بجٹ سے بارشوں تکبجٹ سے بارشوں تک

بجٹ تو چھوڑیں کہ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا لیکن میں نے بجٹ پر تبصروں اور تجزیوں کو بہت انجوائے کیا۔ اندازہ نہیں تھا کہ ملک میں اتنے ’’ایڈم سمتھ‘‘ موجود ہیں۔ بجٹ کے بعد حکومت اور اپوزیشن میں اعداد و شمار کی تلواریں چل رہی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ہمیں بجٹ کو سنجیدگی سے لینا ہی نہیں چاہئے کیونکہ جہاں منی بجٹ در منی بجٹ اور سجی مار کر کھبی دکھانے کا کلچر ہو وہاں TAKE IT EASYرویہ ہی بہتر ہے لیکن چلو کچھ انتظار کر لیتے ہیں کیونکہ وزیر خزانہ نے ’’وعدہ‘‘ کیا ہے کہ کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا تو گھوڑا دور نہ میدان دور۔ ’’وعدے‘‘ سے کچھ شعر شیئر کرنا ضروری ہو گا۔

امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی

وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا

داغ مرحوم نے شاید اسی دن کیلئے لکھا تھا

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی

مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

ساغر صدیقی وعدوں کو یوں دیکھتے ہیں

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں

ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں

اور پھر چچا غالب نے تو بات ہی مُکا دی ہے

ترے وعدے پر جیئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

بہرحال وزیر خزانہ کا وعدہ ہے کوئی معمولی بات نہیں، اس لئے انتظار کرنا چاہئے آنے بہانے اس منی بجٹ کا جو نہ آیا تو میں اسے اک معجزہ سمجھوں گا اور اگر واقعی نہیں آتا تو میری دیانتدارانہ رائے ہے کہ موجودہ حالات میں اس سے بہتر بجٹ ممکن ہی نہیں تھا اور جہاں تک تعلق ہے اس سوال کا کہ بجٹ ’’عوام فرینڈلی‘‘ تھا یا نہیں تو برادرانِ ملت! پرو عوام بجٹ صرف کھاتی پیتی خوشحال ویلفیئر سٹیٹ میں ہوتا ہے جبکہ یہاں تو ’’آمدنی اٹھنی خرچہ روپیہ‘‘ والی صورت حال ہے۔ یہ محاورہ کسی اور نہیں ہماری معیشت کیلئے ہی معرض وجود میں آیا تھا کہ ’’سر ڈھانپوں تو پائوں ننگے اور پائوں ڈھانپوں تو سر ننگا‘‘۔ جس ملک معاشرہ میں وسائل کی اکثریت پر ایک اقلیت کی مکمل اجارہ داری ہو وہاں عوام دوست بجٹ کا کیا کام؟ ہمارے بجٹ تو بدمست ہاتھی کے دانت ہوتے ہیں، کھانے کے اور دکھانے کے اور اس لئے خوامخواہ کے تبصروں تجزیوں کی گنجائش ہی نہیں۔ فی الحال تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو، دو چار مہینوں میں بجٹ خود بتا دے گا کہ وہ کیسا ہے۔ میرا مخلصانہ مشورہ تو یہی ہوگا کہ کسی کی بات پر کان نہ دھریں کیونکہ چند ہفتوں کے اندر اندر آپ کے گھر کا بجٹ آپ کو بتا دے گا کہ حکومتی بجٹ کیسا ہے؟

چلتے چلتے پیپلز پارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی بھی سن لیں جنہوں نے عوام کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ آپ لوگ تیاری پکڑ لیں کیونکہ پٹرول 20روپے فی لٹر مہنگا ہونے والا ہے جس کے نتیجہ میں ظاہر ہے سب کچھ مہنگا ہوگا۔

سچ تو یہ کہ اس گوشہ نشین کے نزدیک بجٹ سے بھی کہیں اہم مون سون یعنی برسات کی بارشیں ہیں جن کا رومانس اپنی جگہ لیکن اگر بروقت مناسب تیاریاں نہ کی گئیں تو یہ بارشیں بجٹ سے بھی بھاری ثابت ہو سکتی ہیں کیونکہ محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ رواں مہینے کے آخری ہفتہ سے برسات کی بارشوں کا امکان ہے۔ دریائوں میں سیلابی اور طغیانی کیفیت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بالائی نصف پنجاب، شمالی بلوچستان اور کشمیر میں معمول سے زیادہ بارشوں کا امکان ہے اور ان بارشوں کے سبب پنجاب، سندھ، کے پی کے برساتی نالوں میں اربن فلڈنگ کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ دریائوں میں طغیانی اور سیلابی صورتحال بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ بلندی پر معمول سے زیادہ درجہ حرارت کے باعث شمالی علاقہ جات میں برف پگھلنے کی شرح میں بھی اضافہ کا امکان ہے۔ ہم پیاس لگنے پر کنواں کھودنے والےلوگ ہیں۔ ممکن ہو تو متعلقہ ادارے اور افراد ابھی سے تیاری شروع کر دیں ورنہ ایسا نہ ہو جیسا شہزاد احمد کے ساتھ ہوا تھا۔

میں کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر

کانپ اٹھا ہوں گلی کوچوں میں پانی دیکھ کر

یا پھر درویش ساغر کی یہ دعا قبول ہو جائے

یہ کناروں سے کھیلنے والے

ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو

ایسا نہ ہو کہ بجٹ سے بچ نکلیں تو بارشوں، سیلابوں کی بھینٹ چڑھ جائیں کیونکہ

اندھیری رات، طوفانی ہوا، ٹوٹی ہوئی کشتی

یہی اسباب کیا کم تھے کہ اس پہ ناخدا تم ہو

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے