۔ اور حکمت عملی کو آخرشکل دی۔ اراکین اسمبلی کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنے انتظامی عملے سے دور رہے اور تین مارچ تک مخصوص عمارتوں میں رہیں گے۔ تین مارچ کی صبح اراکین اسمبلی کےلئے وزیراعلیٰ ہاوس میں ناشتے کا اہتمام کیا گیا اور انہیں وقفے وقفے سے چار چار اور پانچ پانچ کے گروپ میں سینیٹ انتخابات میں ووٹ پول کرنے کےلئے اسمبلی ہال بھیجا گیا۔
انتخابی نتائج میں کیا ہوا؟؟؟ پاکستان تحریک انصاف نے جب اقلیت ، خواتین اور ٹیکنو کریٹ کی پانچوں نشستیں اپنے نام کرلیں تو جنرل نشستوں پر گنتی کے دوران تمام امیدواروں کی سانسیں پھول گئیں۔پہلے گنتی کے دوران 19ووٹ حاصل کرنے کے ساتھ ہی شبلی فراز، لیاقت ترکئی اور محسن عزیز کامیاب قرار پائے۔ ان تینوں امیدواروں کا سکور 1900فی امیدوار آیا۔ جبکہ انتخابات میں کامیابی کے لئے 1801 سکور لازمی تھا۔ دوسری گنتی کے دوران تاج محمد آفریدی نے 10، ذیشان خانزادہ نے 40، فیصل سلیم نے 10 اور ہدایت اللہ نے 35سکور حاصل کیاتاہم کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔ چوتھی گنتی کا عمل مکمل ہوا لیکن ان تین اراکین کے علاؤہ کسی نے بھی مطلوبہ سکور حاصل نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن نے قواعد کے مطابق پانچویں راونڈ میں ایلیمینشن سٹیج کے تحت عباس آفریدی کو اوٹ کردیاکیونکہ انہوں نے سب سے کم ووٹ حاصل کئے تھے۔ اس موقع پر حیران کن نتائج سامنے آئے۔
ن لیگ کے عباس آفریدی کی دوسری ترجیح میں تین ووٹ اے این پی کے ہدایت اللہ ، تاج محمد ، ذیشان خانزادہ اور مولانا عطاءالرحمن کے حصے میں 2,2 ووٹ آئے۔ ذیشان خانزادہ کا سکور 1690 تک پہنچ گیا جبکہ اس مرحلے پر تاج محمد آفریدی کا سکور 1675 تھا۔ اس طرح ساتویں نمبر پر آنےوالے تحریک انصاف کے امیدوار ذیشان خانزادہ کامیاب قرار پائے۔ اس سے قبل فیصل سلیم اور ہدایت اللہ چوتھے اور پانچویں نمبر پر کامیاب قرار پائے گئے، مولانا عطاءالرحمن کا نمبر چھٹا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق تاج محمد آفریدی کا سکور ذیشان خانزادہ سے صرف 15کم تھا۔