خیبرپختونخوا: پن بجلی کی مد میں پوراسال گزرجانے کے باوجود 30ارب کی ادائیگی بھی نہ ہوسکی

خیبرپختونخواحکومت کی عدم دلچسپی،وفاقی حکومت کی سردمہری اوردیگرکئی وجوہات کے باعث صوبائی حکومت کو پن بجلی کے حاصل منافع اوربقایاجات کے58ارب روپے میں پوراسال گزرجانے کے باوجود 30ارب کی ادائیگی بھی نہ ہوسکی، جسکے باعث صوبائی حکومت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام پایہ تکمیل تک پہنچانے میں شدیدمشکلات کاسامناہے۔محکمہ خزانہ کے اعلیٰ افسران کے مطابق صوبائی حکومت پن بجلی کے بقایاجات اور ادائیگی سے متعلق ایک ہی سیاسی جماعت ہونے کے باوجود وفاقی سطح پر اپنے مسئلے کو درست اندازمیں نہیں اٹھارہی جسکے باعث پن بجلی کے بقایاجات اور منافع کی ادائیگی کےساتھ اے جی این فارمولہ بھی فائلوں میں دب کررہ گیا۔

[pullquote]پن بجلی کی مدمیں صوبائی حکومت کے بقایاجات کتنے ہیں۔۔؟[/pullquote]

2019-20کے بجٹ میں وفاقی حکومت نے خیبرپختونخواحکومت کو پن بجلی کے بقایاجات اور منافع کی مد میں 55ارب67کروڑکی ادائیگی کرنی تھی جس میں 21ارب روپے خالص منافع گزشتہ سال کے11ارب90کروڑکے بقایاجات اوراس سے گزشتہ سال کے22ارب روپے کے بقایاجات شامل تھے تاہم خیبرپختونخواحکومت کواس میں صرف 32ارب روپے کی ادائیگی کی گئی خیبرپختونخواحکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ2020-21ءمیں پن بجلی کے بقایاجات اورمنافع کی مد میں58ارب30کروڑکامطالبہ کیاہے جس میں 21ارب پچاس کروڑکے بقایاجات جب کہ باقی رواں مالی کی ادائیگی ہے ۔خیبرپختونخواحکومت کو رواں مالی سال کے دوران اب تک تیس ارب روپے کی ادائیگی بھی نہ ہوسکی گزشتہ سال خیبرپختونخواحکومت نے اگست کے مہینے میں وفاق سے مطالبہ کیاتھاکہ پن بجلی کے منافع اور بقایاجات کےلئے ایک مستقل فارمولہ طے کیاجاناچاہئے تاکہ صوبائی حکومت کوادائیگی آسان ترآسان کی جاسکے۔نومبرسے خیبرپختونخواحکومت سے ماہانہ تین ارب روپے کی ادائیگی کاسلسلہ شروع ہوا تاہم فروری میں کروناکی تیسری لہرسامنے آنے کے بعد ادائیگیوں میں کچھ اضافہ کیاگیااوراب تک صرف29ارب روپے سے زائد کی ادائیگی ہوچکی ہے اسی طرح وفاقی حکومت اب بھی تقریباً29ارب روپے کی مقروض ہے۔

[pullquote]پن بجلی کی ادائیگی کب سے کی جارہی ہے۔۔؟[/pullquote]

1991-92کے پانی کے معاہدے کے تحت وفاق خیبرپختونخواحکومت کو سالانہ چھ ارب روپے کی ادائیگی کررہاتھا 2006ءمیں متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے ثالثی کمیشن کے ذریعے پن بجلی کے منافع میں اضافے کامطالبہ کیا اوراس متعلق عدالت عظمیٰ میں کیس دائر کردیا اس دوران واپڈانے ایک مرتبہ پھرثالثی کمیشن سے رجوع کیا اور صوبائی حکومت کےساتھ وعدہ کیاکہ 110ارب روپے کی بقایاجات کی ادائیگی کی جائے گی تاہم سالانہ صرف چھ ارب منافع کی مد میں اداکئے جائیں گے 2015ءمیں سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے ایک مرتبہ پھرنیپرامیں کیس دائر کردیاکہ خیبرپختونخواحکومت کواے جی این فارمولے کے تحت ادائیگی کی جائے تاہم نیپرا نے ایک مرتبہ پھرثالثی کمیشن کے ذریعے صوبائی حکومت کےساتھ صلح کرلی اور پن بجلی کے بقایاجات کی مد میں سترارب کی ادائیگی کاوعدہ کیاساتھ ہی یہ بھی طے پایاگیاکہ صوبائی حکومت کواب چھ ارب نہیں بلکہ فی یونٹ ایک روپے کی ادائیگی بھی کی جائے گی اسی طرح2017-18ءمیں صوبائی حکومت نے تقریباًبیس ارب روپے کی ادائیگی کامطالبہ کردیا جورواں سال بڑھ کر پچیس ارب روپے تک پہنچ گیاہے تاہم وفاقی حکومت نے خیبرپختونخواکوسترارب روپے کے بقایاجات میں بھی چالیس ارب کی ادائیگی کی ہے لیکن تیس ارب روپے تاحال ادا نہیں کئے ۔

[pullquote]اے جی این قاضی فارمولہ کیاہے۔۔؟[/pullquote]

90ءکی دہائی میں آفتاب غلام نبی قاضی (اے جی این قاضی)کی سربراہی میں قائم کردہ کمیشن نے ایک فارمولہ طے کیاکہ خیبرپختونخواحکومت جوبجلی پیداکرتی ہے واپڈااس سے پیداوارکے خرچے اور لائن کے کرایے کے علاوہ باقی تمام رقوم کی ادائیگی کریگی 2017-18ءمیں یہ رقم 125ارب روپے سالانہ تھی اوراب تک اے جی این فارمولے کے تحت وفاقی حکومت نے صوبے کو638ارب روپے اداکرنے ہیں واضح رہے کہ مشترکہ مفادات کونسل اور دیگرکئی فورم نے بھی اے جی این فارمولے کی توثیق کی ہے لیکن واپڈانے تاحال اس فارمولے سے اتفاق نہیں کیاجسکے باعث صوبائی حکومت کو اس فارمولے کے تحت ادائیگی نہیں ہوپارہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے