جہانگیر ترین فیکٹر

جہانگیر ترین کے تین مطالبات ہیں‘ یہ چاہتے ہیں مجھ پر جتنے الزامات لگے ہیں وزیراعظم مجھ سے ثبوت لے لیں‘ میں نے کوئی منی لانڈرنگ نہیں کی‘ میں نے آج تک جتنی رقم باہر بھجوائی یاپاکستان لے کر آیا میرے پاس ایک ایک پیسے کی منی ٹریل موجود ہے۔

جہانگیر ترین وہ منی ٹریل اپنے ہم خیال گروپ اور وزیراعظم کے نامزد کردہ ثالث علی ظفر کے سامنے بھی پیش کر چکے ہیں‘ علی ظفر اپریل میں ثالث مقرر ہوئے‘ علی ظفر اور جہانگیر ترین کی اس کے بعد لاہور اور اسلام آباد میں آدھ درجن ملاقاتیں ہوئیں۔

ان ملاقاتوں میں ان کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور سابق چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی بھی شامل ہوتے تھے‘ علی ظفر بآواز بلند ایف آئی آر کا پیرا پڑھتے تھے اور شبرزیدی اس پیراگراف کو غلط ثابت کرنے کے لیے تمام ثبوت سامنے رکھ دیتے تھے‘ کاغذات ناقابل تردید تھے اور یہ اس زمانے کے تھے جب جہانگیر ترین اپوزیشن میں تھے۔
ثالثی کی آخری ملاقات مئی کے آخری ہفتے میں اسلام آباد میں ہوئی اور اس ملاقات میں شہزاد اکبر اور جہانگیر ترین دونوں موجود تھے‘ شہزاد اکبر اور علی ظفر دونوں نے اس ملاقات کی تردید کردی لیکن جہانگیر ترین نہ صرف ملاقات کا اعتراف کر رہے ہیں بلکہ یہ ان لوگوں کے نام اوررینک بھی بتاتے ہیں جو میٹنگ کے عینی شاہد ہیں اور جن کی کوشش سے یہ ملاقات ہوئی لہٰذا جہانگیر ترین کا پہلا مطالبہ ثبوت ہیں۔

ان کا کہنا ہے وزیراعظم نے جتنا موقع ذلفی بخاری اور غلام سرور خان کو دیا یہ مجھے بھی خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا اتنا چانس دے دیں‘ میں اگر خود کو کلیئر نہ کر سکا تو یہ بے شک مجھے گرفتار کرا دیں‘ جہانگیر ترین کا دوسرا مطالبہ کریمنل مقدمات ہیں‘ یہ کہتے ہیں میرے اوپر لگے ہوئے الزامات اگر سچ بھی ہیں تو بھی مجھ پر کریمنل کیسز نہیں بنتے‘ میرے اوپر زیادہ سے زیادہ سول مقدمات بن سکتے ہیں یا ایف بی آر یا ایس ای سی پی میرے خلاف تحقیقات کر سکتے ہیں اور میں نے اگر غلط کیا ہے تو یہ مجھ پر جرمانہ کر سکتے ہیں۔

میری گرفتاری نہیں بنتی‘ ہمارے ملک میں کریمنل کیسز شریف لوگوں کو بے عزت کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور پھر ان کی نسلیں عدالتوں میں جوتے گھساتی رہتی ہیں‘ میرے سابق دوست بھی مجھے صرف حوالات اور جیل میں دیکھنا چاہتے ہیں‘ یہ چاہتے ہیں مجھے تین چار ماہ رگڑا لگے اور پھر بے شک ضمانت ہو جائے لیکن میں اس کے باوجود پانچ سات سال عدالتوں میں دھکے کھاتا رہوں ‘ یہ جنرل مشرف کے دور میں عمران خان پر بننے والے اینٹی اسٹیٹ ایکٹوٹیز مقدمات اور نواز شریف کے دور میں پارلیمنٹ حملہ کیس کا حوالہ بھی دیتے ہیں اور کہتے ہیں دونوں حکومتوں نے کپتان پر کریمنل کیسز بنائے تھے اور یہ دونوں مقدمات عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد ختم ہوئے۔

کیا مجھے بھی اپنے خلاف مقدمات سے نکلنے کے لیے وزیراعظم بننا پڑے گا؟ یہ چاہتے ہیں حکومت کو اگر ان کے ثبوتوں پر اعتماد نہیں تو یہ میرے ایشوز ایف بی آر اور ایس ای سی پی کے حوالے کر دے اور یہ ادارے تحقیقات کے بعد فیصلہ کر دیں لیکن کریمنل کیسز کے ذریعے ذلیل کرنا یہ زیادتی ہے اور ان کا تیسرا مطالبہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہے‘ یہ کہتے ہیں وزیراعظم کو اگر میرے پہلے دونوں مطالبے منظور نہیں ہیں تو یہ بے شک میرے خلاف مقدمات چلنے دیں لیکن ان کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرائیں‘ یہ ایف آئی اے کو ہدایت کر دیں عدالت سے ان کا وکیل غائب ہو گا اور نہ ہی یہ تاریخ لے گا‘ حکومت ثبوت اور گواہ پیش کرے اور مجھے اپنے گواہ اور ثبوت پیش کرنے دے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔

وزیراعظم یہ مطالبات مان جائیں گے؟ جہانگیر ترین کے ساتھیوں کا جواب ہے ہمیں انکار ہو چکا ہے‘ علی ظفر کی رپورٹ بھی ترین صاحب کے حق میں تھی مگر وزیراعظم نے یہ رپورٹ بھی ماننے سے انکار کر دیا اور ہمیں پیغام دے دیا گیا ’’آپ جو کرنا چاہتے ہیں آپ کر لیں لیکن این آراو نہیں ملے گا‘‘ یہ لوگ ہنس کر کہتے ہیں ’’ہم انصاف مانگ رہے ہیں این آر او نہیں‘‘ جہانگیر ترین کا ہم خیال گروپ اسد عمر‘ شاہ محمود قریشی اور احتساب کے مشیر شہزاد اکبر کو اس صورت حال کا ذمے دار قرار دیتا ہے‘ یہ لوگ اب کھلے عام کہتے ہیں عمران خان اور جہانگیر ترین ایک جان دو قالب تھے۔

بنی گالہ کی پراپرٹی کا کیس ہو‘ پاناما کیس میں نعیم بخاری کو وکالت پر مجبور کرنا ہو‘ الیکٹ ایبلز کو اکٹھا کر کے پنجاب اور وفاق میں حکومت بنوانی ہو یا پھر شروع کے مہینوں میں حکومت چلانی ہو جہانگیر ترین عمران خان کے بلے کا ہینڈل تھے لیکن پھر چند لوگوں نے یہ بلا توڑ دیا‘میں نے وجوہات پوچھیں تو مجھے جواب دیا گیا جہانگیر ترین وزیراعظم آفس سے بار بار پوچھتے تھے وزیراعظم کی سمریاں اور آرڈرز میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟ لوگ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔

ہم سے کروڑوں لوگوں کی توقعات وابستہ ہیں‘ ہم اگر سمریاں روک کر بیٹھ جائیں گے تو لوگ ہمارا محاصرہ کر لیں گے‘ یہ اسد عمر پر بھی تنقید کرتے تھے چناں چہ ان لوگوں نے وزیراعظم کو یہ کہنا شروع کر دیا ’’سر ملک میں وزیراعظم ایک ہی ہوتا ہے‘ بیوروکریسی اختیارات کی تقسیم پر پریشان ہے‘‘ وزیراعظم یہ سنتے رہے اور ایک دن یہ مکمل وزیراعظم بن گئے اور جہانگیر ترین کا بستر گول ہو گیا‘ جہانگیر ترین کے ساتھی کہتے ہیں پارٹی کو اقتدار تک پہنچانے کا نوے فیصد کام ترین صاحب نے سرانجام دیاتھا‘ یہ اگر اداروں کی مدد نہ لیتے‘ یہ اگر الیکٹ ایبلز اکٹھے نہ کرتے اور یہ اگر یوں کھل کر پارٹی کی اخلاقی‘ سیاسی اور معاشی مدد نہ کرتے تو ہم اس بار بھی اقتدار تک نہ پہنچ پاتے‘ ترین صاحب 20 گھنٹے کام کرتے تھے جب کہ عمران خان ایکسرسائز اور تقریریں کیا کرتے تھے اور انٹرویوز دیا کرتے تھے‘‘۔

میں نے جہانگیر ترین کے ایک قریبی دوست اور ساتھی سے پوچھا ’’کیا آپ دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہیں جہانگیر ترین نے چینی سکینڈل میں پیسے نہیں بنائے‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’میں چند لمحوں کے لیے آپ کی بات مان لیتا ہوں‘آپ مجھے صرف تین سوالوں کا جواب دے دیں‘ کیا صرف ترین صاحب سبسڈی اور چینی کی قیمت کے بینی فشری ہیں۔

اگر دوسرے لوگ بھی ہیں تو کیا ان کو گرفتار کیا گیا یا ان کے خلاف کریمنل کیسز بنائے گئے؟دوسرا حکومت نے چینی میں سبسڈی دو سال دی تھی‘ فرض کریں ترین صاحب نے ’’مینو پلیٹ‘‘ کر کے پہلے سال فائدہ لے لیا‘ یہ پکڑے گئے اور آپ نے انھیں نکال دیا لیکن آپ نے اگلے سال سبسڈی کیوں دے دی اور تیسرا سوال‘ آپ نے ترین صاحب کے خلاف مقدمات بنا دیے لیکن اس کے باوجود چینی کی قیمت نیچے کیوں نہیں آئی؟ اگر ذمے دار ترین صاحب تھے تو ان کی فائل کھلنے کے بعد چینی کی قیمت نیچے آ جانی چاہیے تھی‘ آپ اس سلسلے میں راولپنڈی رنگ روڈ کی مثال لے لیں‘ حکومت کی رپورٹ آئی‘ ملزموں کے خلاف تحقیقات شروع ہوئیں تو رنگ روڈ کی تمام ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی مارکیٹ کریش کر گئی جب کہ کمیشن اور ترین صاحب کے مقدمات کے باوجود چینی کی قیمتیں نیچے نہیں آئیں۔

اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے چینی کے پیچھے ترین صاحب کا ہاتھ نہیں تھا‘ یہ حکومت کی مس مینجمنٹ ہے‘ آپ چینی کو چھوڑیں آپ گندم کو دیکھ لیں‘ کیا وزیراعظم نے آج تک اپنے وزراء سے پوچھا ہم نے کسانوں سے 35 روپے کلو گندم خریدی تھی لیکن آٹا 80 روپے کلو کیوں بک رہا ہے؟ کیا یہ بھی جہانگیر ترین کی وجہ سے ہوا؟‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ لوگوں کا اب اگلا لائحہ عمل کیا ہے؟‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’جہانگیر ترین کی گرفتاری کا حکم آ چکا ہے‘ حکومت انھیں ہر صورت جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتی ہے‘ ہم نے فیصلہ کیا ہے ہم یہ حکم آسانی سے برداشت نہیں کریں گے‘ ترین صاحب کے جیل جانے کے بعد پنجاب حکومت ختم ہو جائے گی‘ ہم لوگ عثمان بزدار کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔

یہ ہمارا پہلا قدم ہو گا‘ دوسری اسٹیج پر ہم سپریم کورٹ میں جہانگیر ترین کی نااہلی چیلنج کریں گے‘ ہمیں یقین ہے سپریم کورٹ ہماری ریکویسٹ سنے گی اور اگر ترین صاحب کی نااہلی کا فیصلہ ری ورس ہو گیا تو ہم انھیں کسی بھی حلقے سے الیکشن لڑا کر پارلیمنٹ میں لے آئیں گے اور یہ اپنی نئی پارٹی بنائیں گے‘‘ میں نے ہنس کر کہا ’’مگر یہ آپ ریاست کی مدد کے بغیر نہیں کر سکیں گے اور ریاست سردست عمران خان کے ساتھ ہے‘‘ وہ ہنس پڑے اور بولے ’’کیا آپ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہیں‘‘ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا‘ یہ بولے ’’کیا آپ کو ہمارے وجود کے بعد بھی کوئی شک ہے‘ ہم سب الیکٹ ایبلز ہیں اور الیکٹ ایبلز ہمیشہ ریاست کے ساتھ ہوتے ہیں‘‘ میں خاموش ہو گیا‘ میں نے پوچھا ’’کیا ن لیگ کا آپ کے ساتھ رابطہ ہے‘‘ یہ بولے ’’ہرگز نہیں‘ ن لیگ عثمان بزدار کو نہیں ہٹانا چاہتی‘ یہ جانتی ہے اگر پنجاب میں کوئی تگڑا وزیراعلیٰ آ گیا تو یہ 2023میں ن لیگ کو ڈینٹ ڈالے گا لہٰذا یہ بزدار صاحب کو پانچ سال پورے کرانا چاہتے ہیں‘ عثمان بزدار لکی ہیں۔

ان کی ذات پر وزیراعظم اور نواز شریف دونوں متفق ہیں‘‘ میری ہنسی نکل گئی‘ میں نے عرض کیا ’’آپ لوگ اگر پنجاب حکومت گرا دیتے ہیں تو یہ وزیراعظم کو سوٹ کرے گا‘ یہ قوم کو روز مافیاز کا بیانیہ دے رہے ہیں‘ آپ یہ بیانیہ سچ ثابت کر دیں گے لہٰذا یہ تقریرکریں گے‘ قوم کو اعتماد میں لیں گے اور پنجاب‘ کے پی کے‘ بلوچستان اور وفاق کی اسمبلیاں توڑ دیں گے اور فریش مینڈیٹ لے کر واپس آ جائیں گے‘‘ یہ سنجیدہ ہو کر بولے ’’ہاں ہم جانتے ہیں لیکن اسمبلیاں ٹوٹنا اسٹیبلشمنٹ اور پارٹی دونوں کو سوٹ نہیں کرتا لہٰذا یہ دونوں وزیراعظم کو یہ موقع نہیں دیں گی‘‘ میں نے پوچھا ’’اب ہو گا کیا؟‘‘ یہ یقین سے بولے ’’جہانگیر ترین کی گرفتاری گاڑی کا انجن کھول دے گی اور اس کے بعد اسے دوبارہ بند نہیں کیا جا سکے گا‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے