اگر لاک ڈاؤن اسی طرح جاری رہا تو بات فاقوں تک پہنچ جائے گی

‘تندور والے کے پاس خواتین اور بچوں کا ایک جم غفیر تھا جو ناجانے کس انتظار میں بیٹھے تھے اور جیسے ہی ایک آدمی نے گاڑی کا دروازہ کھولا تو وہ اسکی طرف لپک پڑے جیسے وہ اسی کا انتظار کررہے تھے’

نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے سجاد علی کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ منظر چند روز قبل پشاور کے چوک یادگار میں دیکھا۔ سجاد علی خود بھی پشاور میں محنت مزدوری کرتے ہیں اور گھر کے باقی افراد کا پیٹ پالتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ملک میں غربت بہت زیادہ ہوگئی ہے اور رہی سہی کسر کورونا اور لاک ڈاون نے پوری کردی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی تیسری لہر شروع ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے مزدور ایک بار پھر تشویش میں مبتلا ہو چکے ہیں کیونکہ حکومت نے ہفتے میں دو روز لاک ڈاون شروع کردیا ہے۔

سجاد علی کا کہنا ہے کہ پہلے لاک ڈاون کی وجہ سے بھی مزدور طبقہ بہت متاثر ہوا اور ایک مرتبہ پھر لاک ڈاون کا نفاذ ہوگیا ہے جس سے اگر ایک طرف کاروباری لوگ پریشان ہیں تو دوسری جانب مزدور بھی تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں کیونکہ اگر کام نہیں ہوگا تو وہ کیا گھر لے کر جائیں گے اور انکے گھر کا چولہا کیسے جلا رہے گا۔

‘ اتنی مہنگائی ہوگئی ہے کہ کوئی دو وقت کی روٹی بھی پید انہیں کرسکتا، آٹے،گھی اور باقی خوراکی اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں ایسے میں لاک ڈاون بھی لگ گیا غریب تو بھوکا مرجائے گا’ سجاد نے بتایا۔

یاد رہے پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاو میں ایک بار پھر تیزی آئی ہے اور مثبت کیسز کی شرح 10 فیصد سے تجاوز کرگئی ہے جس کے باعث حکومت نے چند روز قبل ہفتے اور اتوار کو لاک ڈاون کا نفاذ کیا ہے۔ اس سے پہلے مارچ 2020 میں کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے حکومت نے لاک ڈاون کا نفاذ کیا تھا جو قریبا 6 مہینے تک لگا رہا۔

اپریل 2020 میں ملک میں نافذ لاک ڈاؤن کے دوران منصوبہ بندی کے وفاقی وزارت نے کچھ اعداد و شمار جاری کئے تھے جس کے مطابق ملک بھر میں لاک ڈاؤن کے دوران 1 کروڑ 80 لاکھ تک لوگ بے روزگار ہوئے۔

دوسری جانب مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والے ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے مطابق ملک کے ساڑھے 6 کروڑ مزدوروں کا 75 فیصد اس لاک ڈاؤن کے دوران بدترین حالات سے گزرے ہیں۔

ادارے کے مطابق ان مزدوروں میں زیادہ تر غیر رجسٹرڈ ہیں جن کے پاس نہ کوئی سماجی تحفظ ہے اور نہ قانونی چارہ جوئی کا اختیار۔ کوئی کارخانہ انہیں نوکری سے نکالتا ہے، انہیں کبھی مزدوری نہیں ملتی یا کوئی بھی مسئلہ ان کے ساتھ پیش آتا ہے تو نہ تو وہ کسی کے خلاف عدالت جاسکتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی مخصوص امداد حاصل کرسکتے ہیں۔

فضل رازق جو شاور میں عینک کا کاروبار کرتا تھا کہ کہنا ہے ‘ میں پچھلے تین سال سے یہ کاروبار کر رہا ہوں اور یہ دو سال سال تک بہترین جا رہا تھا، مجھے منافع ہو رہا تھا، میرے پاس شاگرد بھی تھے،لیکن جب کرونا آیا تو ہماری مشکلات شروع ہوئی، لاک ڈاون کی وجہ سے حالات بہت خراب ہوئے، پھر ہفتے میں دو دن چھٹی ہوتی تھی، لیکن کاروبار کو رات سے پہلے بند کیا جاتا تھا، اس سے ہمارا کاروبار مزید خراب ہوا، اور ہمیں قرضے لینے پڑے’ ۔

انہوں نے بتایا کہ کہ مجبورا پشاور میں اپنا کاروبار ختم کر دیا اور کراچی جانے کا فیصلہ کیا، لیکن اب پھر ہفتے میں دو دن چھٹی کا اعلان کیا گیا ہے، یہ ان جیسے غریب افراد کیلئے کسی عذاب سے کم نہیں، اس کی وجہ سے نہ صرف ان کو کاروبار متاثر ہوا بلکہ انکے ساتھ کام کرنے والے مزدور بھی متاثر ہوئے پہلے وہ ان کو مہینے کی تنخواہ دیتے تھے اب روزانہ کے حساب سے دیتے ہیں جس سے ان ان کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔

فضل رازق کا کہنا ہے کہ یہ ہفتہ اور اتوار کی چھٹی ختم کی جائیں کیونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے ان کا کاروبار پہلے ہی سے متاثر ہوچکا ہے اور اب دوبارہ لاک ڈاون کو وہ برداشت نہیں کرپائیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاون سے غریب افراد کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، لاک ڈاون کی بجائے ایس او پیز پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اور اگر لاک ڈاون لازمی لگانی ہے تو غریب افراد کیلئے پیکیجز کا اعلان کیا جائے جس طرح پہلے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام شروع کیا گیا تھا۔

دوسری جانب لیبرڈیپارٹمںٹ کا کہنا ہے کہ انکے پاس دیہاڑی دار مزدرو رجسٹرڈ نہیں ہیں اور نہ ہی حکومت نے انکو کوئی فنڈ دیا ہے جس سے وہ انکی مدد کرسکے اگر حکومت انکو کوئی فنڈ مہیا کرے گی تو ہی وہ مزدوروں کی کوئی مدد کرسکیں گے۔

مارچ میں ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے بعد حکومت پاکستان نے عبدالمالک اور شعیب جیسے لاچار لوگوں کی مدد کے لئے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام شروع کیا جس میں 1 کروڑ بیس لاکھ خاندانوں کے لئے 144 ارب روپے بجٹ مخصوص کیا گیا تھا جس کے تحت ہر خاندان کو 12، 12 ہزار روپے دئے گئے تھے۔

خیال رہے پاکستان میں کرونا وائرس کا پہلا کیس فروری 2020 میں آیا تھا اور اب تک کرونا وائرس سے 14028 افراد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔

مجموعی کیسز 6 لاکھ 40988 تک جاپہنچے ہیں اور فعال کیسز کی تعداد 37985 ہے۔ اس کے وائرس سے صحتیاب ہونے والوں کی تعداد 588975 ہوگئی ہے۔
مزدوروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انکی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے لاک ڈاون ختم کیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے