خیبر پختونخوا پولیس کے پر کیسے کاٹے جا رہے ہیں؟؟؟

خیبرپختونخواحکومت نے مسلسل کوتاہیوں اورغیرذمہ دارانہ اقدامات کے بعد فیصلہ کیاہے کہ صوبے کی پولیس کو نکیل ڈال کر عوام کے سامنے جوابدہ کیاجائے پولیس سیاسی مداخلت سے تو آزادہوگی لیکن حکومت کو جوابدہ ہوگی اوراس متعلق دونئے قوانین سمیت پہلے سے موجود قوانین میں ترامیم کی جائیں گی جس کے بعد سپیشل برانچ ،آئی جی پولیس کے علاوہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواکوبھی رپورٹ پیش کریگی اس کے علاوہ پولیس کےخلاف شکایات کےلئے کمپلینٹ اتھارٹی قائم کی جائے گی اورپولیس سٹیشن کی باقاعدہ طور پر چیکنگ اورنگرانی کےلئے انسپکٹوریٹ قائم کیاجائے گا۔صوبائی حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیاہے کہ عامر تہکالی کاواقعہ ہویا غربی پولیس سٹیشن میں شاہ زیب کی خودکشی کا،پولیس کا غیرذمہ دارانہ رویہ حکومت کی بدنامی کاسبب بن رہاہے ۔

[pullquote]کونسے نئے قوانین پیش کئے جائیں گے۔۔؟[/pullquote]

خیبرپختونخواحکومت نے پولیس کو حکومت کے سامنے جوابدہ کرنے اوران کے خلاف شکایات کے ازالے کےلئے دونئے بل لانے کافیصلہ کیاہے خیبرپختونخوا انڈیپنڈنٹ پولیس کمپلینٹس اتھارٹی بل2021اور انسپکٹوریٹ آف کریمینل جسٹس سروس بل2021کابنیادی مسودہ تیارکیاجاچکاہے خیبرپختونخواحکومت نے صوبائی وزیرتعلیم شہرام ترکئی کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں معاون خصوصی کامران بنگش کے علاوہ صوبائی وزیرمحنت شوکت یوسفزئی بھی شامل ہیں اس کمیٹی کو آئی جی پولیس ،سیکرٹری داخلہ،سیکرٹری قانون اور ایڈووکیٹ جنرل کی معاونت حاصل ہوگی صوبائی حکومت کے مطابق اس متعلق مسودے کوحتمی شکل دے کر وزیراعلیٰ کوپریزنٹیشن دی جائیگی جس کے بعد صوبائی کابینہ سے منظوری کے بعد یہ دونوں بل اسمبلی میں پیش کئے جائیں گے پولیس ایکٹ2017ءمیں پولیس کے خلاف شکایات کے ازالے کےلئے ضلعی سطح پرپبلک سیفٹی کمیشن کاقیام لازمی تھا اسی طرح ڈویژنل لیول پر ریجنل کمپلینٹ اتھارٹی کاقیام بھی ایکٹ کاحصہ ہے اورصوبائی سطح پر پراونشنل پبلک سیفٹی کمیشن کاقیام بھی عمل میں لایاجاناتھالیکن پولیس کےخلاف شکایات کےلئے صوبے کے بندوبستی پچیس اضلاع میں سے صرف گیارہ اضلاع میں ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیشن قائم کیاگیا اور تین سالہ مدت کے بعد اس کی تجدیدنہیں کی گئی صوبائی حکومت نے بار بار اس جانب نشاندہی بھی کی لیکن پولیس اپنے کےخلاف شکایات سننے کےلئے تیا رنہیں تھی جس کے بعد یہ فیصلہ کیاگیاہے کہ پولیس کمپلینٹ اتھارٹی کے خلاف ایک خودمختارباڈی قائم کی جائے گی جوپولیس کے خلاف ضلعی اورصوبائی سطح پر شکایات کاازالہ کریگی اسی طرح انسپکٹوریٹ آف کریمینل جسٹس سروس بل 2021ءکے تحت ایک الگ باڈی قائم کی جائے گی جو جیل خانہ جات اورپولیس سٹیشن کے علاوہ پولیس دفاترکی بھی چیکنگ کرسکے گی ۔

[pullquote]کن قوانین میں ترامیم کی جائیں گی۔۔؟[/pullquote]

صوبائی حکومت نے سپیشل برانچ کےلئے پہلے سے موجود قانون میں تبدیلی کافیصلہ کیاہے قانونی ترمیم کے تحت سپیشل برانچ کا ہیڈ آئی جی پولیس کے علاوہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواکوبھی اپنی رپورٹ پیش کریگااس کے علاوہ وزیراعلیٰ آئی جی کے بجائے براہ راست بھی سپیشل برانچ سے رپورٹ طلب کرسکتاہے صوبائی حکومت کے مطابق پولیس ایکٹ2017ءمیں بھی کئی اہم ترامیم کی جائیں گی جس کے بعدوہاں موجوداحتساب کے نظام کوموثرکیاجائے گاتاہم ایک اعلیٰ پولیس افسرنے بتایاکہ نئے قوانین اور نئی ترامیم سے پولیس کی وہ خودمختاری جوناصردرانی کے دورمیں قائم ہوئی تھی ختم ہوجائے گی پولیس کے خلاف صوبائی حکومت کو بے تحاشا شکایتیں ہیں بار بار آئی جی اور دیگرافسران سے شکایات بھی کی جاتی ہے لیکن شنوائی نہیں ہوتی انہوں نے کہاکہ غربی پولیس سٹیشن میں کمسن شاہ زیب کی خودکشی کےلئے وزیراعلیٰ محمودخان نے جس کمیشن کے قیام کااعلان کیاتھااس پر آئی جی پولیس ناراض تھے کہ یہ معاملہ محکمانہ کارروائی کے ذریعے بھی ممکن بنایاجاسکتاتھااس کےلئے جوڈیشل کمیشن کاقیام ضروری نہیں تھا نئے قوانین کے تحت وزیراعلیٰ کو دیگرمعاملات میں بھی براہ راست مداخلت کاحق مل جائےگا2017ءایکٹ کے مطابق آئی جی پولیس کو خیبرپختونخوا تمام پولیس کے مالی وانتظامی اختیارات دئیے گئے تھے نئی ترامیم کے تحت محکمہ داخلہ کے علاوہ محکمہ خزانہ بھی پولیس بجٹ سے متعلق تبدیلی لاسکتاہے۔

[pullquote]خیبرپختونخواحکومت کا موقف کیاہے۔۔؟[/pullquote]

صوبائی حکومت کے ترجمان کامران بنگش نے بتایاکہ خیبرپختونخواحکومت کسی بھی طورپولیس کی خودمختاری کو نہیں چھیڑرہی لیکن محکمانہ احتساب اورجوابدہی کاعمل بھی ضروری ہے صوبائی حکومت نئے قوانین کے ذریعے کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت کی راہ ہموارنہیں کررہی چیف سیکرٹری کی طرح آئی جی پولیس بھی وزیراعلیٰ کے پرنسپل افیسرزہیں دونوں وزیراعلی کورپورٹ کرتے ہیں نئے قوانین کے تحت پولیس کے متعلق عوامی شکایات کے ازالے کےلئے ایک ایسی اتھارٹی قائم کی جائے گی جودنیاکے ترقیافتہ ممالک پہلے سے قائم کی گئی ہے جمہوری نظام میں اختیارات کسی ایک شخص کی بجائے اشتراک عمل پرمبنی ہوتاہے اس طرح صوبائی حکومت پولیس کوخودمختاررہ کر جدیدتقاضوں کےمطابق قانون سازی کررہی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے