رہے نام ﷲ کا

مجھ کج فہم کے نزدیک تو زندگی اور موت ایک ہی سکے کے دو رخ، ایک ہی پودے کے دو پھل یا پھول اور ایک ہی ساز کی دو مختلف یعنی طربیہ اور المیہ دھنیں ہیں۔زندگی اور موت ایک ہی چہرے کی دو آنکھیں ہیں۔پیدا ہونا کیا ہے ؟عدم سے وجود میں آناموت کیا ہے؟وجود سے عدم کی طرف روانگی لیکن جنگ جاری ہے ۔آج سے صرف ڈیڑھ سو سال پہلے تک کوئی نہیں جانتا تھا مرنے والا مرا کیا؟ لیکن آج یہ کوئی ایشو نہیں ۔دو سو سال پہلے آدمی کی اوسط عمر کتنی تھی لیکن آج کتنی ہے ؟چند روز پہلے ہی میں نے اک شعر کا حوالہ دیا کہ زندگی نام ہے عناصر میں ظہور ترتیب کا اور موت نام ہے انہی عناصر کے بے ترتیب ہو کر بکھر جانے کا۔28مئی کے ’’جنگ‘‘ میں بیک پیج پر اک دو کالمی خبر کی سرخی تھی۔’’انسان 150سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔

محققین کا دعویٰ‘‘’’لافانیت پر بحث۔بڑے ناموں کی موت کا مسئلہ حل کرنے کیلئے بھاری سرمایہ کاری ڈوب گئی‘‘پہلی بات ، جن محققین کا دعویٰ ہے وہ کھوکھلے دعوے نہیں کیا کرتے اور اگر انسان 150سال زندہ رہ سکتا ہے تو200،250، 300 سال کیوں نہیں ؟ یاد کرو کہ رائیٹ برادران کے جہاز کی رفتار اور اڑان کتنی لمبی تھی اور آج حالات کیسے ہیں۔ بہت سی دوسری ٹیکنالوجیز پر بھی بڑی بھاری سرمایہ کاریاں ڈوبی تھیں لیکن ’’جنونی‘‘ نہ پہلے کبھی پیچھے ہٹے نہ اب ہٹیںگے۔ہم سب انسان، انسانوں کی اصل اوقات سے واقف ہیں کہ وہ کبھی آگ ناگ بھی پوجتا رہا۔ رفتار اس کی زیادہ سے زیادہ کتنی تھی ؟ہرن اور چیتے سے بھی بہت کم لیکن آج ؟ انسان کی آواز زیادہ سے زیادہ کتنے ایکڑ عبور کر سکتی تھی لیکن آج کیا ماضی قریب تک کے انسان کو اپنے ’’بلڈ گروپ‘‘ کی کوئی سینس تھی یا فنگر پرنٹس کا کوئی شعور تھا ؟ مختصراً یہ کہ جو واقعی صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات ہیں جستجو میں مصروف رہیں گے ۔انسان جب تک مرتا رہے گا ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش اس کے اندر زندہ رہے گی…..شاید وہ کبھی ’’آب حیات‘‘ تک رسائی حاصل کر لےلیکن تب تک اسے مرنا ہوگا ،مرتے رہنا ہو گا کہ موت بھی زندگی کا ہی دوسرا رخ ہے اور ’’موت کو سمجھے ہے غافل اختتام زندگی‘‘تب تک ہم کچھ بڑے لوگوں کے آخری الفاظ یاد کرتے ہیں جو تاریخ کےسینے میں محفوظ ہیں۔رابرٹ بروس ایک مشہور سکاٹش ہیرو تھا جس پر کچھ بہت عمدہ موویز بھی پروڈیوس کی جا چکی ہیں۔ولیم کو سزائے موت دیئے جانے کے بعد رابرٹ بروس نے بھی سکاٹش جدوجہد کو لیڈ کیا۔

اس کے آخری الفاظ تھے ۔’’بچو!خدا تمہاری حفاظت کرے۔ میں نے تمہارے ساتھ ناشتہ کر لیا اور رات کا کھانا خداوند کے ساتھ کھائوں گا‘‘”WUTHERING HEIGHTS”کی مصنفہ ایمیلےبرونٹے کو کون نہیں جانتا۔اس شہکار پر بھی فلم پروڈیوس کی گئی۔اس نے کہا ’’میں نے تتلیوں کو منڈلاتے ہوئے دیکھا ۔گھاس میںہوا کی سرسراہٹ سنی۔میں سوچتی ہوں کہ کیا کبھی کوئی زندہ شخص مٹی تلے سوئے ہوئے لوگوں کے اضطراب کا تصور کر سکتا ہے ‘‘البسن شہرٔہ آفاق ڈرامہ نگار ہے جسے ناروے میں ہیرو کی سی حیثیت کا درجہ حاصل ہے۔ میں نے اس کے فیورٹ ریستوران میں وہ ’’البسن کارنر ‘‘ بھی دیکھا ہوا ہے جہاں وہ بیٹھا کرتا تھا۔

جب وہ بستر مرگ پر تھا تو اس نے نرس کی آواز سنی جو کسی تیماردار سے کہہ رہی تھی کہ ’’اب البسن کافی بہتر محسوس کر رہا ہے ‘‘ البسن نے اس کی تصیح کرتے ہوئے کہا ’’اس کے برعکس‘‘نوبیل انعام یافتہ اونیل یوجین کا شمار امریکہ کے اہم ترین ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔وہ نیویارک سٹی کے ایک ہوٹل میں پیدا ہوا۔اس کے آخری الفاظ’’ہوٹل میں پیدائش ،ہوٹل میں موت …خدا کی لعنت‘‘ امریکہ کا 43واں صدر اور مشہور جنرل آئزن ہاور رخصتی سے پہلے کہتا ہے ’’میں نے اپنی بیوی، بچوں، پوتوں اور اپنے وطن سے بہت محبت کی ۔اب میں جانا چاہتا ہوں ’’اے خدا مجھے قبول کر‘‘عظیم سائنس دان ایڈیسن بنی نوع انسان کا محسن ہے جس سے ہر انسان مستفید ہو رہا ہے وہ بستر پر دراز تھا جب اس کی دوسری بیوی قریب بیٹھی تھی اس نے پوچھا ….’’ایڈی!تکلیف تو نہیں ہو رہی ؟‘‘ ایڈیسن نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا ۔’’باہر کا منظر بہت خوبصورت ہے ‘‘رہے نام ﷲ کا اور ﷲ کی مخلوق سدا اس کی پہیلیاں بوجھتی رہے کہ اللہ کے نائب کو یہی جستجو زیب دیتی ہے ۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے