صحرائے تھل ‘ منکیرہ اور ہم(مکمل کالم)

وقت کا دریا ازل سے یوں ہی بہہ رہا ہے۔ راستہ وہی رہتا ہے لیکن مسافر بدلتے رہتے ہیں۔کہتے ہیں موسموں کا یہی اُلٹ پھیر اور فطرت کی یہی دھوپ چھاؤں زندگی کا حُسن ہے۔آج میں مغل صاحب کے ہمراہ تھل کے صحرا میں واقع منکیرہ کی طرف جا رہا ہوں۔جب میں زندگی کے بہاؤ سے بے زار ہو جاتا ہوں تو فطرت کا دامن مجھے اپنی طرف بلاتا ہے اور میں بے اختیار اس کی جانب کھنچا چلا جاتا ہوں‘ ایسے میں مغل صاحب میرے ہمراہ ہوتے ہیں۔ آج تھل کے صحرا میں ملک صاحب کا ڈیرہ میری منزل ہے جہاں وقت جیسے رُک جاتا ہے۔مجھے یاد ہے پچھلے برس ہم دونوں دسمبر کے مہینے میں وہاں گئے تھے تب ہر طرف دھند کا راج تھا۔ہم رات کو اور صبح سویرے لکڑیوں کا الاؤ دھکاتے اور اس کے ارد گرد بیٹھ جاتے لیکن اس بار جون کا مہینہ تھا اور محکمہ موسمیات کے مطابق آج تھل کا درجہ حرارت 50ڈگری سنٹی گریڈ تھا۔میں نے دل میں سوچا‘ صحرا کو مختلف موسم میں دیکھنے کا تجربہ کیسا ہوگا۔اس دن سورج واقعی آگ برسا رہا تھا۔یوں لگتا تھا گاڑی کے اندر اے سی غیر مؤثر ہو گیا ہے۔گاڑی اپنی رفتار سے سڑک پر چل رہی تھی۔باہر اکا دُکا کسان سڑک کے کنارے چلتے نظر آجاتے۔آخر اٹھارہ ہزاری کا سٹاپ آیا تو مجھے اطمینان ہوا کہ منزل زیادہ دور نہیں۔اس جگہ کا نام اٹھارہ ہزاری کیوں ہے اس بارے میں مختلف روایات ہیں‘مغلوں کے دور میں یہ ایک خطاب یا انعام تھاجو تخت کے وفاداروں کو دیا جاتا تھا‘اس سے آگے کا قصبہ حیدرآباد ہے اور پھر منکیرہ کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔

گاڑی اپنی رفتا ر سے آگے بڑھ رہی تھی۔ اب ہمارے دائیں اور بائیں صحرا کی وسعت تھی۔مکمل چٹیل صحرا جس کی ریت پر ہوا نے اپنے نقش ونگار بنا رکھے تھے۔ذرا آگے ریت کے بگولے اُٹھ رہے تھے۔اس وقت یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے صحرا غصے میں پھنکار رہا ہے اور اپنے اردگرد ہر ذی روح کو بھسم کر دینا چاہتا ہے۔اب ہم ملک صاحب کے ڈیرے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ہمارے اردگرد دو رویہ کھگل کے درختوں کی قطاریں تھیں۔یہ درخت یہاں عام پایا جاتا ہے۔اس کی لکڑی فرنیچر بنانے کے کام آتی ہے۔سخت گرمی میں بھی کھگل کی نشوونما پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔یوں یہ درخت مقامی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ارد گرد کے کھیتوں میں مالٹوں کے باغات تھے۔کہیں مونگ کی فصل تھی۔کہیں کھجوروں کے درخت تھے۔اب ہماری گاڑی کچے راستوں پر چل رہی تھی۔شدید گرمی سے ریت پاؤڈر کی طرح باریک ہو گئی تھی اور کچھ جگہوں پر تو ڈرائیور کی ذرا سی غفلت سے ٹائر ریت میں دھنس سکتے تھے۔چونکہ راستوں پر کوئی بورڈ نہیں ہوتے اس لیے بعض اوقات منزل تلاش کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔آخر کار ایک دو غلط موڑ کاٹ کر ہم ملک صاحب کے ڈیرے پر پہنچ گئے۔میں نے دیکھا کہ اس دفعہ ڈیرے کے چاروں طرف سٹیل کے تاروں کی باڑ تھی جس کی اونچائی آٹھ فٹ کے قریب تھی اور باقاعدہ ایک گیٹ تھا۔یوں اب ڈیرہ زیادہ محفوظ ہو گیا تھا‘خاص بات یہ تھی کہ ان تاروں کی وجہ سے سکیورٹی کا مسئلہ تو حل ہو گیا تھا اور ڈیرے میں بیٹھ کر سٹیل کے تاروں کے پار کے منظر یوں نظر آتے تھے جیسے درمیان میں کوئی رکاوٹ نہیں۔گاڑی کو دیکھ کر ماجد نے گیٹ کھولا۔ ماجد یہا ں کا دیرینہ ملازم ہے بلکہ ڈیرے کا منیجر ہے اور دوسرے ملازموں کی نگرانی کرتا ہے۔ملک صاحب نے ہمیشہ کی طرح خندہ پیشانی سے استقبال کیا۔

ملک صاحب کے ڈیرے کے ایک حصے میں جہاں ٹیوب ویل لگا ہے بکائن کے اونچے لمبے اور گھنے درختوں کا جھنڈ ہے۔یہ درخت بلندی پر پہنچ کر ایک دوسرے سے مِل جاتے ہیں اور ان کے نیچے گہرا سایہ ہے اورزمین پر ریت ہے۔یہاں دو چارپائیاں بچھی تھیں۔ماجد نے ٹیوب ویل کا پانی چلا دیا تھا‘میں اور مغل صاحب بچھی ہوئی چارپائیوں پر بیٹھ گئے‘ہم نے جوتے اُتار کر ٹھنڈے بہتے ہوئے پانی میں پاؤں ڈال دیے۔ میں نے دیکھا کہ ڈیرے میں کچھ نئے مکین آگئے ہیں جن میں مرغیاں‘ کبوتر‘بطخیں اور مور شامل تھے۔ایک درخت کے ساتھ ایک چھوٹے قد کا خوب صورت کتا بندھا تھا۔یوں لگتا تھا ڈیرے پر زندگی دھڑک رہی ہے۔تھوڑی دیر میں ماجد نمکین لسّی کا جگ لے آیا۔

اب شاید یہ سفر کی تھکان تھی ‘لسّی کا اثر تھا ‘بکائن کے درختوں کا ٹھنڈا سایہ یا چارپائی کے نیچے ریت پر چلتا ہوا ٹھنڈا پانی۔میں بان کی چارپائی پر تکیے پر سر رکھ کر سو گیا۔ایسی گہری نیند ایک عرصے کے بعد نصیب ہوئی تھی۔جانے میں کتنی دیر سوتا رہتاکہ مور کی تیز آواز سے آنکھ کُھل گئی۔میں نے ماجد سے چائے کا کہا ۔یہاں چائے کا مطلب دودھ پتی ہوتا ہے۔میں نے ٹیوب ویل کے پانی سے منہ ہاتھ دھویا‘ اتنی دیر میں ملک صاحب بھی آگئے۔ ماجد نے دو چارپائیوں کے درمیان میز پر چائے رکھ دی ملک صاحب کہنے لگے :اُمید ہے آپ نے کچھ آرام کر لیا ہوگا۔میں نے کہا :ایسی گہری نیند ایک عرصے بعد آئی۔ ملک صاحب کہنے لگے: رات کا کھانا ساہی صاحب کے ڈیرے پر ہے‘ وہ آپ کو اچھی طرح جانتے ہیں۔میں نے کہا :اچھا ساہی صاحب یہاں رہتے ہیں؟ یہ خبر میرے لیے خوشگوار حیرت تھی۔ ساہی صاحب کا ہمارے گھر سے دیرینہ تعلق ہے۔ان کا گھرانہ انتہائی نفیس اور مہربان لوگوں کاگھرانہ ہے جن میں عاجزی اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔طویل عرصے سے ان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ساہی صاحب کا ڈیرہ زیادہ دور نہیں تھا۔ملک صاحب نے کلاشنکوف ہمراہ لی اور ہم دو گاڑیوں میں ساہی صاحب کے گھر روانہ ہو گئے ۔اگلی گاڑی مغل صاحب چلا رہے تھے ۔

میں ان کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ ملک صاحب پچھلی سیٹ پر تھے اور ان کے پہلو میں کلاشنکوف رکھی تھی ۔ساہی صاحب کا ڈیرہ بلندی پر واقع تھا ۔اتنے طویل عرصے کے بعد ان سے ملاقات بہت خوشگوار تھی۔یہاں پر کچھ دلچسپ لوگوں سے ملاقات ہوئی جن میں سے ایک چیمہ صاحب تھے جو مانچسٹر میں آباد ہیں لیکن یہاں زمینداری کرتے ہیں۔چیمہ صاحب نے یہاں چاول کی کاشت کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔یہیں ایک نوجوان کاشت کاررانا محسن سے ملاقات ہوئی جن کے مالٹوں کے باغات اس علاقے میں ایک مثال کے طور پر مشہور ہیں۔تھل کے صحرا میں بلند ٹیلے پر واقع ڈیرے پر باربی کیو کا منظر اور ذائقہ سب سے جُدا تھا۔ملک صاحب اور ساہی صاحب کی رفاقت ایک طویل عرصے پر پھیلی ہوئی ہے۔دونوں کے درمیان ایک محبت اور احترام کو رشتہ ہے۔یہ ایک یاد گار محفل تھی جو نصف شب تک جاری رہی۔رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے جب رخصت چاہی۔شہر میں تو ساڑھے بارہ بجے سڑکوں پر چہل پہل ہوتی ہے لیکن یہ تھل کا صحرا تھا جودور دور تک تاریکی او ر سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا۔ہم دو گاڑیوں میں سفر کر رہے تھے۔واپسی پر وہی ترتیب تھی اگلی گاڑی کو مغل صاحب چلا رہے تھے اور ساتھ والی سیٹ پر میں بیٹھا تھا۔پچھلی سیٹ پر ملک صاحب اپنی کلاشنکوف کے ہمراہ تھے۔ پچھلی کار میں ملک صاحب کے ملازمین آرہے تھے۔کچے راستوں پر نرم باریک ریت تھی جس پر ڈرائیو کرنا آسان نہ تھا۔باہر کھگل کے گھنے درختوں کی قطاریں تھیں۔خاموش سنسان رات میں گیدڑوں کی آواز سنائی دیتی تھی۔میری آنکھیں نیند سے بند ہو رہی تھیں اور پھر شاید میں سو گیا تھا۔اچانک ہماری گاڑی ایک جھٹکے سے رُک گئی۔میں نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں اور اپنے دائیں طرف مغل صاحب کو دیکھا۔ ڈرائیونگ سیٹ خالی تھی اور مغل صاحب کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ میں نے تیزی سے مڑ کر پچھلی سیٹ کو دیکھا جہاں ملک صاحب دائیں ہاتھ میں کلاشنکوف لے کر گاڑی سے باہر نکل رہے تھے ۔

ھل کا صحرا جلتے سورج کے نیچے دہک رہا تھا۔ وقت جیسے ٹھہر گیا تھا۔ ملک صاحب نے ڈرائیور کو پرانے ڈیرے کی طرف گاڑی موڑنے کا کہا۔ یہ ڈیرہ بلندی پر بنایا گیا تھا۔ یہاں خاص طور پر پرندوں اور جانوروں کو رکھا گیا تھا۔ مرغیوں کی بیماری کے اثرات شاید یہاں بھی پہنچ گئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کچھ مرغیاں نڈھال سی لگ رہی تھیں۔ ہم نے دیکھا نئے پودے بغیر سہارے کے جُھک گئے تھے۔ ملک صاحب نے وہاں کے ملازم کو ہر پودے کے ساتھ لکڑی کا ایک سہارا لگانے کی تاکید کی تاکہ پودوں کی بڑھوتری میں ٹیڑھ نہ آئے۔ کچھ دیر کیلئے جو ہم گاڑی سے اُتر کر دہکتے سورج کے نیچے آئے تو مجھے اندازہ ہواکہ یہاں کے رہنے والے عام لوگ اور کاشتکاروں کی زندگی کس قدر مشکل ہو گی جو چلچلاتی دھوپ میں سارا سارا دن دہکتے سورج کے نیچے کام کرتے ہیں۔ ہمارے دیہات میں عورتیں بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں‘ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ سارا سال موسم کی سختیوں کو برداشت کرنے اور خون پسینے سے اپنی فصلوں کو سینچنے کے بعد جب کمائی کا وقت آتا ہے تو منافع کا بڑا حصہ مڈل مین کی نذر ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ عین اس وقت جب فصل تیار ہو چکی ہوتی ہے تیز بارش یا آندھی سارے سال کی محنت کو اڑا کر لے جاتی ہے۔ ایسے میں کاشتکاروں کی بے بسی دیدنی ہوتی ہے۔ ملازمین کو مختصر ہدایات دینے کے بعد ملک صاحب ڈرائیور کو نئے ڈیرے پر چلنے کا کہا۔

یہاں آ کر پتہ چلا کہ مُغل صاحب جو صبح سویرے کے اپنے دوست کے ہاں گئے ہوئے تھے ابھی تک واپس نہیں پہنچے۔ میں نے سوچا‘ کچھ دیر سو جاؤں۔ بستر پر لیٹنے کی دیر تھی کہ پنکھے کی ہوا اور ایئرکنڈیشنر کی ٹھنڈک نے مجھے تھپک تھپک کر سُلا دیا۔ میں اتنی گہری نیند سویا کہ پتہ ہی نہ چلا کہ مغل صاحب اپنے دوست کے ہاں سے واپس آگئے ہیں۔آنکھ کُھلی تو مُغل صاحب ساتھ والی چارپائی پر سو رہے تھے۔ میں دبے پاؤں کمرے سے باہر نکل آیا اور اپنی محبوب جگہ پر آ گیا جہاں بکائن کے اونچے لمبے درختوں کی گھنی اور مہربان چھاؤں میرا انتظار کر رہی تھی۔ میں وہاں بچھی ہوئی چارپائی پربیٹھ گیا۔ مجھے دیکھ کر ماجد بھی وہیں آگیا۔ میر ے کہنے پر اس نے ٹیوب ویل کا پانی کھول دیا۔ کچھ ہی دیر میں ٹھنڈا شفاف پانی چارپائی کے نیچے بچھی ریت پر رواں تھا۔

ریت پر بہتے ہوئے ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈال کر بیٹھنا بھی ایک فرحت بخش تجربہ ہے۔ ماجد کھیتوں سے تربوز لے آیا۔ ہم نے انھیں ٹھنڈا کرنے کے لیے ٹیوب ویل کے حوض میں ڈالا اور خود حوض کی چھوٹی دیوار پر کھالے میں پاؤں ڈال کر بیٹھ گئے۔ ٹھنڈے پانی کی تاثیر میں پورے جسم میں محسوس کررہا تھا۔ اچانک ایک پرندے کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔کیسی سریلی آواز تھی۔ میں نے آواز کی طرف مُڑ کر دیکھا۔ یہ چڑیا سے ذرا بڑی جسامت کا پرندہ تھا جس کی دُم اس کے جسم سے دوگنا لمبی تھی۔ میں نے پرندے کے خوبصور ت رنگوں کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔

اسی روز میں نے صبح کے وقت یہاں ایک لومڑی دیکھی تھی اور کالے بھورے تیتروں کے لیے تو یہ علاقہ خاص طور پرمشہور ہے۔ اچانک میری نگاہ بکائن کے درختوں کے گھنے جھنڈ پر پڑی جہاں تتلیاں اُڑ رہی تھیں۔ ان کے پروں کا رنگ سنگترے کے رنگوں جیسا تھا‘ جن پر سیاہ رنگ کے نشانات تھے۔ ان نشانات کے گرد زرد رنگ کے دائرے تھے۔ میں نے سوچا فطرت کے یہ رنگ شہروں کی بے ہنگم زندگی میں ہماری نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ دیر تک میں ٹیوب ویل کے پُرشور پانیوں میں پاؤں ڈال کر بیٹھا رہا۔ اسی اثنا میں ملک صاحب اورمغل صاحب بھی آ گئے۔ دونوں چارپائیوں کے درمیان میز پر ماجد نے تربوز، آم اور آڑو کاٹ کر رکھے تھے۔ مغل صاحب نے بتایاکہ ان کا دورہ اچھا رہا البتہ گرمی کی شدت نے انہیں نڈھال کر دیا تھا۔ کچھ دیر کی نیند اور اب ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈال کر ان کے اوسان بحال ہو رہے تھے۔ ملک صاحب نے بتایا کہ قریبی علاقے دریا خان سے ان کے کچھ دوست آرہے ہیں۔ وہ اپنے ہمراہ وہاں کی دل پسند ڈشیں بنا کر لا رہے ہیں۔ ہم ڈنر ایک ساتھ کریں گے۔

یہ یہاں کے پُرخلوص دوستی کے رشتے ہوتے ہیں جو بڑے ہی انمول ہوتے ہیں لیکن اب ایسے رشتے صرف گاؤں اور دیہات تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ساہی صاحب کا فون آیا۔ ملک صاحب فون پر ان سے کچھ دیر بات کرتے رہے۔ فون بند کرنے کے بعد انہوں نے ہمیں بتایا کہ ساہی صاحب نے دعوت دی ہے کہ رات کا کھانا ان کے ڈیرے پر ہوگا۔ جب ملک صاحب نے انہیں دریا خان والے دوستوں کا بتایا تو وہ کہنے لگے: اُنہیں بھی اپنے ہمراہ لے آئیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا‘ ملک صاحب اور ساہی صاحب میں دوستی اور محبت کا ایسا رشتہ ہے کہ ملک صاحب انکار نہ کر سکے۔ دریا خان کے دوستوں کی آمد پر ہم ان کے ہمراہ ساہی صاحب کے ڈیرے پر آگئے۔ یوں تو یہ ڈیرہ پچھلے کئی سالوں سے آباد ہے اور اس علاقے میں کینو کے باغات کیلئے جانا جاتا ہے لیکن اس میں تازہ ترین اضافہ کھجوروں کے درختوں کا ہے جو سینکڑوں کی تعداد میں لگائے گئے ہیں۔ میں نے چھت پر جاکر دیکھا۔ ڈوبتے سورج کی نارنجی روشنیوں میں ان کا حُسن اور بھی سوا ہو گیا تھا۔ مجھے اقبال کی نظم مسجدِ قرطبہ یاد آگئی۔ اقبال مسجدِ قرطبہ کی خوبصورتی کی تعریف کرتے ہوئے اس کے لاتعداد ستونوں کو صحرا میں درختوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔
تیری بنا پائدار، تیرے ستون بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل

دور دور تک پھیلے ہوئے کھجور کے درختوں کو دیکھ کر میں سوچ رہا تھا کہ جب یہ اپنی بُلندی پر آئیں گے تو دیکھنے والوں کے لیے کیسا خوش رنگ نظارہ ہوگا۔ اتنی دیر میں ساہی صاحب کا بلاوہ آ گیا کہ کھانا تیار ہے۔ لمبی میز کے اردگرد کرسیاں رکھی تھیں۔ میز کے ایک سِرے پر ملک صاحب اور دوسرے سِرے پر ساہی صاحب بیٹھے تھے۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی ساہی صاحب کی محفل میں خوب رونق تھی۔ یہ محفل دیر تک جاری رہی۔ رات گئے ہم واپس اپنے ڈیرے پر پہنچے۔ اگلے روز یہاں ہمارا آخری دن تھا۔ دو اُبلے ہوئے دیسی انڈوں اور دودھ پتی کے ناشتے سے پہلے ہم نے ٹھنڈی فرحت بخش لسّی کے دو دو گلاس پیے۔ اس دوران بطخیں، مور اور مرغیاں آزادانہ ہماے اردگرد گھوم رہے تھے۔ اب جانے کا وقت ہو گیا تھا۔ میں نے اور مُغل صاحب نے ملک صاحب سے اجازت لی‘ اور واپسی کا سفر شروع کیا۔ وہی گرمی میں تپتی ہوئی ریت اور مٹی اُڑاتی ہوئی لُو کے تھپیڑے۔

بھیرہ کے انٹرچینج پر ہم نے کافی پی اور پھر سے تازہ دم ہو کر سفر کا آغاز کیا۔ کلر کہار داخل ہوتے ہی آسمان سیاہ بادلوں میں چھپ گیا اور پھر تیز بارش کا آغاز ہو گیا۔ میں نے گاڑی کا شیشہ کھول کر اپنا ہاتھ باہر نکالا اور بارش کے قطرے میری ہتھیلی کو بھگونے لگے۔ اچانک میرا دھیان ملک صاحب کے ڈیرے کی طرف چلا گیا۔ میں نے سوچا اس وقت وہاں بھی موسلادھار بارش ہورہی ہوگی۔ بکائن کے اونچے لمبے درخت بارش میں نہا رہے ہوں گے۔ مور، بطخیں، مرغیاں کیسے بارش میں خوش ہو رہے ہوں گے۔ پیاسی زمین پر بارش سے سوندھی مٹی کی خوشبو اُٹھ رہی ہوگی اور ملک صاحب برآمدے میں بیٹھ کر یہ سارا منظر دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں گے۔ تیز بارش کی بوچھاڑ گاڑی میں آنے لگی تو میں نے شیشہ بند کر دیا اور آنکھیں بند کرکے سوچنے لگا: وقت کا دریا ازل سے یونہی بہہ رہا ہے‘ راستے وہی رہتے ہیں لیکن مسافر بدل جاتے ہیں موسموں کا یہی اُلٹ پھیر اور فطرت کی یہی دھوپ چھاؤں زندگی کا حُسن ہے۔

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے