صرف یونیورسٹی دو، پانی دو ، گوادر کے شہریوں کا مطالبہ

ہمارے ہاں عموما یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ گوادر کی عوام حد سے زیادہ پُرامن اور شریف النفس شہری ہیں، وہ بہت ہی کم اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلتے ہیں مگر تاریخ گواہ ہیکہ کہ جب بھی وہ نکلے ہیں تو کچھ لیکر واپس ہی لوٹ جاتے ہیں ۔ اگر اس بارے میں کوئی میرا رائے لے تو میں کہوں گا کہ اسوقت اپنے بنیادی سماجی حقوق کے لیے اگر کوئی موثر انداز میں بروقت پرامن عوامی مزاحمت کاراستہ اختیار کرنا جانتا ہے تو وہ گوادر کی ہی عوام ہے ۔ جس منظم اور نظم و نسق سے عوامی احتجاج کا اعتمام کیا جاتا ہے بلکل شروع سے آخر تک کسی بھی شرکا سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوجاتی کہ جس سے شرکا ، عام شہری یا انتظامیہ کو تکلیف ہو۔

آج سے دو دہائی سال قبل پانی بحران کے خلاف عوامی احتجاج کے دوران انتظامیہ کی جانب سے ریلی کے شرکا پر فائرنگ کے نتجے میں جیونی سے تعلق رکھنے والی بی بی یاسمین شہید ہوگئی۔ آج بھی گوادر میں کوئی بھی ریلی نکالی جاتی ہے تو شہید یاسمین کی واقع ضرور یاد آجاتی ہے۔ آج سے ایک سال قبل تربت کے علاقے ڈنُک میں جب برمش کا واقع پیش آیا تو سب سے پہلے اس کا عوامی ردعمل گوادر سے اُسوقت آیا جب جوشیلا مقرر اور سیاسی کارکن وڈیلا صاحب نے گوادر کے عوام کو ایک تحریک کی شکل میں اکھٹا کر کہ اس واقعے کی ناصرف مذمت کی بلکہ اس ریلی کے بعد برمش کے واقع کو ملک گیر سطح پر ہر فورم پر زیربحث لانے پر مکاتب فکر مجبور ہوگئے۔

اسوقت گوادر میں صرف یونیورسٹی آف تربت کا ایک سب کیمپس ہے ، گودار کی عوام عرصہ دارز سے مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ ہمیں ایک یونیورسٹی دی جائے، وہ اسی انتظار میں تھے کہ موجودہ بجٹ میں گودار یونیورسٹی کا اعلان کیا جائے گا مگر فلحال موجودہ حکومت کی ترجیحات میں تعلیم اور روزگار شام نہیں ہے، عوام چاہے کچھ بھی کر لے۔

اسی ردعمل میں اپنے بنیادی شہری حقوق کے لیے گودار کی عوام نے ایک بار پھر پرامن عوامی مزاحمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے بہت ہی کم وقت میں نوجوانوں نے ایک کال پر ہزاروں لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے منظم کرتے ہوئے ایک شاندار ،( امن واک) کا اعتمام کیا گیا۔ شرکا میں اکثریت نوجوان تھے ، اپنے روشن مستقبل کے لیے چند خواب لیکر اس دنیا میں پیدا ہوئے تھے مگر انکی جوانی کے خوبصورت دن تو احتجاج اور ریلیوں میں گزر رہے ہیں ۔

جب ہم ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کی خبروں میں سی پیک کے تحت گودار کی ترقی و خوشحالی کی تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے مگر جب ہم زمینی حقائق کا جائزہ لیتے ہیں تو گراؤنڈ پر چیزیں بلکل حقائق کے برعکس ہیں۔

سیاسی معاملے میں گوادر کے لوگ انتہائی پرامن ہیں، وہ کسی بھی صورت حال میں متشدد راستہ اختیار کرنے کے حامی نہیں ہیں ، وہ تشدد کا راستہ اختیار کرنا بھی جانتے ہیں مگر وہ پرامن رہنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ۔ وہ جب بھی اپنے حقوق کے لیے نکلتے ہیں وہ پرمنظم انداز میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں عوام کی شرکت ہوتی ہے۔ گودارکےنوجوان اور بزرگ اگر اتنی بڑی جلوس صرف اس لیے نکالتے ہیں کہ ہمیں صرف یونیورسٹی چاہیے تواسمیں حکمرانوں کا کیاجاتاہے؟ اب تک تو یہ ایک پرامن واک ہے،تاریخ گواہ ہیکہ ماضی میں اسطرح کے جائز مطالبات کو نظزرانداز کرنے کے بہت ہی شدید قسم کے ردعمل سامنے آئے تھے۔ اب بھی وقت ہے کہ گوادر کے عوام کے جائز مطالبات یونیورسٹی دو ، پانی دو ، روزگار کے مطالبات کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا جائے ۔ اب تک تو عوام پرامن طریقے سے حکمرانوں سے مطالبہ کر رہے ہیں ، جس دن گودار کے عوام نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ حکمران پرامن طریقے سے کچھ دینے والے نہیں ہیں تو عوام کی اگلی حکمت عملی کیا ہوگی ؟ کیا پھر حکمران عوام کو قابو کر پائے گا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے