ڈاکٹر انوار حسین صدیقی: ماہر تعلیم ، ہمدرد اور منصف مزاج شخصیت

انہوں نے تقسیم برصغیر سے سات سال قبل جے پور میں ایک علمی شخصیت محمد حسین صدیقی کے گھر جنم لیا تاہم ان کی زندگی کے عملی سفر کا آغاز حیدر آباد پاکستان سے ہوا۔ جہاں انہوں نے ابتدائی اور ماسٹر کی سطح تک امتیازی حیثیت حاصل کی۔ کم عمری میں امریکہ سے سکالر شپ پر ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد وہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن کراچی سے بطور ڈائریکٹر وابستہ ہوئے تھے اور تھوڑے ہی عرصے میں مُلک بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسی (80) کی دہائی میں جنرل محمد ضیاء الحق نے اسلامائزیشن کے عمل کے سلسلے میں اسلامی یونیورسٹی قائم کی اور اس کے شعبۂ اقتصادیات کی سربراہی جماعتِ اسلامی کے رہنماء پروفیسر خورشید احمد کو سونپی تو ان کی نظرِ انتخاب ڈاکٹر انوار حسین صدیقی پر پڑی۔ انہیں خصوصی طور پر اسلام آباد بلا کر اسلامی یونیورسٹی کے شعبۂ اقتصادیات کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔ اس زمانے میں ڈاکٹر صدیقی کی محنت و انتھک جدّوجہد سے شعبۂ اقتصادیات کوخاصا عروج مِلا اور اس کی ڈگری کی اہمیت کا ایک زمانۂ معترف ہو گیا۔

اس کے بعد انہیں یونیورسٹی کا نائب صدر انتظامی امور مقرر کیا گیا ۔ یہ ذمہ داریاں بطریق احسن نبھانے کے بعد انہیں فیڈرل جیوڈیشل اکیڈمی کا ڈائریکٹر جنرل بننے کا بھی موقع ملا اور اس کے ساتھ ہی وہ ” پاکستان یوتھ ہاسٹل اسوسی ایشن کے اعزازی سربراہ بھی مقرر ہوئے ۔ یہ منصب اسلامی یونیورسٹی کے صدر کے عہدے سے فراغت تک حاصل رہا۔

فیڈرل جیوڈیشل اکیڈمی کے بعد آپ کو علّامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔وہاں مدت کی تکمیل کے بعد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف ٹرسٹیز نے انہیں یونیورسٹی کا صدر مقرر کر دیا۔ صدیقی صاحب کا بطور صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا چار سالہ دور ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس چار سالہ دور میں صدیقی صاحب نے یونیورسٹی کی ترقی کے لیے ج کام کیے ان کا احاطہ الفاظ میں ممکن نہیں ہے ۔ صدیقی صاحب نے یونیورسٹی کی جدید خطوط پر اٹھان اور اُسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی۔ ان کے عہد میں یونیورسٹی میں تعمیر و ترقی کا بے مثال کام ہوا۔

یونیورسٹی کے کئی ہاسٹلز تعمیر ہوئے، فیصل مسجد کے ساتھ ایک بہت بڑا آڈیٹوریم بنا ، شعبۂ خواتین کو ترقی ملی۔جوہر قابل جہاں سے بھی ملا اسے وہ یونیورسٹی میں لاے۔لاہور میں علامہ اقبال کی تعلیمات کی عصری تطبیق کے لیے قایم ادارہ اقبال انسٹی ٹیوٹ کو اسلام آباد منتقل کرکے اسے یونیورسٹی کا حصہ بنایا اور اسکی سربراہی عالمی سطح کی علمی شخصیت ڈاکٹر ممتاز احمد کو خصوصی طور پر امریکہ سے بلا کر انہیں سونپی۔ یونیورسٹی میں پہلی بار ملک کی ایک تجربہ کار ترین خاتون محترمہ پروین قادر آغا کو نایب صدر انتظامی امور کا منصب دیا۔ الغرض ہر پہلو اور ہر لحاظ سے یونیورسٹی کو ایک نیا نکھار ملا لیکن کیا وہ بس یہی کچھ تھے؟ انتظامی اعتبار سے اس طرح کے کئی لوگ ہو سکتے ہیں تاہم ڈاکٹر انوار حسین صدیقی اس سے ہٹ کر ایک شخصیت تھے۔ وہ انتظامی امور میں بے شمار صلاحیتوں کے مالک تو تھے ہی، اس کے ساتھ ساتھ وہ تعلیم میں جدّت لانے والی شخصیّت تھے۔ وہ محض ایک انتظامی سربراہ ہی نہیں بلکہ لوگوں کے مسائل میں حقیقی دلچسپی رکھنے والے فرد تھے۔ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والے ہر فرد کو قریب سے جاننے کے متمنی رہتے تھے۔ لوگوں کے مسائل سے آگاہی کا حصول نتیجہ خیز تب ہوتا ہے جب ان کے حل کی راہ بھی نکالی جائے۔ صدیقی صاحب میں یہ وصف بدرجۂ اتم موجود تھا۔ وہ لوگوں کے مسائل کو پہلی فرصت میں حل کر کے دم لیتے تھے۔

کوئی بھی ادارہ اپنے کارکنان کے اطمینان کے بغیر پنپ نہیں سکتا۔ صدیقی صاحب کو اس کا نہ صرف ادراک تھا بلکہ وہ کارکنان کو ہر لحاظ سے مطمئن کرنے کی بھی کاوشیں کیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا ایک اور وصف بھی تھا کہ وہ کارکنان کی جانب سے کِسی طرح کی کوتاہی کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ اچھّے کام پر داد اور غلط کام پر سزا، اِس سِلسلے میں وہ کوئی رعایت برتنے کے روادار نہ تھے۔

ڈاکٹر انوار حسین صدیقی زمانۂ طالب علمی میں ایک خاص طلبہ تنظیم سے وابستہ رہے تھے لیکن جب ان پر مختلف اداروں کی سربراہی کی ذمہ داری آن پڑی توانہوں نے اپنے ماضی کی اس وابستگی کو کبھی آڑے نہ آ نے دیا۔ وہ احترام سب کا کرتے تھے لیکن کسی تعلق کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیتے تھے بلکہ اس سے بھی آگے کی بات کی جائے تو بے جا نہ ہو گی کہ وہ ہر طرح کے تعصبات سے بلند تر تھے۔

اب صدیقی صاحب داغِ مفارقت دے گئے ہیں تو یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی یہ پتہ نہ چلنے دیا کہ وہ کِس مسلک سے وابستہ تھے۔ وہ ہر ایک کی اچھی بات کو سراہتے تھے اور غلط بات پر ٹوکنے سے ہچکچاتے نہ تھے۔

اُن کی اسلامی یونیورسٹی کی سربراہی کے دور یں یونیورسٹی میں دو دھماکے ہُوئے جن میں کئی طلبہ و طالبات کی جانیں چلی گئیں۔ اُس وقت کے وزیر داخلہ جناب عبدالرحمٰن ملک ( رحمٰن ملک کہنا غلّط ہے) نے بے سروپا باتیں کیں تو صدیقی صاحب نے برملا رائے سے اختلاف کیا ۔ اُس جرأت ِ رندانہ پر وزیرِ داخلہ کافی عرصہ تک ان سے نالاں رہے۔

ڈاکٹر صدیقی نے جن اداروں کی سربراہی کی۔ ان میں اپنی یادیں چھوڑ کر وہ اب اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں۔ یقیناً انہیں ان کی انصاف پسندی، تعصب سے دُوری اور اپنے فرائض منصبی بطریقِ احسن نبھانے پر اپنے رب کی خوشنودی حاصل ہو گی۔ انہوں نے تعلیمات رسول ﷺ پر عملاً عمل کیا، جی ہاں عملا عمل ،محض دعویٰ نہیں کیا ۔ انہیں اپنے نام میں شامل لفظ” حسین” کا ہمیشہ بے پناہ خیال رہتا تھا ،وہ برملا کہا کرتے تھے کہ انکے والدین نے جو نسبت انہیں دی ہے اس پر انہیں فخر ہےاسی وجہ سے وہ ان ہستیوں کا ہمیشہ مان رکھتے رہے ۔اللہ تعالیٰ انہیں اخروی زندگی میں سرخرو فرمائے ۔امین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے