نور الہدیٰ شاہ‘ادب اور مزاحمت(مکمل کالم)

یہ اسلام آباد کی ایک مہکتی ہوئی رات تھی اور پروفیسرفتح محمد ملک صاحب کا گھر جہاں نور الہدیٰ شاہ ‘ حارث خلیق‘ رؤف کلاسرا اور طاہر ملک شریکِ محفل تھے ۔نور الہدیٰ شاہ روایتی عجز کے ساتھ ہماری باتوں کا جواب دے رہی تھی ۔ میں نے دیکھا جب بھی کوئی تعریفی جملہ کہتا تو نور الہدیٰ بات بدل دیتی اور میں سوچ میں پڑ جاتا کیا یہ وہی نور الہدیٰ ہے جس نے اپنے قلم سے شمشیر کا کام لیا تھا ‘ ادب کو مزاحمت کا پرچم بنا لیا تھا اور فرسودہ روایتوں کے بت توڑ ڈالے تھے ۔مجھے80 ء کی دہائی کا زمانہ یاد آگیا ۔ وہ بھی کیا دلربا زمانہ تھا میں گورڈن کالج سے ایم اے انگلش کر چکا تھا اور راولپنڈی کے ایک قدیم اور تاریخی کالج گورنمنٹ کالج اصغر مال میں پڑھا رہا تھا ۔ شاید وہ 1983ء کا سال تھا جب میں نے اصغر مال کالج چھوڑ کر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں ملازمت کا آغاز کیا تھا ۔ انہی دنوں کی بات ہے جب پی ٹی وی پر ایک نئے ڈرامے کا آغاز ہونے جا رہا تھا جس کا نام ”جنگل‘‘ تھا اور اس کی لکھاری کا یہ پہلا ڈرامہ تھا ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب نہ توچینلز کی بھرمار تھی اور نہ ہی ڈراموں کا ہجوم۔ ٹی وی پر صرف ایک چینل ہوا کرتا تھا جس پر ہفتے میں ایک ڈرامہ چلتا تھا جس کا سب بے تابی سے انتظار کرتے تھے۔یہ زمانہ بڑے ڈرامہ نگاروں کا زمانہ تھا جن میں اشفاق احمد‘بانو قدسیہ حسینہ معین ‘ فاطمہ ثریا بجیااور امجد اسلام امجد شامل تھے جن کے ڈراموں نے قبولیتِ عام کی سند حاصل کر لی تھی۔ ان مقبول ناموں میں نور الہدیٰ شاہ کا نام بالکل نیا تھا۔ نورالہدیٰ نے پی ٹی وی کی فرمائش پرڈرامہ لکھ تو دیا تھا لیکن اس کے دل میں اضطراب کی ایک لہر ڈوبتی اور ابھرتی رہی۔ کیا اس کاڈرامہ لوگوں کی توجہ حاصل کر سکے گا؟ کیا ڈرامے کے اتنے قد آور ناموں میں وہ اپنی جگہ بنا سکے گی ؟

اس نے کراچی میں اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر پھیلی ہوئی دھوپ کو دیکھا۔ تب اسے لاہور کے زندگی سے دھڑکتے گلی کوچے یا د آگئے۔ اس کے ساتھ ہی لاہور کے وہ شب و روز جو اس نے شہرِ بے مثال میں گزارے تھے۔ اس نے کرسی پر سر ٹکاکر آنکھیں بند کر لیں اور لاہور میں بِتائے ہوئے دن آنکھیں جھپکتے ہوئے اس کے پہلو میں آ بیٹھے‘ جب اس کے والد سرکاری ملازم تھے اور لاہور میں تعینات تھے جہاں نور الہدیٰ کا سارا بچپن گزرا ۔ لگ بھگ پندرہ برس وہ لاہور کی آغوش میں پلی بڑھی۔ یوں اردو اور پنجابی سے اس کی آشنائی ہوگئی لیکن اپنی مادری زبان سندھی پڑھنے اور لکھنے میں دشواری تھی ۔اسے بچپن کے وہ نٹ کھٹ دن یاد آ گئے اور اس کے ہونٹوں پر خود بخود مسکراہٹ پھیل گئی۔ ایک طویل عرصے تک وہ گھر کا تنہا بچہ تھی اس لیے ماں باپ کے پیار کا مرکز تھی۔ اس کے کھیل بھی دلچسپ تھے۔ گڑیوں سے کھیلنے کے بجائے اسے درختوں پر چڑھنا‘ پتنگوں کے پیچھے بھاگنا اور ہاکی کھیلنا پسند تھا۔ والدہ کو شعر و ادب سے دلچسپی تھی اور وہ شاہ لطیف کا کلا م اکثر گنگناتی رہتیں۔انہوں نے گانے کی باقاعدہ تربیت تو حاصل نہیں کی تھی لیکن انہیں سُرتال کا بخوبی علم تھا ۔ قدرت نے ا نہیں آواز بھی خوب دی تھی ‘وہ اپنی مدھر لے میں جب شاہ لطیف کی کافی پڑھتیں تو یوں لگتا جیسے وقت ٹھہر گیا ہو ۔ان کا تعلق ایک فیوڈل خاندان سے تھا‘ یوں وہ ان روایات کا احترام بھی کرتی تھیں لیکن دوسری طرف ان کے اندر شعر و ادب کا ذوق ان کے روح کے پرندے کو ہر لحظہ کھلی فضائوں میں پرواز کی دعوت دیتا رہتا۔

ان کی گفتگو میں ڈرامے کا آہنگ تھا۔ ان کی باتیں جیسے گھڑے گھڑائے مکالمے ہوتے۔ یوں گھر کے ماحول نے نور الہدیٰ کو لکھنے کی طرف مائل کیا ۔ایک بار سکول میں اس نے اپنی نوٹ بک پر ایک نظم لکھی اور بھول گئی۔ ایک روز سکول میں ٹیچر بچوں کی کاپیاں چیک کر رہی تھی اچانک اس کی نظرنظم پر پڑی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بلایا تو نور الہدیٰ ڈر گئی۔ٹیچر نے سہمی ہو ئی نورالہدیٰ کو دیکھا تو ہنس پڑی اور پیار سے اس کے گال تھپتھپاتے ہوے کہا: تم نے بہت اچھی نظم لکھی ہے‘یہ داد نورالہدیٰ کے لیے ایک بہت بڑا انعام تھی۔وہ دن اور اس استاد کی محبت بھری داد کی خوشبو نورالہدیٰ کی زندگی میں ہمیشہ مہکتی رہے گی۔وقت دبے پاؤں گزر رہا تھا۔ لاہور کی ادبی فضائیں غیر محسوس طریقے سے اس کی ذہنی پرورش کر رہی تھیں۔اس وقت اس کی عمر صرف بارہ سال ہو گی جب اس نے ناول لکھنے کی ٹھانی۔یہ ایک رومانوی ناول تھا۔والد صاحب کی نظر اس ناول پر پڑی تو انہیں بیک وقت حیرت ‘مسرت اور پریشانی ہوئی ۔انہوں نے بیٹی کو پیار سے سمجھایا کہ ناول تو خوب صورت ہے لیکن یہ تمہاری عمر سے بڑا ناول ہے۔اس طرح کی تحریرکے لیے تمہیں کچھ عرصہ اور انتظار کرنا ہوگا۔دلچسپ بات یہ تھی کہ نورالہدیٰ کی یہ ساری تحریریں اُردو میں تھیں۔سندھی جو اس کی مادری زبان تھی اس کا پڑھنا اور لکھنا اسے دشوار لگتا تھا۔ان دنوں ان کے گھر میں ایک سندھی اخبار آتا تھا۔نورالہدیٰ کے والد نے کہا :نورالہدیٰ تمہیں سندھی اخبار پڑھنا چاہیے۔کم ازکم اخبار کی ہیڈ لائنز پڑھ لیا کرو۔یوں اس کا سندھی زبان اور سندھی ادب کے مطالعے کا سفر شروع ہوا۔

پندرہ سال لاہور کی فضاؤں میں رہنے کے بعد جب وہ والدین کے ساتھ حیدر آباد آئی تو یہاں دنیا ہی مختلف تھی۔والدہ کا تعلق ایک فیوڈل خاندان سے تھا جہاں روایات کا کڑا پہرہ ہوتا ہے۔ان کا تعلق سادات خاندان سے تھا‘لوگ انہیں ملنے کیلئے آتے‘ پاؤں چھوتے اور پھر فرش پر بیٹھ جاتے۔نورالہدیٰ کیلئے یہ سب کچھ نیا تھا۔لیکن اس کی دنیا اس کی کتابیں تھیں۔اب اس نے سندھی زبان میں کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا۔اس کی پہلی ہی کہانی نے ادبی دنیا کو چونکا دیا۔اس کا موضوع اور اسلوب سب سے منفرد تھا ‘اور پھر وہ وقت بھی آگیاجب نورالہدیٰ کی کہانیوں کی کتاب”جلاوطن ‘‘ منظرعام پر آئی اور سندھ کے ادبی منظر نامے پرنورالہدیٰ کی ایک معتبر سندھی افسانہ نگار کے طور پر پہچان ہوئی۔شہرت کے معاملے میں نورالہدیٰ خوش قسمت واقع ہوئی‘ بائیس تئیس سال کی عمر میں سندھی ادب میں ایک ممتاز مقام حاصل کرنا اس کے لیے بھی حیر ت کی بات تھی کہ نورالہدیٰ نے سندھی لکھنا اور پڑھنا دیر سے سیکھا تھا۔ ”جلاوطن‘‘ کی کہانیوں میں سماجی حد بندیوں اور ناانصافیوں کے خلاف مزاحمت تھی‘ جاگیردارانہ نظام کے خلاف بغاوت تھی۔یوں نورالہدیٰ کی تحریریں سندھی معاشرے میں ایک جرأت مند آواز بن کر ابھریں اور لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئیں۔

گھر سے باہر تو مقبولیت کا یہ عالم تھالیکن گھر کے اندر کا معاملہ مختلف تھا۔ جب لوگ اس کی کہانیاں ماں کو لاکر دکھاتے تو ماں خوش ہونے کے بجائے پریشان ہو جاتی اور کبھی کبھار تو رو دیتی۔اس کی بڑی وجہ ماں کا جاگیردارانہ پس منظر تھا۔ماں جانتی تھی کہ جرأت مندانہ اور روایات سے باغی تحریریں لکھنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ پھر اسے پی ٹی وی سے ایک ڈرامہ سیریز لکھنے کی پیش کش ہوئی۔اس نے چیلنج سمجھ کر اسے قبول کر لیا۔یہ 1983ء کا سال تھا۔انہی دنوں ہم نے ٹی وی پر ایک نئے ڈرامے کا اشتہار دیکھا جس کا نام ”جنگل‘‘ تھااور جس کی لکھاری سندھ کی نورالہدیٰ شاہ تھیں۔ڈرامے کی دنیا میں یہ ایک نیا نام تھا۔ان دنوں ہفتے میں ایک ڈرامہ ہی ہماری تفریح تھی۔ہم سب ”جنگل‘‘ کی راہ تکنے لگے ۔آخر وہ دن ہی آگیا جس کا سب کو انتظار تھا۔ آج ”جنگل‘‘ ڈرامے کی پہلی قسط نشر ہونے جا رہی تھی۔آج چھبیس سالہ نورالہدیٰ کے امتحان کا دن تھا۔اس امتحان کے نتیجے نے اس کے مستقبل میں اہم کردار ادا کرنا تھا۔

نورالہدیٰ شاہ کے ڈرامے ”جنگل‘‘ کی شہرت جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ لوگوں کے لیے یہ خوش گوار حیرت کی بات تھی کہ بڑے بڑے ڈرامہ نگاروں کے درمیان نورالہدیٰ شاہ نے ڈرامے میں ایک نئی روایت کی بنیاد رکھی تھی۔ ڈرامے کی ہدایات ہارون رند نے دی تھیں اور اداکاروں میں شفیع محمد، نور محمد لاشاری، سکینہ سموں، منصور بلوچ، عثمان پیرزادہ، اسمٰعیل شاہ، محمود علی شامل تھے۔ یہ ایک روایت شکن لکھاری کا ایک روایت شکن ڈرامہ تھا۔ اس کے بعد تو نورالہدیٰ کے ڈراموں کی ایک لمبی قطار ہے جس میں ہر ڈرامہ اپنی مثال آپ ہے۔ چند ڈراموں کے نام مجھے یاد آرہے ہیں‘ جن میں ماروی، تپش، اب مرا انتظار کر، حوا کی بیٹی اور آسمان تک دیوار شامل ہیں۔

نورالہدیٰ شاہ کے ڈراموں کی خاص بات سماجی مسائل کے حوالے سے ان کا گہرا مشاہدہ اور مکالمہ نگاری پر فنکارانہ گرفت ہے۔ نورالہدیٰ کا سماجی شعور ان کے فن میں رچ بس گیا ہے۔

جنگل ڈرامے نے جہاں ایک طرف ہم جیسے ٹیلی ویژن ڈرامے دیکھنے والوں کے دل موہ لیے تھے‘ وہیں اس نے جاگیردارانہ طبقے پر کاری وار کیا بھی تھا۔ نورالہدیٰ شاہ کو مخالفت کی یہ تپش اپنے ارد گرد محسوس ہو رہی تھی اور پھر ایک روز سادات کی انجمن کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ نورالہدیٰ شاہ کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے۔ لیکن نورالہدیٰ تو کسی اور مٹی کی بنی ہوئی تھی۔ کوئی سماجی دباؤ اس کی سوچ کو اسیر نہ کر سکا، نہ ہی کوئی دھمکی اس کے قلم کے بانکپن کو کجلا سکی۔

تب ایک خوش گوار واقعہ رونما ہوا۔ نورالہدیٰ کی والدہ‘ جو ہمیشہ سے اس کے لکھنے کے خلاف تھیں‘ جنگل ڈرامہ دیکھنے کے بعد اپنی بیٹی اور اس کی تحریروں پر فخر کرنے لگیں۔ جنگل کی تاثیر لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئی تھی۔ میں نے نورالہدیٰ سے پوچھا: آپ کی والدہ جنگل کے بعد یکایک آپ کی تحریروں کے حق میں کیسے ہو گئیں۔ نورالہدیٰ کی آنکھوں میں مسکراہٹ کے بھنور پڑنے لگے۔ ہاں یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ میرے والد اور والدہ کا اکثر وقت مدینہ منورہ میں گزرتا تھا۔ وہ سچے عاشقِ رسولؐ تھے۔ ایک بار وہ جہاز میں سعودی عرب سے پاکستان آرہے تھے۔ دورانِ پرواز وہ آپس میں سندھی زبان میں گفتگو کر رہے تھے کہ ایک ایئرہوسٹس ان کے پاس آکر رُکی اور ان سے سندھی زبان میں پوچھنے لگی: آپ سندھ میں کہاں رہتے ہیں؟ جب اسے معلوم ہوا کہ وہ حیدر آباد کے رہنے والے ہیں تو اس نے معمول کا اگلا سوال کیا کہ ان کی ذات کیا ہے؟ جب اسے پتا چلا کہ وہ سادات خاندان سے ہیں تو ایئرہوسٹس نے ان سے پوچھا: پھر تو آپ نورالہدیٰ شاہ کو جانتے ہوں گے۔ نورالہدیٰ کے ماں باپ نے ایک دوسرے کو دیکھا‘ پھر والدہ نے محبت سے بتایا نورالہدیٰ میری بیٹی ہے۔ اب ایئرہوسٹس کے چونکنے کی باری تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر والدہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا‘ جُھک کر اس کو بوسہ دیا اور پھر والدہ سے کہا: آپ خوش قسمت ہیں نورالہدیٰ آپ کی بیٹی ہے۔ پھر وہ بولی: آپ گھر جائیں گے تو نورالہدیٰ کو بتائیے گا‘ میں نے اس کے ہاتھ پر بوسہ دیا ہے۔ مجھے یہ واقعہ سُناتے ہوئے نورالہدیٰ کی بڑی بڑی آنکھیں بھیگ گئیں۔ چاہنے والوں کی بے لوث محبت سے بڑا اعزاز کیا ہو سکتا ہے۔

اسلام آباد کی رات بھیگ رہی تھی۔ میں نے نورالہدیٰ سے پوچھا: کبھی آپ کو لگا کہ آپ کی تحریروں اور ڈراموں سے واقعی سماج میں کسی سطح پر کوئی تبدیلی آئی ہے۔ نورالہدیٰ نے گلاس میں سافٹ ڈرنک انڈیلی اور ایک لمبا گھونٹ لینے کے بعد کہا: دیکھیں سماجی تبدیلی ناپنے کو کوئی پیمانہ تو نہیں‘ لیکن آپ کو ایک واقعہ سُناتی ہوں۔ کراچی کا واقعہ۔ ایک بار میں اپنی والدہ کے پاس گئی تو انہوں نے کسی کو بھیجا کہ ہمسائے میں اُس عورت کو بُلا لائے جسے نورالہدیٰ سے ملنے کا بہت شوق تھا۔ وہ عورت آئی تو اس کے ہمراہ کوئی سال بھر کی ایک بچی تھی۔ نورالہدیٰ کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ ایک عرصے سے اس سے ملنا چاہ رہی تھی۔ پھر اس عورت نے اپنی کہانی سُنائی کہ کیسے وہ جاگیردارانہ نظام کا شکار تھی۔ اس کے ماں باپ کی حویلی کی اونچی دیواریں تھیں اور اسے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ خاندان میں لڑکیوں کی شادی کی کوئی روایت نہ تھی۔ انہی دنوں جنگل ڈرامہ ٹی وی پر چل رہا تھا اور اس کا بھائی‘ جو کراچی میں رہتا تھا‘ یہ ڈرامہ باقاعدگی سے دیکھتا تھا۔ ڈرامہ دیکھ کر اس کے ذہن نے فرسودہ جاگیردارانہ روایت سے بغاوت کی۔ وہ ایک روز گاؤں حویلی میں آیا اور بہن سے کہا: اگر تُم چاہو تو کراچی میں مَیں نے خالہ زاد بھائی سے بات کی ہے۔ لڑکی نے اقرار میں سر ہِلا دیا۔ اس رات دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے حویلی اور گاؤں سے دور کراچی آگئے۔ جہاں اس کی شادی اپنے خالہ زاد بھائی سے کر دی گئی۔ پھر ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ اپنی کہانی سُنانے کے بعد اس عورت نے نورالہدیٰ سے پوچھا: آپ میری بیٹی کا نام نہیں پوچھیں گی؟ میں نے اس کا نام نورالہدیٰ رکھا ہے۔ یہی وہ نام ہے‘ جس کا یہ انعام ہے۔ یہ واقعہ سُناتے ہوئے نورالہدیٰ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور وہ کہنے لگیں: ایک لکھنے والے کے لیے اس سے بڑا انعام کیا ہو سکتا ہے؟

میں نے موضوع بدلتے ہوئے کہا: ادب اور موسیقی کا شوق آپ کے نانا، والدہ اور آپ تک پہنچا۔ کیا آپ کے بچوں کو بھی کتاب اور موسیقی کا شوق ہے؟ اس پر نورالہدیٰ نے قہقہہ لگایا اور بولیں ”لیں میں آپ کو ایک مزے کی بات بتاؤں۔ جیسا کہ میں نے پہلے آپ کو بتایا کہ مری والدہ کو موسیقی کا حد درجہ شوق تھا اور وہ شاہ لطیف کی کافیاں اکثر گایا کرتی تھیں۔ ایک بار میں اپنے بچوں کے ہمراہ ان کے پاس گئی۔ ان دنوں وہ مدینہ منورہ میں رہتی تھیں۔ ایک روز میں بچوں کو ان کے پاس چھوڑ کر بازار گئی۔ واپس آئی تو وہ ناراض بیٹھی تھیں۔ میں پریشان ہوگئی۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا: تم نے اپنے بچوں کو کچھ نہیں بتایا؟ میں نے خالی نگاہوں سے ان کو دیکھا۔ وہ بولیں: تم بازار گئی ہوئی تھی تو میں نے تمہارے بیٹے سے پوچھا: تمہیں کافی آتی ہے تو اس نے جواب دیا: جی آتی ہے‘ آپ کون سی پئیں گی؟ دودھ والی یا دودھ کے بغیر۔ اماں کی یہ بات سُن کر پہلے تو میں خوب ہنسی اور پھر سنجیدہ ہو گئی۔ اس کے بعد میں نے خاص طور پر اس بات کا اہتمام کیا کہ میرے بچوں کا کتاب اور اپنی تہذیب سے رشتہ استوار ہو اور شکر ہے کہ میرے بچوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔ میں نے کہا: مجھے بہت دیر میں پتا چلا آپ شاعرہ بھی ہیں۔ میری خواہش ہے کہ آپ اپنی کوئی نظم سُنائیں اور اس پر اس رات کا اختتام ہو۔ نورالہدیٰ نے کہا: زبانی تو مجھے کچھ بھی یاد نہیں‘ اپنے موبائل فون میں دیکھتی ہوں۔ میں ہمہ تن گوش تھا۔ نورالہدیٰ نے نظم سُنانا شروع کی۔ یہ ایک طویل نظم تھی‘ جس کا عنوان تھا ”عالی جاہ، میں باغی ہو گیا ہوں‘‘ اس نظم کی آخری سطریں کچھ یوں تھیں:
اُٹھ اے سنگ ریزۂ راہگزر/ ابابیلوں کی چونچ میں خود کو بھر/ اور سنگ و خشت کی برسات بن/ عالی جاہ مرا دماغ باغی ہو گیا ہے‘‘۔

اس روز میں نے نورالہدیٰ کی مزاحمتی شاعری سنی اور حیران رہ گیا۔ میں تو اسے افسانہ نویس اور ڈرامہ نگار کے طور پر جانتا تھا۔ میں نے نورالہدیٰ سے پوچھا: اگر آپ سے اب ڈرامہ لکھنے کا کہا جائے تو آپ کا کیا ردِ عمل ہو گا؟ نورالہدیٰ نے ایک لمحے کو اپنی آنکھیں بند کیں‘ چار دہائیوں کا سفر اس کی نگاہوں میں زندہ ہو گیا۔ پھر مجھے دیکھ کر کہنے لگیں: آج کا ڈرامہ میں نہیں لکھ سکتی۔ آج کے دور میں لکھنا اوّل و آخر کاروبار ہے۔ اس سے بہتر ہے اس دوران میں کچھ پڑھ لوں۔ اب نصف شب گزر چکی تھی اور اگلے روز نورالہدیٰ نے واپس کراچی جانا تھا۔ میں نے رخصت چاہی۔ واپسی کے سفر میں میرے ہمراہ اسلام آباد کی رات کی مہک تھی اور نورالہدیٰ سے گفتگو کی چاندنی‘ جو گئے دنوں کے شب و روز سے کشید کی گئی تھی۔

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے