سرمایہ داری نظام، جیب تراشی کا نظام!

مغربی ملکوں میں جمعہ کی شام کو لانگ ویک اینڈ شروع ہو جاتا ہے اور اتوار کی شام کو اس کا خاتمہ بالخیر، سرمایہ دار ملوں کا صنعتکار بہت چالاک ہوتا ہے وہ جمعہ کی شام کو آپ کو ہفتے بھر کی مزدوری آپ کے ہاتھ میں تھماتا ہے اور اتوار کی شام تک آپ سے سارے پیسے واپس لے لیتا ہے۔ اس نے آپ کو کریڈٹ کارڈ دیا ہوتا ہے اور نت نئی مصنوعات کی یلغار بذریعہ پبلسٹی آپ کے دل و دماغ پر کر دی جاتی ہے چنانچہ سرمایہ دار نے جمعہ کی شام کو ہفتے بھر کی محنت کا جو معاوضہ آپ کو دیا ہوتا ہے وہ اتوار کی شام تک آپ سے واپس ہتھیا لیتا ہے۔

آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں، ایک انویسٹر کوئی نیا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے اس کے ذہن میں جوتوں کا کارخانہ لگانے کا منصوبہ ہے مگر مارکیٹ میں جوتوں کی بھرمار ہے چنانچہ وہ سوچتا ہے کہ اس میں کوئی اختراع ہونی چاہئے، وہ جوتے کے تلوے میں ایک گھنٹی لگا دیتا ہے اور اسے BELL SHOEکا نام دیتا ہے اس کے بعد آپ جب کبھی ریڈیو آن کرتے ہیں وہاں بیل شوز بیل شوز کی صدائیں پبلسٹی کی صورت میں سنائی دے رہی ہوتی ہے۔ آپ اخبار اٹھاتے ہیں وہاں پورے صفحے پر ایک حسینہ بیل شو پہنے نظر آتی ہے، ٹی وی آن کرتے ہیں وہاں بھی بیل شو کی ’’رنگینیاں‘‘ دکھاتی ہیں اب ایک لڑکی جس کے پاس پہلے ہی جوتوں کے دو چار جوڑے موجود ہیں ابتدا میں اپنی خواہش پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہے مگر پھر ہر طرف بیل شو کی دھومیں دیکھ کر وہ اپنی خواہش کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہے اور جمعے کی شام کو کریڈٹ کارڈ پر بیل شو خرید لاتی ہے مگر یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوتا اس کے بعد کوئی اور سرمایہ کار کسی نئی انڈسٹری میں سرمایہ لگاتا ہے اور اپنی پروڈکٹ کے ساتھ کوئی دم چھلا لگا کر مارکیٹ میں لے آتا ہے اور ایک بار پھر ریڈیو، ٹی وی، اخبارات میں صارفین کی خواہش بیدار کرنے کی مہم شروع کر دی جاتی ہے ۔جوتا خریدنے والی لڑکی ایک دن پھر اپنی خواہش کی تکمیل بذریعہ کریڈٹ کارڈ کرتی ہے اور یہ سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے کریڈٹ کارڈ کا بل ماہ بہ ماہ بڑھتا چلا جاتا ہے چنانچہ وہ اپنے ان اخراجات کی تکمیل کے لئے اپنے کام کے اوقات بڑھا دیتی ہے پہلے آٹھ گھنٹے ، پھر نو گھنٹے پھر دس گھنٹے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ رات کو تھکی ماندی گھر لوٹتی ہے اور صوفے پر بیٹھ کر ٹی وی آن کر دتی ہے اور اکثر اوقات صوفے ہی پرسو جاتی ہے اگلی صبح وہ کافی کا کپ ہاتھ میں تھامے کار ڈرائیوکرتے ہوئے انسانوں کے بوچڑ خانے میں پہنچ جاتی ہے اور کارخانے کی مشینوں میں ایک اور انسانی مشین کا اضافہ ہو جاتا ہے ۔

مغربی ممالک کا سرمایہ دار آپ کو روٹی، کپڑے پر ملازم رکھتا ہے دو وقت کا کھانا ، لباس اور ہفتے میں ایک دن کلب میں ڈانس کی سہولت ! یہ میں وہاں کے ایک عام آدمی کی بات کر رہا ہوں جو وہاں کی آبادی کا غالب حصہ ہیں، وہ جو چیز بھی استعمال کر رہے ہوتے ہیں وہ سب سرمایہ دار کی ملکیت ہوتی ہےجن کی یہ قسطیں اتارتے رہتے ہیں وہاں چونکہ فیملی سسٹم دن بدن ٹوٹ رہا ہے چنانچہ ایک دن یہ عوام قسطیں اتارتے زمین اوڑھ کر سو جاتے ہیں ان کے یار دوست یا دور پار کے رشتہ دار ان کے آخری سفر میں ان کی آخری آرام گاہ تک جاتے ہیں اور پھر ایک دن انہیں بھی ان کے دوست احباب اور دور پار کے رشتہ دار وہاں لے جا کر سپردخاک کر دیتے ہیں جہاں ان کے ساتھ لاکھوں حسرتیں بھی دفن ہوتی ہیں تاہم وہاں کی مڈل کلاس اور اپر کلاس ایک ایسے نظام میں زندہ رہ رہی ہوتی ہے جس کی چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کرنے والی ہوتی ہے مگر ایک اداسی اور تنہائی ان کا بھی پیچھا کرتی رہتی ہے ۔ہمارے پاکستانی جو متذکرہ ممالک میں آباد ہیں وہ ایک فیملی سسٹم کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں مگر ساری فیملی کام کر رہی ہوتی ہے اور ان کا ایک دوسرے سے رابطہ دن بدن کم سے کم تر ہوتا چلا جاتا ہے ۔ان کی بظاہر نظر آنے والی خوشحالی کا پیچھا غم اندوہ کی کئی کہانیاں بھی کر رہی ہوتی ہیں یہ کہانیاں وہ آپ کے سامنے کم کم بیان کریں گے مگر جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو ان کے سارے دکھ ان کی زبانوں پر آ جاتے ہیں اور ہم پاکستان میں رہنے والے بھی اپنی خواہشات کے پیچھے اپنی اصلی خوشیاں سرمایہ داروں کے پاس رہن رکھنا شروع ہو گئے ہیں۔فیشن انڈسٹری نے تو ہم سب کو بھی اپنے شکنجے میں کس لیا ہے اس کے علاوہ عالیشان گھر، فارم ہائوسز، جیولری اور مڈل کلاس کا نت نئے موبائل فون اور اس طرح کی بہت سی ایسی چیزوں کے حصول کے لئے بھی جن کے بغیر بھی زندگی بآسانی گزر سکتی ہے، بے چین رہنا الگ کہانی ہے تاہم غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگ آج بھی انصاف کے لئے آسمان کی طرف تکتے رہتے ہیں کہ شاید کبھی افلاک سے ان کے نالوں کا جواب آہی جائے ۔

میں سرمایہ دار نظام کی بات ہے عورت کی ذلت کا الزام ہم پر لگایا جاتا ہے اور کئی حوالوں سے یہ صحیح ہی ہے مگر سرمایہ دار نے عورت کو صرف ’’اشتہاری‘‘ پروڈکٹ ہی نہیں بنایا بلکہ انہیں مکمل برہنگی کے عالم میں اسٹیج پر بھی پیش کر دیا ہے اور کئی کلبوںمیں وہ سب کچھ ہی دکھایا جاتا ہے جو پورن فلموں میں ہوتا ہے ۔’’بیلی شوز‘‘ کے حوالے سے میں نے جس لڑکی کا محض بطورمثال ذکر کیا تھا جب چیزوں کے حصول کے لئے ہر روز اس کی اشیا میں اضافہ کیا جاتا ہے تووہ دن میں چودہ گھنٹے رزق حلال کے لئے کام کرتی ہے، وہ سوچتی ہے کہ اس سے بیس چالیس گنا زیادہ رقم کما کر اپنی مرضی کا لباس خرید سکتی ہے اور اس کیلئے اسے صرف اسٹیچ پر اپنا لباس اتارنا ہو گا ۔سرمایہ دار کی کامیابی تذلیلِ انسانیت ہے، میں نے امریکہ میں ایک پی ایچ ڈی کی ڈگری کی حامل اس سوچ کی حامل ایک خاتون کا انٹرویو پڑھا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ مجھے اپنا جسم فروخت کرنے میں کوئی عار نہیں ،یہ جسم میری اپنی ملکیت ہے۔

اور آخر میں یہ کہ ویلنٹائن ڈے، فادرز ڈے، مدرز ڈے، برادرز ڈے، فرینڈز ڈے وغیرہ وغیرہ کو فروغ ہی اس لئے دیا گیا ہے کہ صارفین کی جیبیں خالی کرائی جائیں۔ رشتوں کو جوڑنا بہت اچھی بات ہے مگر اسکے پیچھے نیت جیب تراشی ہی کی ہے۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے